لاہور: ’چھوٹے چھوٹے پولیس گینگ‘ جو محکمے کے لیے دردِسر بن گئے

اردو نیوز  |  Apr 01, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں گذشتہ کچھ عرصے سے انڈر ورلڈ کی لڑائی دوبارہ سر اٹھا چکی ہے۔ امیر بالاج ٹیپو کے قتل کے بعد ہونے والے پے درپے واقعات میں سابق پولیس افسران اس بات کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ دونوں بڑے گروپوں کے پیچھے پولیس کے کئی افسر اور اہلکار بھی صورتحال کو یہاں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔

امیر بالاج کے قتل کے الزام میں گرفتار ان کے قریبی دوست احسن شاہ جو حراست کے دوران مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے تھے، کی والدہ نے کچھ پولیس افسران پر اپنے بیٹے کے ’قتل ‘کا الزام عائد کیا۔

لاہور کی انڈر ورلڈ کی سب سے بڑی لڑائی میں پولیس کے ملوث ہونے کے الزامات ایک طرف، گذشتہ چند ماہ کے دوران صوبائی دارالحکومت میں کچھ کیسز میں پولیس اہلکاروں کا بھی ہاتھ تھا۔

حال ہی میں جو کیسز سامنے آئے ہیں ان میں چھوٹے چھوٹے پولیس گینگ مختلف طرح کے سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان جرائم میں اغوا برائے تاوان، منشیات کی بڑے پیمانے پر سمگلنگ اور ہنی ٹریپ جیسے واقعات شامل ہیں۔

جب ایک ڈاکٹر اغوا ہوا

رواں سال فروری میں چھ پولیس اہلکاروں پر مشتمل ایک گینگ نے لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے علاقے سے ایک ڈاکٹر، مختار حسین کو اغوا کیا۔

ڈاکٹر مختار نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ میں 9 فروری کی رات اپنے کلینک گارڈن ٹاؤن سے ماڈل ٹاؤن اپنی رہائش گاہ پر آیا تو تقریباً 11 بجے میرے گھر کا دروازہ کھٹکا۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں باہر نکلا تو دیکھا کہ تین باوردی پولیس اہلکار کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر نقاب تھے اور وہ اندر گھس آئے۔ میرے بیڈ روم کی تلاشی لی اور میرا موبائل فون اپنے قبضے میں لے لیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر مختار کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے وہ کچھ بتا بھی نہیں رہے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے کہا کہ تھانے چلو۔ باہر تین موٹرسائیکلوں پر یہ کوئی چھ افراد تھے جو مجھے لے کر روانہ ہوگئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میری رہائش گاہ کو تھانہ گارڈن ٹاؤن لگتا تھا، جب انہوں نے موٹرسائیکل فیروز پور روڈ کی طرف موڑی تو میں نے کہا کہ تھانہ تو ادھر نہیں ہے۔ تو مجھے گولی مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا کہ خاموش رہو۔

پولیس اہلکاروں نے ڈاکٹر مختار کی رہائی کے عوض ان کی فیملی سے 10 لاکھ روپے تاوان مانگا (فائل فوٹو: روئٹرز)

ڈاکٹر مختار کو یہ پولیس اہلکار رنگ روڈ کے قریب ویرانے میں لے گئے اور پھر ان سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ اہلکاروں نے ان کے گھر والوں سے ڈاکٹر مختار کی رہائی کے عوض 10 لاکھ روپے تاوان مانگا۔

ڈاکٹر مختار نے بتایا کہ گھر میں پڑے چار لاکھ روپے نقد بیٹے کے ذریعے منگوائے جبکہ ایک لاکھ روپیہ اے ٹی ایم کارڈ سے نکلوایا۔ 

اس دوران انہوں نے ڈاکٹر مختار کے موبائل فون میں بینکنگ ایپلی کیشن بھی کھولنے کی کوشش کی جو انہوں نے سمجھ داری سے غلط پاس ورڈ ڈال کر آئی ڈی بلاک کر دی۔

اس گینگ نے ڈاکٹر مختار کو دھمکایا اور ان کی ویڈیوز بنائیں اور کہا کہ اس واقعے پر خاموش رہنا، تاہم انہوں نے پولیس اہلکاروں کے نکلنے کے فوری بعد 15 پر کال کر دی اور  واقعے کی اطلاع دے دی۔

پولیس نے جلد ہی ان چھ اہلکاروں کا سراغ لگا لیا جو سب کانسٹیبل تھے اور مختلف تھانوں میں تعینات تھے۔ ان ملزمان میں کانسٹیبل آصف، نفیس، وقاص، رانا قربان، عدنان اور فیصل شامل تھے۔

ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان ہم نے گرفتار کر لیے ہیں اور ان کے خلاف اغوا برائے تاوان کی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔

فیصل کامران کے مطابق اہلکاروں سے رقم بھی ریکور کر لی گئی ہے اور اس بات کی تفتیش بھی کی جا رہی ہے کہ اس گروہ نے اور کہاں کہاں وارداتیں کی ہیں۔ ان کے خلاف قانون حرکت میں ہے۔

ڈی آئی جی آپریشن لاہور کے مطابق پولیس نے اغوا میں ملوث تمام ملزمان گرفتار کر لیے ہیں (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

منشیات سمگلرز

جنوری میں لاہور پولیس نے منشیات کا ایک بین الاقوامی گینگ حراست میں لیا جو افغانستان اور خیبر پختونخوا سے منشیات انڈیا سمگل کرنے میں ملوث تھا۔ 

لاہور کینٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) اویس شفیق جنہوں نے اس گینگ کو گرفتار کیا، بتاتے ہیں کہ ہم منشیات کے ایک ریکٹ کو فالو کر رہے تھے کیونکہ ہمارے پاس کچھ ایسے شواہد آئے تھے جن میں کچھ افراد بین الاقوامی نیٹ ورک کے ذریعے منشیات سمگل کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جب ان افراد کو گرفتار کیا گیا تو ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ نیٹ ورک حال ہی میں وجود میں آیا تھا اور انہوں نے لگ بھگ 10 کلوگرام ہیروئن افغانستان اور خیبر پختونخوا سے سمگل کی تھی۔

اویس شفیق کہتے ہیں کہ اس میں سے تین کلوگرام ہیروئن یہ ہمارے پڑوسی ملک بھجوا چکے تھے۔ ان افراد کے پڑوسی ملک کے انڈرولڈ سے تعلقات بھی سامنے آئے ہیں، ابھی اس معاملے کی مزید چھان بین کی جا رہی ہے۔

پولیس کے مطابق یہ گروہ کل پانچ افراد پر مشتمل ہے۔ منشیات سمگلنگ کے الزام میں اب تک تین ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں ڈولفن فورس سے برطرف کیے گیے دو اہلکار بھی شامل ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ڈولفن فورس کے عثمان اور وسیم کو کرپشن کے الزام میں ملازمت سے برخاست کیا گیا تھا، تاہم ان کی بحالی کی اپیلیں تاحال زیرِسماعت ہیں۔

منشیات کی سمگلنگ میں ڈولفن فورس کے برطرف کیے گئے دو اہلکار بھی ملوث پائے گئے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

 اسی طرح باقی تین ملزمان لاہور ہی میں تعینات ایک ایس ایچ او کے سگے بھائی طارق، رمیز اور شعیب ہیں جنہیں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ ان موجودہ اور سابق اہلکاروں کو محکمے کے اندر سے بھی سپورٹ حاصل ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی تفتیش جاری ہے۔

ہنی ٹریب گینگمارچ میں لاہور پولیس نے ایک ایسے ہنی ٹریپ گینگ کو گرفتار کیا جس میں چار مرد اور تین خواتین شامل تھیں۔ اس گینگ کی سربراہی دو پولیس اہلکار کر رہے تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ کوٹ لکھپت کے علاقے میں ایک نوجوان کے ساتھ ایک خاتون نے ٹک ٹاک کے ذریعے رابطہ کیا اور دوستی کی اور پہلی ملاقات جس جگہ پر ہوئی وہاں اس گینگ کے دیگر ارکان پہلے سے ہی موجود تھے۔

ایس پی ماڈل ٹاؤن اخلاق اللہ تارڑ اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس گینگ میں دو پولیس اہلکار، پولیو کے قطرے پلانے والی ایک لیڈی ہیلتھ ورکر اور اس طرح کے دیگر افراد تھے۔

ایس پی کے مطابق ان کا کام ٹک ٹاک پر لڑکیوں کے اکاؤنٹس کے ذریعے لڑکوں کو ہنی ٹریپ کرنا اور ان سے پیسے نکلوانا تھا۔ یہ افراد اس سے پہلے کامیابی کے ساتھ 13 وارداتیں کر چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آخری واردات جس لڑکے سے ہوئی تو اس نے ایک اچھا فیصلہ یہ کیا کہ پولیس کو باقاعدہ اطلاع دے دی۔ پھر اس کے بعد ہم نے بہت جلد اس گینگ کو پکڑ لیا۔ تمام ملزمان ہماری حراست میں ہیں اور اس کیس کی تفتیش جاری ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More