پاکستان میں میڈیکل کالجوں کے داخلے کے سخت مقابلے، لاگت، اور وقت کے مسائل سے تنگ نوجوان اب افغانستان کو اپنی منزل بنا رہے ہیں۔افغانستان کی مختلف سرکاری اور پرائیویٹ جامعات میں پاکستانی بالخصوص خیبرپختونخوا کے نوجوان اپنا ڈاکٹر بننے کا وہ خواب پورا کر رہے ہیں جو کئی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں ممکن نہیں ہو پاتا۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی ویب سائٹ پر اس وقت افغانستان کی 16 جامعات رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں پاکستانی طلبا ڈاکٹر آف میڈیسن (ایم ڈی) کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
اُردو نیوز نے افغانستان میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلبا سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان کی جامعات میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ ان کے لیے کیسا ہے۔
افغانستان میں سرکاری جامعات ہر سال پاکستانی طلبا کے لیے سکالرشپ ٹیسٹ منعقد کرتی ہیں جس میں کامیاب ہونے والوں کو فیس میں رعایت کے ساتھ رہائش اور کتابوں کی سہولت دی جاتی ہے۔ یہ ٹیسٹ پاکستان کے میڈیکل انٹری ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) جیسا ہوتا ہے۔21 سالہ محمد قاسم کابل کی سپین غر میڈیکل یونیورسٹی میں چوتھے سمسٹر میں زیر تعلیم ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم جب ٹیسٹ دینے آئے تھے تو اس وقت 1500 امیدواروں میں سے صرف 60 اُمیدواروں کو ٹیسٹ کے ذریعے منتخب کرنا تھا۔ ٹیسٹ میں اسلامیات، فارسی، افغان تاریخ، اور سائنس شامل ہوتی ہے۔‘محمد قاسم نے بتایا کہ پاکستان میں میڈیکل کالجوں کے لیے ٹیسٹ میں ناکام ہونے کے بعد ری اپئیر کے چکر نے انہیں افغانستان کا رُخ کرنے پر مجبور کیا۔’میں نے پاکستان میں میڈیکل ٹیسٹ دیا لیکن سکور کم آنے پر مجھے کئی سال انتظار کرنا پڑتا۔ افغانستان کا داخلہ ٹیسٹ نسبتاً آسان ہے، جس میں آپ آسانی سے پاس ہوسکتے ہیں۔‘ان طلبا کے لیے افغانستان صرف ایک تعلیمی مرکز نہیں، بلکہ ثقافتی شناخت کا حصّہ بھی بن چکا ہے۔ شمالی وزیرستان کے 24 سالہ شہزادہ مسعود نے شیخ زید میڈیکل یونیورسٹی کابل سے 2025 میں گریجویشن کیا۔ ان کے والد نے افغانستان کے خوشحال خان سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔افغانستان میں سرکاری جامعات ہر سال پاکستانی طلبا کے لیے سکالرشپ ٹیسٹ منعقد کرتی ہیں (فوٹو: سپین غر میڈیکل یونیورسٹی فیس بک)وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارے خاندان کا افغان ثقافت سے گہرا تعلق ہے۔ یہاں پڑھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی غیر ملک میں ہوں۔‘انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا انتخاب ان کے خاندانی روابط اور تعلیمی سہولیات کی وجہ سے تھا۔شہزادہ مسعود شیخ زید یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور افغانستان میں پاکستانی طلبا کمیونٹی کے صدر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان انٹرنیشنل میڈیکل سٹوڈنٹس نامی ایک تنظیم کے ڈپٹی سیکریٹری بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’افغانستان کی سرکاری جامعات میں ہر سال 47 پاکستانی طلبا کو سکالرشپ دی جاتی ہے۔ ننگرہار، جلال آباد، اور کندھار جیسے شہروں کی یونیورسٹیوں میں ہماری کمیونٹی مضبوط ہے۔ پرائیویٹ جامعات کے لیے صرف بنیادی ٹیسٹ درکار ہوتا ہے جبکہ کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘افغانستان میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا کے مطابق افغان جامعات کا میڈیکل نصاب دنیا بھر کے معیارات کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔ تاہم پشتو میں بھی لیکچرز کی سہولت موجود ہے جو پاکستان کے طلباء کے لیے ایک مثبت کشش ہے۔شہزادہ مسعود اسی وجہ سے افغانستان کے ماحول کو ثقافتی ہم آہنگی کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول 'یہاں پشتو اور اُردو بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ تعلیم انگلش میں ہے، لیکن کلاس میں مادری زبان میں سوالات پوچھنے کی آزادی ہے۔ ہاسٹلز میں پاکستانی طلباء کے لیے علیحدہ سکیورٹی اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات ہیں۔‘افغانستان سے حاصل کردہ ایم ڈی کی ڈگری کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) تسلیم کرتی ہے (فوٹو: پنٹریسٹ)حماد خان جو حال ہی میں افغانستان گئے ہیں، بتاتے ہیں کہ ’ہماری لائبریریاں جدید ترین ریسرچ جرنلز سے لیس ہیں اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں بنیادی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان کے مقابلے میں یہاں کلینیکل ایکسپوزر محدود ہے۔ مریضوں کی تعداد کم ہے اور کیسز کی قسمیں بھی مختلف ہیں۔‘کیا کبھی انہیں افغانستان میں مشکل صورتحال کا سامان کرنا پڑا، اس سوال کے جواب میں حماد خان نے بتایا کہ ’جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان کرکٹ میچ کے بعد ہاسٹل کے باہر افغان شہریوں نے شور مچایا تو طالبان نے فوری مداخلت کر کے صورتحال پر قابو پایا اور کئی باشندوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔‘افغانستان میں زیر تعلیم طلبا کے مطابق سرکاری یونیورسٹیوں میں سکالرشپس اور پرائیویٹ جامعات میں کم فیس کی وجہ سے زیادہ تر طلبا افغانستان کا رخ کر رہے ہیں۔افغانستان سے حاصل کردہ ایم ڈی کی ڈگری کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) تسلیم کرتی ہے لیکن پاکستان میں پریکٹس کے لیے این ایل ای (نیشنل لائسنسنگ امتحان) پاس کرنا لازمی ہے۔یہ امتحان دو مراحل میں ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ بنیادی علم اور دوسرا مرحلہ کلینیکل مہارت پر مشتمل ہوتا ہے۔ڈاکٹر فیض اللہ جو اب سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال سوات میں ہاؤس آفیسر ہیں، نے بتایا کہ انہوں نے فرسٹ سٹیپ پاس کر لیا ہے اور اب دوسرے مرحلے کا انتظار ہے۔ افغانستان کی جامعات سے حاصل کردہ ڈگری کی تصدیق کے لیے ایچ ای سی افغانستان سے توثیق لینی پڑتی ہے۔’یہ توثیق بعض اوقات یونیورسٹی خود لے کر دیتی ہے جبکہ اکثر ہم خود بھی جاتے ہیں۔ پھر پاکستانی سفارت خانے سے سٹیمپ لگواتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں کام کرنا چاہتا ہو تو ہسپتال والے پی ایم ڈی سی سے خود رابطہ کر کے تصدیق کر لیتے ہیں۔‘طاشہزادہ مسعود کے مطابق پی ایم ڈی سی کا امتحان پاس کرنے والے ڈاکٹرز پنجاب سمیت ملک کے تمام صوبوں کے ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں۔ ’کچھ دوستوں نے پی آر ایم پی (پروویژنل لائسنس) بھی حاصل کر لیا ہے جو ہاؤس جاب کے لیے کافی ہوتا ہےتاہم، سب کے لیے یہ سفر آسان نہیں ہوتا۔‘افغانستان کی کئی میڈیکل ڈگریوں کو ڈبلیو ایچ او کی ورلڈ ڈائرکٹری آف میڈیکل سکولز میں شامل کیا گیا ہے (فوٹو: سپین غر میڈیکل یونیورسٹی)ڈاکٹر فیض اللہ کے مطابق کچھ طلبا لاعلمی کی وجہ سے پی ایم ڈی سی کے امتحانات میں ناکام ہو جاتے ہیں۔‘افغانستان میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبا کو سب سے بڑا مسئلہ ویزا کی تجدید کا پیش آتا ہے۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد یہ عمل مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ محمد قاسم نے بتایا کہ ’ویزا رینیو کروانا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی سفارت خانے میں دیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کلاسز متاثر ہوتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اتنے مسائل نہیں ہوتے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ دیگر ممالک کی نسبت افغانستان سب سے بہتر انتخاب ہے کیونکہ اگر ہمیں دو ہفتوں کی بھی چھٹی ملے تو ہم بہت آسانی سے اپنے گھر آسکتے ہیں۔ 12 گھنٹوں کا سفر ہوتا ہے اور ہم اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں۔‘کیا یہ ڈگریاں بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہیں؟افغانستان کی کئی میڈیکل ڈگریوں کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ورلڈ ڈائرکٹری آف میڈیکل سکولز میں شامل کیا گیا ہے، جو انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بناتا ہے۔تاہم یورپی یا امریکی ہسپتالوں میں کام کرنے کے لیے اضافی امتحانات جیسے یو ایس ایم ایل ای درکارہوں گے۔پاکستان میں پی ایم ڈی سی کے سخت قواعد کے باوجود ڈاکٹر فیض اللہ کا کہنا ہے ’ہمارے کئی سینیئرز نے پی ایم ڈی سی کے امتحانات پاس کر کے پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں نوکریاں حاصل کی ہیں۔ اصل چیلنج امتحان کی تیاری ہے۔اگر آپ نے افغانستان میں مضبوط بنیاد بنا لی تو پھر کوئی مشکل نہیں۔‘طالب علم محمد قاسم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں حصولِ تعلیم کا راستہ ہر کسی کے لیے موزوں نہیں۔’افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے۔ یہاں آپ کو ہر روز کے معمول میں غیر متوقع صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہاں آنے کے لیے آپ کے اعصاب مضبوط ہونے چاہییں۔‘