Getty Images
جنوبی ایشیا اس وقت دنیا کے ان چند خطوں میں سے ایک ہے جہاں پہلے سے موجود سینکڑوں جوہری وار ہیڈز میں سالانہ اصافہ ہو رہا ہے۔ یہاں ایٹمی طاقت کے حامل تین ملکوں میں سے ایک چین کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی جوہری صلاحیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اسی تشویش میں مبتلا امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ روس اور چین کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف پر بات چیت شروع کرنا چاہتے ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس منصوبے میں پاکستان اور انڈیا سمیت دیگر ممالک کو بھی شامل کیا جا سکے گا۔
جمعرات کو نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹ کے ساتھ ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ روس اور امریکہ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تاہم ’چین اگلے پانچ برس میں یہ سطح حاصل کر لے گا۔‘
اس دوران ٹرمپ نے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف اور انھیں سرے سے ترک کرنے پر بھی بات کی اور اپنی گفتگو کے دوران انڈیا، پاکستان اور جنوبی کوریا کا بھی حوالہ دیا۔
خیال رہے کہ ٹرمپ اپنے پہلے صدارتی دور میں چین سے جوہری ہتھیاروں میں کمی کے منصوبے پر بات چیت میں ناکام ہوئے تھے۔ اس وقت امریکہ اور روس اس حوالے سے ایک معاہدے پر مذاکرات کر رہے تھے مگر بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد روس نے اس میں شمولیت کو معطل کر دیا تھا۔
Getty Imagesٹرمپ کو امید ہے کہ جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے منصوبے میں پاکستان اور انڈیا کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے’دیگر ممالک سے بھی جوہری ہتھیار ترک کرنے پر بات کریں گے‘
یہ گفتگو ایک ایسے موقع پر ہوئی جب ٹرمپ یوکرین جنگ کے خاتمے اور روس کے ساتھ قیام امن پر نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹ سے بات چیت کر رہے تھے۔
ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ 'روس اور ایران کے رہنما کل جوہری منصوبوں پر بات چیت کے لیے چین روانہ ہو رہے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے وہاں کیا ہوگا؟'
خیال رہے کہ جمعے کو بیجنگ میں چین، روس اور ایران کے رہنماؤں کی ایک ملاقات ہوگی۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں ایرانی 'جوہری مسئلے' پر بات چیت کی جائے گی۔
اس سوال پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ 'شاید وہ غیر جوہری منصوبوں پر بات کریں گے۔ شاید وہ جوہری ہتھیاروں سے پیدا ہونے والا تناؤ کم کرنے پر بات کریں گے۔ کیونکہ میں نے بڑی سختی سے صدر پوتن سے بھی یہ بات کہی تھی۔ ہم اس بارے میں کچھ کر سکتے تھے اگر اُس الیکشن میں (مبینہ) دھاندلی نہ ہوتی۔ میں پوتن سے جوہری ہتھیار ترک کرنے پر معاہدہ کر سکتا تھا۔'
'جوہری ہتھیاروں کی طاقت بہت زیادہ اور تباہ کن ہے۔'
ٹرمپ نے مزید کہا کہ روس اور امریکہ کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں اور چین اگلے پانچ برسوں میں قریب آ جائے گا۔ 'چین کے پاس ابھی اتنے جوہری ہتھیار نہیں مگر وہ پیداواری مراحل میں ہیں اور وہ یہ مقدار حاصل کر لیں گے۔ چار، پانچ سال میں ان کے پاس بھی امریکہ اور روس جتنے جوہری ہتھیار ہوں گے۔'
اس موقع پر نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹ نے کہا کہ دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی کی کوششیں رپبلکن جماعت کی روایت رہی ہے۔ 'رونلڈ ریگن نے بھی جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے گورباچوف سے بات کی تھی۔ آپ (ٹرمپ) نے بھی اپنے پہلے دور میں ایسا ہی کیا تھا۔'
یوکرین کو جوہری ہتھیار تلف کرنے پر پچھتاوا: ’ہم نادان تھے جو ان پر اعتبار کر بیٹھے‘کیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟ریموٹ کنٹرول گن کے 13 راؤنڈ: انڈرکور ایرانی سائنسدان جنھیں موساد نے 8 ماہ کے خفیہ آپریشن کے بعد قتل کیاڈاکٹر رفیع محمد چودھری: پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ’حقیقی خالق‘ جنھیں محمد علی جناح نے خط لکھ کر پاکستان مدعو کیا
