ماہر امراضِ قلب بن کر سرجریز کرنے والا ’جعلی ڈاکٹر‘ پانچ مریضوں کی مبینہ ہلاکت کے بعد کیسے پکڑا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Apr 08, 2025

BBCمشن ہسپتال ان دنوں خبروں میں ہے

یہ انڈین ریاست مدھیہ پردیش میں ایک سرد صبح تھی جب رئیسہ قریشی نامی خاتون کو اچانک اپنے سینے میں شدید درد محسوس ہوا۔ اُن کے بیٹے محمد نبی قریشی انھیں لے کر فوری طور پر قریب واقع ’مشن ہسپتال‘ پہنچے جہاں موجود ایک ڈاکٹر نے اُن کی والدہ کے ابتدائی چیک اپ کے بعد اُن کی ’انجیو پلاسٹی‘ کا مشورہ دیا۔

رئیسہ کی 14 جنوری کو انجیو پلاسٹی ہوئی۔ اگلے دن انھیں دوبارہ دل کا دورہ پڑا اور انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا مگر وہ چند ہی گھنٹوں میں فوت ہوگئیں۔ ہسپتال کے عملے نے اہلخانہ کو بتایا کہ ’یہ دل کا دورہ تھا، کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

والدہ کی وفات کے چند ماہ بعد جب محمد نبی نے ایک روز ٹی وی پر یہ خبر دیکھی کہ ’این جان کیم‘ نامی ایک مبینہ جعلی ڈاکٹر نے مشن ہسپتال میں 15 سرجریز یا دل کے مریضوں کے آپریشن کیے ہیں تو اُن کے پیروں تلے سے زمین کِھسک گئی۔ یہ وہی ڈاکٹر تھے جنھوں نے آخری وقت میں محمد نبی کی والدہ کا علاج کیا تھا۔

نریندر یادو نامی یہ شخص ہسپتال میں ڈاکٹر این جان کیم کے طور پر یہ کام کر رہا تھا اور اب اس مبینہ جعلی ڈاکٹر کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔

معاملے کی ابتدا کیسے ہوئی؟

یہ معاملہ گذشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے ضلع داموہ میں سامنے آیا ہے جہاں لندن کے مشہور دل کے ڈاکٹر پروفیسر جان کیم کا نام اپنا کر ایک شخص دل کے مریضوں کا علاج کر رہا تھا اور اس کی جانب سے کی گئی سرجریز کے دوران مبینہ طور پر کم از کم پانچ مریضوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، تاہم دو مزید متاثرہ خاندانوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کے پیارے بھی ڈاکٹر کے ہاتھوں مبینہ غلط علاج کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔

چھ اپریل کی رات ڈسٹرکٹ چیف میڈیکل آفیسر مکیش جین کی شکایت پر مقامی پولیس نے ملزم یعنی مبینہ جعلی ڈاکٹر اور دو نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر تحقیقات جاری ہے جبکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ موہن یادو نے بھی اس معاملے پر نوٹس لے کر حکام سے تفصیلات طلب کی ہیں۔

متعلقہ شہر کے سٹی سپرنٹنڈنٹ ابھیشیک تیواری نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کے خلاف بنیادی طور پر دھوکہ دہی اور طبی اجازت کے بغیر علاج فراہم کرنے کے الزام میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ابھیشیک تیواری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم نریندر وکرمادتیہ یادو عرف این جان کیم کو پیر کی رات اُتر پردیش سے پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کے مرحلے کے دوران ملزم کے خلاف طبی غفلت اور غیر ارادی قتل کے الزامات بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔

جعلی ڈاکٹر ہونے کا راز کیسے کُھلا؟BBCنریندر وکرمادتیہ یادو عرف این جان کیم

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے رُکن پریانک نے چار اپریل کو انکشاف کیا کہ داموہ کے مشن ہسپتال میں ایک فرضی ڈاکٹر ہیں جو خود کو برطانیہ سے تعلق رکھنے والے معروف کارڈیالوجسٹ بتاتے ہیں اور انھون نے اس حیثیت سے 15 مریضوں کی ہارٹ سرجری کی ہے جن میں سے سات کی موت ہو گئی۔

64 سالہ منگل سنگھ کی کہانی بھی تقریباً رئیسہ کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔

منگل سنگھ کے بیٹے جتیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’چار فروری کو سینے میں درد کی شکایت کے بعد ہم پاپا کو مشن ہسپتال لے گئے، اُن کی انجیو گرافی کی گئی، جس کے بعد بتایا گیا کہ اُن کے دل میں شدید رکاوٹ ہے۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر انجیو پلاسٹی تجویز کی، لیکن اس عمل کے دوران والد کی حالت بگڑ گئی۔ ہمیں باہر بھیج دیا گیا اور سٹاف نے پمپنگ شروع کر دی، کافی دیر تک وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد والد دم توڑ گئے۔‘

’ہسپتال میں موجود ڈاکٹر این جان کیم نے ہمیں فون پر اپنے والد کی لاش لے جانے کا کہا۔ اس وقت ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا اور ہم اسے ہارٹ اٹیک سمجھ کر چپ رہے، اب جب یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ سرجری کرنے والا ڈاکٹر جعلی تھا۔‘

