لاہور کا مہاجر آباد جہاں ہر گلی میں جوتے بنائے جاتے ہیں

اردو نیوز  |  Apr 01, 2025

لاہور کا ہر گوشہ تاریخی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے لیکن مہاجر آباد کے اس گوشے میں قدم رکھیں تو قدیم مغلیہ باغات کی ویرانی اور مہاجروں کے جذبۂ بقا کی داستانیں فضا میں محسوس ہوتی ہیں۔

 تنگ گلیاں، ہتھ گاڑیاں، مصروف زندگی اور بھاگتے دوڑتے لوگ مہاجر آباد کو اندرون لاہور جیسا بنا دیتے ہیں لیکن اس کی تاریخ اور پھر حالیہ کاروباری منظر یکسر مختلف ہے۔ مغل شہنشاہوں کے بنائے ہوئے رستم پارک اور سمن آباد کے سائے تلے آباد یہ علاقہ کبھی شاہی آرام گاہوں کی زینت تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد یہاں انصاری برادری کی نسل آباد ہوئی۔

ابتدا میں کھڈیاں بنانے والے یہ کاریگر وقت کے ساتھ ساتھ جوتوں کے کام سے منسلک ہوگئے۔

آج یہاں کی تنگ گلیوں میں ہر قدم پر جوتوں کی چمک دمک ہے۔ خواتین کے ریشمی سینڈلز سے لے کر بچیوں کے رنگ برنگے چپلوں تک ہر طرح کے لیڈیز جوتے یہاں تیار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہاجر آباد کو جوتوں کی صنعت سے لیس ’ایشیاء کی بڑی مارکیٹوں‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔

پرانی مسجدوں کے مینار اور جدید شاپنگ کمپلیکس کے درمیان یہ علاقہ اپنی دوہری شخصیت کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف وٹس ایپ پر آرڈرز ہو رہے ہیں، وہیں گھروں میں ہاتھ سے کڑھائی ہونے والے جوتے ثقافتی ورثے کی علامت بنے ہوئے ہیں۔

سعد زاہد ایک وی لاگر اور تاریخ دان ہیں۔ وہ لاہور کے بیشتر تاریخی اور ثقافتی مقامات پر تحقیق کر چکے ہیں۔ انہوں نے مہاجر آباد سے متعلق تاریخی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا ’جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، مہاجر آباد مہاجروں کی ایک بستی ہے۔ یہاں خاص طور پر انصاری برادری آباد ہے جو ہندوستان سے ہجرت کے بعد یہاں آئے تھے۔ یہ علاقہ کبھی کسی بڑی یادگار یا تاریخی مقام کا حصہ تھا۔ اگر آپ ملحقہ علاقے پر نظر ڈالیں تو آپ کو رستم پارک نامی ایک محلہ ملے گا، جس میں غازی رستم کا مزار ہے۔ پارک اور ملحقہ باغ مغل دور میں بنایا گیا تھا حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مہاجر آباد سمیت پورا علاقہ کبھی ایک بڑے باغ کا حصہ تھا۔ آپ سمن آباد میں اب بھی اس کی باقیات دیکھ سکتے ہیں۔‘

تاریخی مقامات اور اس کے آثار پر تحقیق کے بعد سعد زاہد  کی رائے ہے کہ انہیں یقین ہے مہاجر آباد کبھی اس بڑے باغ کا حصہ تھا جو آخرکار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور نئی تعمیر کے ساتھ مہاجر آباد قائم ہوا۔

آج کل مہاجر آباد کی ہر گلی کوچے میں خواتین کے جوتوں کا کام ہو رہا ہے۔ بچے، بوڑھے اور نوجوان اس کام سے منسلک ہیں۔ جس گلی میں قدم رکھیں وہاں ایک چھوٹی سی کھڑکی سے اندر جھانک کر معلوم ہوتا ہے کہ جوتوں کے لیے ڈبے، کاٹن، یا دیگر ساز و سامان تیار ہو رہا ہے لیکن تقسیم ہند کے بعد یہاں جوتوں کا کام نہیں ہوتا تھا۔

مقامی لوگوں اور تاریخ دانوں کے مطابق مہاجر آباد میں رہائش پذیر لوگ بڑے خاندان رکھتے ہیں اور یہاں جلد شادی کرنے کا رجحان بھی عام ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)اس حوالے سے سعد زاہد بتاتے ہیں ’مہاجر آباد کی آبادی کافی عرصے سے یہاں رہ رہی ہے، اور ان میں برادری کا شدید احساس تھا۔ ابتدائی طور پر، انہوں نے کھڈیاں (چمڑے کے پٹے) تیار کرنے کا کاروبار شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ جوتوں کی تیاری کی طرف منتقل ہو گئے کیونکہ مشینری دستیاب ہوتی گئی اور کھڈیوں کی مانگ کم ہوئی۔‘