یہاں ٹرمپ نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ 'یہ عظیم کامیابی ہوگی اگر ہم جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم کر پائیں۔ ہمارے پاس اتنے زیادہ ہتھیار ہیں اور ان کی قوت بہت زیادہ ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو اتنے زیادہ جوہری ہتھیار درکار نہیں ہوتے۔'
ٹرمپ نے کہا کہ 'کم جونگ ان کے پاس بھی بہت سارے جوہری ہتھیار ہیں۔۔۔ دوسرے ملک بھی ہیں جیسے انڈیا، پاکستان جن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔'
امریکی صدر نے کہا کہ وہ چین، انڈیا اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی جوہری ہتھیار ترک کرنے کے منصوبے میں شامل کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے سابقہ صدارتی دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اس حوالے سے بات چیت کی جا چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ سے بھی اس بارے میں بات ہوئی تھی جنھیں 'یہ خیال بہت پسند آیا تھا (کیونکہ) یوں ایسے ہتھیاروں پر کھربوں ڈالر خرچ نہ کرنا پڑیں جو کبھی استعمال میں نہیں آئیں گے۔'
انھوں نے کہا کہ جوہری ہتھیار بہت مہنگے ہوتے ہیں لہذا انھیں ترک کرنا ایک عظیم منصوبہ ہو سکتا تھا۔
Getty Imagesانڈیا کے پاس 172 جبکہ پاکستان کے پاس 170 جوہری وارہیڈز ہیںجوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں کون آگے؟
سویڈش تھنک ٹینک سیپری کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق نو جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو مسلسل جدید بنا رہے ہیں۔ جبکہ ان نو ممالک کے پاس مجموعی جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہو کر تقریباً 12 ہزار 121 ہوگئی ہے جو کہ 2023 میں 12 ہزار 512 تھی۔
سیپری کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس 172 جبکہ پاکستان کے پاس 170 جوہری وارہیڈز ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے جبکہ انڈیا کی توجہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تعیناتی پر مرکوز ہے۔ یعنی ایسے ہتھیار جو چین کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان کے پڑوسی اور دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت چین کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد 22 فیصد اضافے کے ساتھ 410 وار ہیڈز سے بڑھ کر 500 ہوگئی ہے۔
سیپری کی رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ کے پاس دنیا کے کل جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد ذخیرہ موجود ہے۔ روس اور امریکہ نے مجموعی طور پر 2500 پرانے جوہری ہتھیار اپنے ذخائر میں سے نکال دیے ہیں۔ وہ انھیں آہستہ آہستہ تباہ کر رہے ہیں۔
سنہ 1986 میں دنیا بھر میں موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد 70 ہزار تھی جو کہ اب کم ہو کر اب بھی 12 ہزار سے زیادہ ہے۔
سنہ 1991 میں جنوبی افریقہ وہ پہلا ملک تھا جس نے رضاکارانہ طور پر اپنا جوہری پروگرام ختم کیا۔ اس کے بعد 1994 میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد یوکرین، بیلاروس اور قزاقستان نے اپنے جوہری پروگرام ترک کیے تھے اور اس کے بدلے انھیں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کی طرف سے سکیورٹی کی ضمانت دی گئی تھی۔
اس دوران جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کرنے اور جوہری ہتھیاروں سے پاک خطے بنانے کے لیے کئی معاہدوں پر اتفاق ہوا ہے۔
جولائی 2017 میں ایک موقع پر ایسا لگا کہ دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونے کے قریب آ گئی ہے جب 100 سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کے اُس معاہدے کی توثیق کی جس میں ان پر مکمل پابندی لگانے کی بات کی گئی۔
