BBCوادی بولان صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں پہاڑی چوٹیوں، پہاڑی دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین ہے۔ یہاں بل کھاتی ٹرین کی پٹڑی راج برطانیہ کے برصغیر پر حکومت کے دور میں آج سے لگ بھگ ایک سو تیس برس قبل بچھائی گئی تھی۔ اس دور میں پہاڑوں کو کاٹ کر وادی بولان کے اس علاقے میں ٹرین کو راستہ دینے کے لیے تقریباً سترہ سرنگیں بنائی گئیں تھیں۔
اللہ دتہ کے پھوپھی زاد بھائی کو ان کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ محبوب حسین کے بالکل ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کوبھی گولیاں لگیں اور ان کا خون محبوب حسین کی قمیض پر گرا۔
اس سے پہلے کے چند گھنٹوں میں شدت پسندوں کی یرغمالی میں وہ بہت قریب کو گولیاں چلتے اور اپنے ساتھی مسافروں کو ان کا نشنانہ بنتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ان کے اعصاب شل ہو چکے تھے اور بچ نکلنے کی امید ماند پڑ رہی تھی۔
موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر وہ دونوں اور ان کی ٹولی میں موجود باقی افراد نے بھاگ کر جان بچانے کی ایک کوشش کرنے کا فیٍصلہ کیا۔ بدھ کے روز صبح کا اجالا ہونے سے پہلے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ان لوگوں نے ایک سمت میں دوڑ لگا دی۔
BBCمحبوب حسین کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں سے ہے۔ وہ کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقے میں ہیئرڈریسر کا کام کرتے ہیں
شدت پسندوں نے ان بھاگتے ہوئے یرغمالیوں پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اللہ دتہ نے بتایا کہ گولیاں ان کے سر سے گزر رہیں تھیں۔ کچھ لوگوں کو گولیاں لگیں بھی ’لیکن ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے تھے۔ گولیاں چلتی تھیں تو نیچے گر جاتے تھے، پھر اٹھ کر بھاگنے لگتے تھے۔‘
جس علاقے میں وہ بھاگ رہے تھے یہ وادی بولان کی چٹیل پہاڑیوں کی پتھریلی زمین تھی۔ یہ وسیع و عریض وادی بولان صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں پہاڑی چوٹیوں، پہاڑی دروں اور برساتی نالوں کی سرزمین ہے۔
یہاں بل کھاتی ٹرین کی پٹڑی راج برطانیہ کے برصغیر پر حکومت کے دور میں آج سے لگ بھگ ایک سو تیس برس قبل بچھائی گئی تھی۔ اس دور میں پہاڑوں کو کاٹ کر وادی بولان کے اس علاقے میں ٹرین کو راستہ دینے کے لیے تقریباً سترہ سرنگیں بنائی گئیں تھیں۔
ان ہی میں سے ایک سرنگ نمبر 8 کے قریب پنیر سٹیشن سے لگ بھگ ڈھائی کلومیٹر دور دھادھڑ کے علاقے میں منگل کے روز شدت پسندوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو دھماکے سے روکا، اس پر فائرنگ کی اور اس کے بعد ریل گاڑی کی بوگیوں میں سوار ہو کر ان میں موجود تمام مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔
BBC
پاکستان ریلوے کے مطابق اس وقت ریل گاڑی میں 400سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ اللہ دتہ اور محبوب حسین ان ہی میں شامل تھے۔ وہ لگ بھگ دو کلو میٹر دوڑنے اور پیدل چلنے کے بعد ایک محفوظ مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
’وہاں ہمیں ایف سی کی چیک پوسٹیں نظر آئیں تھیں اور ان کے پاس جب ہم پہنچے تو انھوں نے کہا اب آپ محفوظ ہیں۔‘ انھیں وہاں سے بحفاظت واپس کوئٹہ پہنچایا گیا۔ وہ ان یرغمالیوں میں شامل تھے جو وہاں سے زندہ بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
اس سے قبل منگل ہی کی رات 80 کے قریب خواتین، بچے اور بزرگ افراد کوئٹہ ریلوے سٹیشن پہنچے تھے۔ وہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان میں سے کچھ نے بتایا کہ شدت پسندوں نے انھیں چھوڑ دیا تھا اور وہاں سے نکل جانے کا کہا تھا۔
جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟فوج کا 33 شدت پسندوں کی ہلاکت، 300 مغویوں کی بازیابی کا دعویٰ: ’جعفر ایکسپریس کے واقعے کے بعد رولز آف دی گیم تبدیل ہو گئے ہیں‘جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟: ’ان کے لیڈر نے کہا سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں‘