پاکستان میں ذہنی امراض کی ادویات کی بلیک مارکیٹ: ’250 روپے کی گولیوں کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار اداکرنا پڑے‘انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’کمانڈوز‘ کے روپ میں سیاحوں کو لوٹنے والے بہروپیے گرفتار دماغ کو مفلوج کرنے والا آئس کا نشہ: ’مجھے اپنی بیوی پر ہی شک ہو گیا کہ مخالفین نے اُسے مجھے مارنے کے لیے بھیجا ہے‘فراڈ میں استعمال ہونے والی ’شیطان کی سانس‘ نامی دوا جس سے کسی بھی شخص کے ’دماغ کو قابو‘ کیا جا سکتا ہے

داموہ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے صدر دیپک تیواری نے سب سے پہلے اس معاملے کی شکایت کی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے فروری 2025 میں ہی سی ایم ایچ او ڈاکٹر مکیش جین سے اس کی شکایت کی تھی۔

دیپک تیواری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس فراڈ کی شکایت فروری میں ہی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کو کی گئی تھی۔ 12 فروری کو کچھ خاندان میرے پاس شکایت لے کر آئے، ہم نے تمام معلومات اکٹھی کرنے میں تین دن گزارے اور پھر 15 فروری کو ہم نے چیف میڈیکل آفیسر کے دفتر میں شکایت کی، لیکن ہماری شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘

بی بی سی ہندی نے ان الزامات کے جواب کے لیے ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر مکیش جین سے رابطہ کیا ہے، لیکن تادم تحریر ان کا جواب موصول نہیں ہو سکا۔

کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر این جان کیم نامی یہ فرضی شخص گذشتہ برسوں کے دوران بھی کئی تنازعات کے مرکز میں رہا ہے۔

متنازع جعلی ڈاکٹر نے جو نام استعمال کیا وہ دراصل پروفیسر اے جان کیم کا ہے جو سینٹ جارج ہسپتال، لندن، میں کلینیکل کارڈیالوجی کے معروف پروفیسر ہیں۔

بوم لائیو نامی حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ کے 2023 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ویب سائٹ براؤن والڈ ہیلتھ کیئر نے دعویٰ کیا ہے کہ نریندر وکرمادتیہ یادیو عرف این جان کیم لندن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر تھے اور یہ ویب سائٹ اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔

ان کے متعلق بوم لائیو کی خبر میں کئی حقائق کے ساتھ بتایا گیا تھا کہ نریندر وکرم یادو ہی پروفیسر این جان کیم ہیں۔

مشن ہسپتال انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟BBCمدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے

مشن ہسپتال کی انتظامیہ کی رکن پشپا کھرے نے معاملہ سامنے آنے کے بعد کہا کہ ’ہم نے تفتیشی افسران کی طرف سے مانگے گئے تمام دستاویزات فراہم کر دیے ہیں۔ ہمارے ریکارڈ میں ڈاکٹر کا نام نریندر جان کیم ہے، جو اصل میں (شمالی انڈین ریاست) اتراکھنڈ کے رہائشی ہیں۔‘

’اُن کی تقرری حکومت سے منظور شدہ انٹیگریٹڈ ورک فورس انکوائری سولیوشن پرائیویٹ لمیٹڈ (آئی ڈبلیو یو ایس) کے ذریعے کی گئی تھی۔ انھوں نے یکم جنوری کو ہسپتال جوائن کیا اور فروری میں بغیر کسی اطلاع کے چلے گئے۔‘

پشپا کھرے نے دعویٰ کیا کہ ’مشن ہسپتال اور سرکاری ایجنسی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ ڈاکٹر کی تنخواہ کا ایک حصہ ایجنسی کو جائے گا اور اس کے بدلے میں وہ ڈاکٹر کی ساکھ اور اس کے سرٹیفکیٹ کی ساکھ کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ہم تحقیقات میں مکمل تعاون کر رہے ہیں۔‘

تاہم آئی ڈبلیو یو ایس میں کام کرنے والے ڈی کے وشواکرما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈاکٹر کیم کی سی وی ہماری کمپنی میں آئی، جسے ہم نے مشن ہسپتال بھیج دیا۔ ہمارا کام ڈاکٹر اور ہسپتال کو جوڑنا ہے۔ لیکن اس معاملے میں ہسپتال نے ڈاکٹر کیم کو ہمارے ذریعے نہیں رکھا اور ہمارے انکار پر ہسپتال نے براہ راست ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور ان کی تقرری کی۔ اگر انھیں یو ایس ڈبلیو کے ذریعے ہسپتال میں رکھا جاتا تو ہم ان کی ڈگری کی جانچ کروا لیتے۔‘

فراڈ میں استعمال ہونے والی ’شیطان کی سانس‘ نامی دوا جس سے کسی بھی شخص کے ’دماغ کو قابو‘ کیا جا سکتا ہےنشتر ہسپتال میں ڈائلیسز کے 25 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص: ’ہمیں کس گناہ اور غلطی کی سزا مل رہی ہے‘انڈیا کے قبائلی علاقے جہاں جادو ٹونہ کرنے کے شکپر خواتین کو ’چڑیل‘ قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہےجب ایک ڈاکٹر نے عضو تناسل کی ایستادگی میں کمی سے پریشان کسان میں بکرے کے خصیوں کی پیوندکاری کی’لندن کے فضا میں پیراشوٹ پھٹ گیا‘: وہ پانچ بدقسمت مؤجد جن کی تخلیقات ہی ان کی موت کی وجہ بنیںفواد ممتاز: درجنوں مقدمات کے باوجود 10 سال تک گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کرنے والا ڈاکٹر کیسے پکڑا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More