مگر جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے اس معاہدہ کا بائیکاٹ کیا۔
جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ روکنا مشکل کیوں؟
جوہری ہتھیاروں پر مذاکرات کے بارے میں چینی حکومت کا موقف ہے کہ پہلے روس اور امریکہ ان کی تعداد میں واضح کمی لائے۔ بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ روس اور امریکہ کو ایسے حالات پیدا کرنے ہوں گے کہ دوسرے ممالک جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے عمل میں شامل ہو سکیں۔
ادھر آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن نامی تنظیم سے منسلک جوہری امور کے امور ڈیرل جی کمبل نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کے لیے جوہری ہتھیاروں پر روس سے مذاکرات کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے جبکہ نئے فریم ورک پر اتفاق کرنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔
ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان نیو سٹریٹیجی آرمز ریڈکشن ٹریٹی کی میعاد فروری 2026 تک ہے لہذا جوہری ہتھیاروں کی تعداد برقرار رکھنے یا ان میں کمی کے لیے مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔
ڈیرل جی کمبل کی رائے میں سب سے بہتر یہ ہوگا کہ پوتن اور ٹرمپ جوہری ہتھیاروں کی حد برقرار رکھنے پر اتفاق کریں اور ایسے معاہدے سے تناؤ میں کمی آ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے چین میں جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کے خلاف سفارتی برتری حاصل ہو سکے گی اور مزید بات چیت کے لیے وقت مل سکے گا۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کا اندازہ ہے کہ سنہ 2030 تک چین – جس نے دہائیوں تک قریب 300 جوہری وار ہیڈز برقرار رکھے – کے پاس ایک ہزار جوہری وار ہیڈز ہوں گے کیونکہ یہ اپنی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔
آسٹریلین سٹریٹیجنگ پالیسی انسٹیٹیوٹ سے منسلک جوہری امور کی ماہر راجیشوری پیلال راجاگوپلان نے امریکہ کے 'انسٹیٹیوٹ آف پیس' کے لیے اپنی تحریر میں بتایا کہ کیسے جنوبی ایشیا میں فی الحال جوہری ہتھیاروں کی کمی اور ان پر کوئی حد مقرر کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ چین کے طرف سے جوہری ہتھیاروں میں اضافے کو اس کا پڑوسی انڈیا اپنی سکیورٹی کے تناظر میں دیکھے گا۔ ان کے مطابق اگرچہ انڈیا کا کہنا ہے کہ وہ 'نو فرسٹ یوز' جوہری فلسفلے پر یقین رکھتا ہے تاہم 1998 سے اس کی جوہری صلاحیت چین کو مدنظر رکھ کر تشکیل دی گئی ہے۔
راجیشوری لکھتی ہیں کہ 'اگر انڈیا کی جوہری پوزیشن نے چینی وسعت پر ردعمل دیا تو اس کے نہ صرف پاکستان کی جوہری صلاحیت بلکہ انڈو پیسیفک سلامتی اور عالمی جوہری سیاست پر اثرات ہوں گے۔
ان کے مطابق انڈیا میں یہ تشویش ہے کہ 2030 تک چین کے وارہیڈز کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے جبکہ اسے پاکستان پر اس حوالے سے معمولی سبقت حاصل ہے۔
لہذا چین کی ممکنہ جوہری وسعت سے 'اس کا انڈیا کے خلاف روایہ جارحانہ ہو سکتا ہے' جبکہ انڈیا میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسے 'کسی طرح ردعمل دینا چاہیے۔'
Getty Imagesمبصرین کے بقول پاکستان کی جوہری صلاحیت کو انڈیا کے خطرہ کے پیش نظر تشکیل دیا گیا کیا ٹرمپ انڈیا اور پاکستان کو رضامند کر پائیں گے؟
دلی میں دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کو نہیں لگتا ہے کہ ٹرمپ کا اعلان انڈیا اور پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے مائل کر پائے گا۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جوہری صلاحیت کے اعتبار سے جنوبی ایشیا میں چین سب سے آگے ہے اور اس کے بڑھتے وار ہیڈز پر پہلے انڈیا کا ردعمل آتا ہے اور یوں پاکستان بھی دونوں کی پیروی کرتا ہے۔