 ان کے مطابق اندرون لاہور کی طرح مہاجر آباد تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کے دو اہم علاقے تیزی سے تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔ ’رہائشی علاقہ غائب ہو رہا ہے اور کمرشل عمارتوں کے لیے مکانات کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ لوگ اپنے کاروبار یہاں منتقل کر رہے ہیں اور علاقے میں نمایاں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔‘

 سعد زاہد کے مطابق یہاں سیاسی طور پر انصاری کمیونٹی کافی بااثر رہی ہے اور انہوں نے روایتی طور پر اپنی برادری کے اندر سے لیڈروں کی حمایت کی ہے۔ ان کے بقول ’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پڑوسی برادریوں کے برعکس جنگجو نہیں تھے اور پرامن ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ یہ ہمیشہ اتحاد میں رہے ہیں۔ اس برادری کے پہلے سیاسی رہنما باؤ ضمیر تھے جن کا اصل نام باؤ ضمیر انصاری تھا۔ وہ ان کے پہلے منتخب نمائندے تھے اب ان کی اولاد میں سے قمر ضمیر انصاری میدان میں ہیں لیکن بظاہر ان کا اثر اب قدرے کم ہوگیا ہے۔‘

مقامی لوگوں اور تاریخ دانوں کے مطابق مہاجر آباد میں رہائش پذیر لوگ بڑے خاندان رکھتے ہیں اور یہاں جلد شادی کرنے کا رجحان بھی عام ہے۔ مہاجر آباد میں صرف جوتے بنائے نہیں جاتے بلکہ ہول سیل پر فروخت بھی کیے جاتے ہیں جبکہ یہاں خواتین کی آمد انتہائی کم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہول سیل مارکیٹ کے صدر اصغر بھٹی بتاتے ہیں ’یہاں آپ کو رش کم ہی نظر آئے گا کیونکہ یہ روایتی بازار نہیں ہے جہاں خواتین کی بھیڑ لگی ہو بلکہ یہاں کاروباری لوگ آتے ہیں جو بڑی مارکیٹوں اور دکانوں کے لیے مال لے کر جاتے ہیں۔ یہاں نہ صرف جوتے بنائے جاتے ہیں بلکہ خواتین کے جوتوں کی صنعت سے منسلک ہر چیز یہاں تیار ہوتی ہے۔ ڈبے سے لے کر سلوشن تک ہر چیز یہاں لوگ خود تیار کرتے ہیں۔‘

 سعد زاہد کے مطابق یہاں سیاسی طور پر انصاری کمیونٹی کافی بااثر رہی ہے اور انہوں نے روایتی طور پر اپنی برادری کے اندر سے لیڈروں کی حمایت کی ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)بنیادی طور پر یہاں سے بنائے گئے تمام جوتے اندرون شہر کے موتی بازار منتقل کیے جاتے ہیں اور وہاں سے پورے پاکستان میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اصغر علی بھٹی بلا جھجھک مہاجر آباد کو خواتین کے جوتے بنانے والی ’ایشیا کی دوسری بڑی مارکیٹ‘ کہتے ہیں۔

مہاجر آباد، سمن آباد اور یتیم خانہ کے درمیان واقع ہے۔ مارکیٹ کے داخلی راستے پر چند ایسی دکانیں ہیں جہاں صرف ہول سیل پر جوتے فروخت ہو رہے ہوتے ہیں تاہم مارکیٹ کے اندر جانے کے بعد اس صنعت سے وابستہ کارخانے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

اصغر علی بھٹی بتاتے ہیں ’جب ہم ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو ہم نے یہاں اپنا کاروبار شروع کیا۔ شروع میں ہم ایک اور تجارت سے منسلک تھے لیکن اس کے بعد ہم نے جوتوں کے کاروبار میں قدم رکھا۔ اب یہاں جوتوں کی صنعت پھل پھول رہی ہے جس میں لاتعداد کارخانے اور دکانیں ہیں۔ پاکستان بھر سے اور یہاں تک کہ بیرون ملک سے لوگ یہاں سامان خریدنے آتے ہیں۔ ہمارے پاس بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی گاہک ہیں۔‘

یہاں نئے ٹرینڈ کے حساب سے نت نئے ڈیزائن بھی تیار کیے جاتے ہیں جو پنڈی، اسلام آباد، اور ملتان سمیت دیگر علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں۔

