جعفر ایکسپریس کے مسافروں نے کیا دیکھا؟: ’ان کے لیڈر نے کہا سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں‘

بی بی سی اردو  |  Mar 12, 2025

BBC

ایک مال بردار ریل گاڑی 11 مارچ کی رات کے گیارہ بجے سست رفتاری سے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ رینگ رہی ہے اور اس پر سوار اکثر مسافر یا تو کھڑے ہیں یا پھر تھکن سے چور فرش پر ہی سہمے بیٹھے ہیں۔

یہ غیرمعمولی منظر بلوچستان کے شہر مچھ کے ریلوے سٹیشن کا ہے اور اس مال بردار گاڑی میں سوار افراد کے ساتھ منگل کو جو کچھ ہوا اس کی کہانی وہ شاید کبھی نہ بھلا سکیں۔

اس مال گاڑی پر سوار افراد اس جعفر ایکسپریس کے کچھ مسافر تھے جو منگل کی دوپہر درۂ بولان کے علاقے ڈھاڈر میں بلوچستان لبریشن آرمی کے مسلح شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی۔

نو بوگیوں پر مشتمل کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر جب حملہ ہوا تو اس وقت ریل گاڑی میں 400 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔

شدت پسندوں نے ریل گاڑی کو ایک سرنگ میں روک کر اس پر موجود افراد کو یرغمال بنا لیا تھا اور اس واقعے کو17 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزرنے کے باوجود اب بھی سکیورٹی آپریشن جاری ہے۔

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح تک 155 مسافروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ بی ایل اے نے بھی منگل کو میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ عام شہریوں، خواتین اور بچوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

ریل گاڑی کے باقی مسافروں کے بارے میں تاحال کوئی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور منگل کی شب نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے یہ ضرور کہا کہ ’شدت پسند بہت سے مسافروں کو اپنے ساتھ پہاڑوں میں لے گئے ہیں۔‘

بازیابی کے بعد منگل کی شب مچھ سٹیشن پہنچنے والے مسافروں نے بی بی سی کو اس حملے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روداد سنائی۔

Getty Imagesایک مال بردار ریل گاڑی رات کے گیارہ بجے سست رفتار سے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ رینگ رہی ہے اور اس پر سوار اکثر مسافر یا تو کھڑے ہیں یا پھر تھکن سے چور فرش پر ہی سہمے بیٹھے ہیں۔

جعفر ایکسپریس کی بوگی نمبر تین میں موجود مشتاق محمد کا کہنا تھا کہ ’حملے کا آغاز ’ایک بہت بڑے دھماکے‘ سے ہوا۔‘

اسی ٹرین کی بوگی نمبر سات میں موجود اسحاق نور اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ہمراہ کوئٹہ سے راولپنڈی جا رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ٹرین کی کھڑکیاں اور دروازے ہل کر رہ گئے اور میرا ایک بچہ جو کہ میرے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا نیچے گر گیا۔‘

مشتاق محمد کے مطابق ’اس کے بعد فائرنگ شرو ع ہو گئی۔ فائرنگ ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ اس فائرنگ کے دوران ایسا منظر تھا جو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔‘

ادھر فائرنگ اور گولیاں کوچز پر لگتے دیکھ کر اسحاق نور نے اپنے ایک بچے کو جبکہ ان کی اہلیہ نے ان کے دوسرے بچے کو اپنے نیچے کر لیا تاکہ ’اگر گولی لگے تو ہمیں لگے اور بچے بچ جائیں۔‘

اسحاق کے مطابق 'فائرنگ کا سلسلہ شاید پچاس منٹ تک رہا ہو گا۔۔۔ اس دوران ہم لوگ سانس بھی نہیں لے رہے تھے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا۔‘

مشتاق محمد بتاتے ہیں کہ ’پھر آہستہ آہستہ فائرنگ رکی اور اس کے بعد مسلح افراد بوگیوں میں داخل ہوئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’فائرنگ رکنے پر چند مسلح لوگ بوگی میں داخل ہوئے اور انھوں نے کچھ لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھنا شروع کیے اور ان ہی میں سے کچھ لوگوں کو علیحدہ کرتے گئے۔ ہماری بوگی کے دروازوں پر تین تین عسکریت پسند پہرہ دے رہے تھے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ سویلین، خواتین، بوڑھوں اور بلوچوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔‘

مشتاق محمد نے بھی مزید بتایا کہ ’یہ لوگ (حملہ آور) آپس میں بلوچی میں بات کر رہے تھے اور ان کا لیڈر انھیں بار بار کہہ رہا تھا کہ ’سکیورٹی اہلکاروں پر خصوصی نظر رکھو، یہ ہاتھ سے نکلنے نہیں چاہییں۔‘

اسحاق نور بتاتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ ہماری بوگیسے انھوں نےکم از کم 11 مسافروںکو نیچے اتارا اور کہا کہ یہ سکیورٹی اہلکار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر ایک شخص نے کچھ مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس کو تشدد کر کے نیچے اتارا گیا اور پھر گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد بوگی میں موجود تمام لوگ ان کی ہدایات پر عمل کرتے رہے۔‘