1998 میں جوہری ہتھیاروں کی آزمائش کے بعد وزیر اعظم اٹل واجپائی نے چین کا حوالہ دیا تھا حالانکہ اس وقت پاکستان بھی اپنی جوہری صلاحیت پیدا کر رہا تھا۔ بعض مبصرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ 10 سال میں چین کے وار ہیڈز اور جوہری صلاحیت امریکہ کے مقابلے بڑھ سکتی ہے۔
راہل بیدی کہتے ہیں کہ 'پاکستان کو چین کا تحفظ اور تعاون حاصل ہے۔ اس کے جوہری ہتھیار بھی صرف انڈیا پر مرکوز ہیں۔۔۔ مگر انڈیا کو چین اور پاکستان دونوں سے خطرہ رہتا ہے۔'
اگر چین نے اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دی تو انڈیا کو بھی اس کا جواب دینا پڑے گا مگر اس کے لیے 'ہو بہو چین کا مقابلہ ناممکن ہے۔'
اس سوال پر کہ آیا ٹرمپ کس قدر انڈیا اور پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر پائیں گے، راہل بیدی نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں آگے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کئی برسوں سے انڈیا اور پاکستان کے بیچ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے مگر 'گھوم پھر کر بات مسئلۂ کشمیر پر آجاتی ہے۔۔۔ یہ حساس معاملہ ہے اور انڈیا کو کسی تیسرے ملک کی دخل اندازی قبول نہیں۔'
وہ مزید کہتے ہیں کہ انڈیا کا ردعمل روکنے کے لیے چین کے جوہری منصوبوں کی رفتار کس قدر روکی جا سکتی ہے، یہ امریکہ کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔
اسلام آباد میں جوہری امور کے ماہر سید محمد علی اس پر اتفاق کرتے ہیں مگر اس حوالے سے مختلف وجوہات پیش کرتے ہیں۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بھی سمجھتا ہے کہ انڈیا کے دفاعی اخراجات اس کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہیں۔ 'علاقائی امن، قومی سلامتی اور جارحیت کے امکان کو کم کی ضرورت کے پیش نظر اس تجویز پر پاکستان کی طرف سے عملدرآمد کے امکان کم دکھائی دیتے ہیں۔'
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اس کے جوہری ہتھیار خطے میں، بالخصوص انڈیا کے خلاف، کسی قسم کی جارحیت روکنے کے لیے ہیں تاہم یہ انڈیا کے خلاف 'جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں۔'
'پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو بنانے میں یہی احتیاط برتی ہے اور اسے اپنے معاشی چیلنجز کا بھی ادراک ہے، اسی لیے پاکستان بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔'
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ اپنے اتحادیوں سے کہہ رہی ہے کہ اپنے دفاع کا انتظام خود کریں اور دوسری طرف یورپی ممالک میں اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے پر غور ہو رہا ہے تو اس ماحول میں جنوبی ایشیا سے تخفیف اسلحہ کی توقع رکھنا درست نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو بنیادی خطرہ انڈیا سے ہے اور چین کی جانب سے اپنے جوہری وسائل کو وسعت دینے کے باوجود اس میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ امریکہ نے انڈیا کو ایف 35 کی پیشکش کی ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ کا مقصد ہتھیاروں میں کمی نہیں بلکہ دفاعی آمدن میں اضافہ ہے۔
سید محمد علی کے بقول پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے 'قتل کے رات' جیسے بیانات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ 'چین اور انڈیا ایک دوسرے کو ایسی دھمکیاں نہیں دیتے تو ایسے میں پاکستان کے فیصلہ سازوں کے لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ انڈیا کو صرف چین کا خطرہ ہے یا اس کا جوہری پروگرام صرف چین کا اثر کم کرنے کے لیے ہے۔'
یوکرین کو جوہری ہتھیار تلف کرنے پر پچھتاوا: ’ہم نادان تھے جو ان پر اعتبار کر بیٹھے‘ریموٹ کنٹرول گن کے 13 راؤنڈ: انڈرکور ایرانی سائنسدان جنھیں موساد نے 8 ماہ کے خفیہ آپریشن کے بعد قتل کیاایران ایٹم بم بنانے کے کتنا قریب ہے؟کیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟ڈاکٹر رفیع محمد چودھری: پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ’حقیقی خالق‘ جنھیں محمد علی جناح نے خط لکھ کر پاکستان مدعو کیا