قمر ضمیر انصاری گزشتہ پانچ سالوں سے یونین کونسل کے چیئرمین ہیں اور اسی علاقے میں انجمن تاجران کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ان کے والد سیاسی رہنما رہ چکے ہیں اور ان کی والدہ بھی چیئرمین رہ چکی ہیں۔ وہ خود اس عہدے پر گزشتہ 12 سالوں سے براجمان ہیں۔

محمد ذیشان کے بقول 'ہم وٹس ایپ کے ذریعے بھی کاروبار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے مختلف گروپس ہیں جن میں لوگ ڈیمانڈ رکھتے ہیں۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)اس علاقے سے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ ’علاقے کی آبادی 14,000 ہے۔ مہاجر آباد کے بارے میں ہر بچہ جانتا ہے اور یہ ملتان روڈ، پی ایس او پمپ اور جونیئر ماڈل سکول کے قریب واقع ہے۔ شروع میں یہ علاقہ کچی آبادی کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن اب یہ ایک صنعتی مرکز ہے۔ جو لوگ یہاں آباد تھے وہ جوتے بنانے کے کاروبار سے وابستہ نہیں تھے۔ اس کے بجائے انہوں نے نیوار کا کام شروع کیا تھا جن کی بہت زیادہ مانگ تھی لیکن پھر دھیرے دھیرے خواتین کے جوتوں کا کام شروع ہوا۔ اب یہاں صرف خواتین کے جوتے تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں جوتوں کا سامان فروخت کرنے والی تقریباً 650 دکانیں اور جوتے بنانے والی تقریباً 2500 فیکٹریاں ہیں۔‘

ان کے مطابق یہاں ہر گھر جوتوں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔

مہاجر آباد کی یہ مارکیٹ صبح فجر کے وقت 5 بجے کھلتی ہے اور شام 5 بجے بند ہوتی ہے۔ یہاں ہول سیل کی 90 سے زائد دکانیں ہیں جن میں سے زیادہ تر یہاں کے مقامی خاندانوں کی ملکیت ہے جنہوں نے اپنے گھروں کو دکانوں میں تبدیل کر کے دوسروں کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔ فیکٹریوں کے ہونے سے جوتے کی قیمتیں بھی کم ہیں۔

اس حوالے سے دکاندار محمد ذیشان بتاتے ہیں کہ ’یہاں جوتوں کا کاروبار فروغ پا رہا ہے، اور کاروباری نقطہ نظر سے یہ ایک بہترین مارکیٹ ہے۔ یہاں جوتوں کی بہت سی فیکٹریاں ہیں جس کی وجہ سے جوتے نسبتاً سستے ہیں۔ نقل و حمل اور مزدوری کی لاگت دیگر بازاروں کے مقابلے یہاں کم آتی ہے جس سے جوتے کم ہی رہتی ہے۔‘

 یہاں کے مقامی دکاندار مہاجر آباد کو موتی بازار اور ایشیا کی دیگر مارکیٹوں سے بڑا مانتے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز) ان کے مطابق مہاجر آباد کی بہت ساری خواتین بھی جوتے بنانے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کے بقول ’یہاں جوتوں کی قیمت تقریباً 180 روپے سے شروع ہوتی ہے اور 200 سے 250 روپے تک جا پہنچتی ہے جبکہ خواتین کے جوتوں کی قیمتیں تقریباً 190 سے 500 یا اس سے اوپر تک جا پہنچتی ہیں۔‘

 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دکانداروں نے آن لائن کام بھی شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے یہ پوری دنیا میں اپنے بنائے ہوئے جوتے پہنچا رہے ہیں۔ محمد ذیشان کے بقول 'ہم وٹس ایپ کے ذریعے بھی کاروبار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے مختلف گروپس ہیں جن میں لوگ ڈیمانڈ رکھتے ہیں اور ہم جوتے تیار کر کے بھیج دیتے ہیں۔‘

 یہاں کے مقامی دکاندار مہاجر آباد کو موتی بازار اور ایشیا کی دیگر مارکیٹوں سے بڑا مانتے ہیں۔ محمد ذیشان ہی کے بقول ’میری رائے میں اس سے بڑی کوئی مارکیٹ نہیں ہے۔ یہ موتی بازار سے بھی بڑی مارکیٹ ہے۔ فرق یہ ہے کہ موتی بازار میں جوتے نہیں بنائے جاتے جبکہ یہاں مینوفیکچرنگ سے لے کر پیکیجنگ تک سارا کام ہوتا ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More