یہ لوگ ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ڈھائی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پنیر ریلوے سٹیشن پہنچے تھے۔ پنیر ایک پہاٍڑی کے پہلو میں بنا ایک چھوٹا سا سٹیشن ہے جہاں زیادہ تر ٹرینیں مسافروں کے لیے رکتی بھی نہیں ہیں۔
اس کے ارد گرد کئی کلومیٹر کے فاصلے میں دور دور واقع چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں اور حدِ نگاہ تک پتھریلے میدان۔ اگر آپ ہائی وے کی جانب سے اس سٹیشن کی طرف جانا چاہیں تو گاڑی پر وہاں تک پہنچنے کا راستہ نہیں ہے۔
اس کے لیے زیادہ تر فاصلہ آپ کو پیدل یا موٹر سائیکل پر طے کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے پہلے روز اس سٹیشن پہنچنے والے افراد کو ریلوے نے ایک مال برداری گاڑی کے ذریعے مچھ ریلوے سٹیشن پہنچایا۔
BBCٹرین حملے کی جگہ سے بھاگ کر کوئٹہ پہنچنے والوں میں فوج کے سابق حوالدار اللہ دتہ بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سنیاروں سے سکریپ خریدنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ اللہ دتہ کا تعلق لاہور کے علاقے شاہدرہ سے ہے۔
مچھ شہر میں یہ ریلوے سٹیشن پنیر سے لگ بھگ 50 سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ نسبتاً بڑا ریلوے سٹیشن ہے جہاں زیادہ سہولیات میسر ہیں۔ یہاں سے کوئٹہ شہر کا فاصلہ بھی تقریباً 50 کلومیٹر ہے۔
مچھ ٹاؤن میں بھی کچھ عرصہ قبل شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا اور ان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس ٹاون میں کوئلے کی کئی کانیں موجود ہیں اور بڑی مقدار میں یہاں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے۔
یہاں سے ہائی وے کے راستے کوئٹہ آنا آسان ہے۔ تاہم اس راستے پر ریلوے کے کئی لوہے کے بنے پل بھی موجود ہیں اور کئی سرنگیں بھی ہیں جن میں سے ریل گاڑی کو گزرنا پڑتا ہے۔
BBCقیام پاکستان کے قبل بھی جب برطانوی فوج بلوچستان میں داخل ہوئی تو ان کو بھی بولان کے علاقے میں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا
گزشتہ برس کولپور کے مقام پر ان ہی لوہے کے پلوں میں سے ایک کو شدت پسندوں نے دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا تھا۔ اس کے بعد کافی عرصے تک اس لائن پر ریل ٹریفک معطل رہی تھی۔ اس کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
وادی بولان کے اس علاقے میں اونچے پہاڑوں کے سلسلے کے درمیان سے برساتی نالا گزرتا ہے۔ اس دشوار گزار علاقوں سے گزرتے ہوئے ٹرین کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے۔
ماضی میں بھی اس علاقے میں ٹرینوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ ایک عرصہ ایسا بھی تھا جس میں ٹرینوں پر حملے اس قدر بڑھ گئے تھے کہ اس کے بعد ٹرینوں کی حفاظت کے لیے ہیلی کاپٹر سکیورٹی مہیا کرتے تھے۔
بولان کا یہ علاقہ شدت پسند کالعدم تنظیم بی ایل اے کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس دشوار گزار عللاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہیں ہوتا۔
قیام پاکستان کے قبل بھی جب برطانوی فوج بلوچستان میں داخل ہوئی تو ان کو بھی بولان کے علاقے میں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی جب بلوچستان میں شورش ہوئی تو بولان ہی کے علاقے میں شدت پسند تنطیموں کی طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سنہ 2000 کے بعد بھی اور حال ہی میں گذشتہ کچھ برسوں سے ایک مرتبہ پھر بولان کے علاقے میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جعفر ایکسپریس حملہ: کیا بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟فوج کا 33 شدت پسندوں کی ہلاکت، 300 مغویوں کی بازیابی کا دعویٰ: ’جعفر ایکسپریس کے واقعے کے بعد رولز آف دی گیم تبدیل ہو گئے ہیں‘جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟: ’ان کے لیڈر نے کہا سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں‘کیا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے؟بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