اسحاق نورنے بتایا کہ شام کے وقت حملہ آوروں نے مسافروں سے کہا کہ ہم بلوچوں، عورتوں، بچوں اور بزرگ مسافروں کو رہا کررہے ہیں۔ وہ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے مگر جب میں نے ان کو بتایا کہ میں تربت کا رہائشی ہوں اور میرے ساتھ بچے اور خاتون ہیں تو انھوں نے مجھے بھی جانے دیا۔‘

بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟زہری پر ’مسلح گروہ کا قبضہ‘ اور جبری گمشدگیوں کا الزام: بلوچستان کے قصبے میں 8 جنوری کے دن کیا ہوا تھا؟کاہان: بلوچستان کا امن اور نمائندگی سے محروم دور دراز علاقہ جہاں 180 سال قبل برطانوی فوج کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا تھاکیا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے؟Getty Images’پیدل چلتے چلتے پنیر سٹیشن پہنچے‘

کوئٹہ سے لاہور اپنے عزیزوں کے ہاں جانے کے لیے منگل کی صبح محمد اشرف جعفر ایکسپریس میں سوار ہوئے تھے۔

یہ وہی محمد اشرف ہیں جن کے بیٹے منگل کی سہ پہر کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر اپنے والد کی خیریت کے حوالے سے معلومات ڈھونڈنے پہنچے تھے اور اس دوران ہمارے نامہ نگار محمد کاظم سے بات کی تھی۔

محمد اشرف نے پہلے مچھ سے فون پر اور پھر کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں براہ راست بی بی سی سے بات کی اور حملے کی جگہ سے پنیر سٹیشن تک کے سفر کے بارے میں بتایا۔

محمد اشرف کے مطابق شدت پسندوں کی جانب سے بزرگوں، عام شہریوں، خواتین اور بچوں کو جانے دیا گیا اور پھر ان کا پنیر سٹیشن کا طویل پیدل سفر شام کے وقت شروع ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’پنیر سٹیشن تک ہم تین سے ساڑھے تین گھنٹے میں بہت مشکل سے پہنچے، کیونکہ تھکاوٹ بھی تھی اور ساتھبچے، جوان بچیاں، خواتین بھی تھیں۔

’زیادہ تر لوگ سامان چھوڑ کر آئے تھے، جبکہ کچھ سامان ساتھ لیے آ رہے تھے، جس پر میں نے انھیں کہا کہ یہاں جان بچانا مشکل ہو رہا ہے۔۔۔ بہرحال کچھ ضعیف آدمی تھے انھیں ہم لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا اور کرتے کرتے یہاں تک پہنچے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’مسافروں میں بہت زیادہ خوف تھا، قیامت کا منظر تھا۔‘

محمد اشرف کہتے ہیں کہ ’میرے اندازے کے مطابق وہ (شدت پسند) دو ڈھائی سو کے قریب افراد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے اور حملہ آوروں کی تعداد بھی سو سوا سو کے قریب تھی۔‘

BBC

اسی طرح بہاولپور جانے والے مسافر بشیر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مسلح افراد آئے اور انھوں نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ نیچے اتریں۔ انھوں نے نہ مجھے روکا اور نہ میرے بچوں کو۔

’مسلح افراد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں۔ اس کے بعد ہم لوگ مشکل راستوں سے ہوتے ہوئے پنیر ریلوے سٹیشن پہنچے۔‘

ایک اور مسافر خاتون کا کہنا تھا کہ جب شدت پسند ریل گاڑی پر حملہ آور ہوئے تو سب سے پہلے ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے ہر طرف دھواں ہی دھواں ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بعد چاروں طرف سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ’جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو حملہ آور ہمارے ڈبے میں داخل ہوئے اور کہا فوراً یہاں سے نکلیں۔ میں نے اپنے شوہر کو ساتھ لیا اور ہم ٹرین سے نیچے اتر گئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ شدت پسندوں نے بہت سے مرد مسافروں کو ٹرین میں روک لیا اور خواتین، بچوں، بزرگوں کو آنے دیا ہے۔ ’پیچھے بہت سے مردوں کو روک رکھا ہے اور خدا جانے ان کے ساتھ کیا ہو گا۔‘

جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟کیا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے؟زہری پر ’مسلح گروہ کا قبضہ‘ اور جبری گمشدگیوں کا الزام: بلوچستان کے قصبے میں 8 جنوری کے دن کیا ہوا تھا؟کاہان: بلوچستان کا امن اور نمائندگی سے محروم دور دراز علاقہ جہاں 180 سال قبل برطانوی فوج کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا تھابی ایل اے نے بارکھان میں سات افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی: ’والدہ کا غم بانٹنے آنے والے رشتہ داروں کے بھی جنازے اٹھانا پڑے‘’پیروں کے نیچے سونا اور چاندی لیکن یہاں سڑک ہے نہ خوراک‘: بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کے لیے دالبندین کا انتخاب کیوں کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More