آسام کا ’فوریسٹ مین‘ جس نے بنجر زمین کو بڑے سرسبز جنگل میں بدل دیا

اردو نیوز  |  Feb 23, 2025

آپ نے انڈیا کے معروف گلوکار محمد رفیع کی آواز میں فلم جنگلی کا یہ نغمہ ضرور سنا ہو گا:

چاہے کوئی مجھے جنگلی کہے

کہنے دو جی، کہتا رہے

لیکن آج ہم نہ اس کے ہیرو شمی کپور کی بات کر رہے ہیں نہ ہی محمد رفیع کی بلکہ بات کر رہے ہیں ایک انسان کی جنہوں نے 1360 ایکڑ کی بنجر زمین کو سرسبز جنگل میں تبدیل کر دیا۔

اور اس کارنامے پر انہیں ’جنگل مین‘، ’دی فارسٹ مین آف انڈیا‘ کہا گیا۔

ان پر نہ صرف کتابیں لکھی گئی ہیں بلکہ فلمیں بھی بنیں ہیں اور اس کے ساتھ ان کے کارنامے کو معروف ایگریکلچر یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے۔

جنگل مین جادو پائینگ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے ماجولی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کوئی 40 سال قبل درخت لگانے کا جو سلسلہ شروع کیا اس کا نہ صرف ان پر بلکہ وہاں کی ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ان کی بھینسیں اور گائيں ہیں جن کا دودھ بیچ کر وہ اپنا گزارہ کرتے ہیں۔

جادو ایک ایسے علاقے میں آباد تھے جو اکثر سیلاب کی زد میں آ جاتا تھا اور وہاں ریت ہی ریت ہو جاتی تھی۔ انہوں نے ایک بار دیکھا کہ کس طرح سیلاب نے کئی تناور درختوں کو بہا لیا۔ اس کے بعد ان کے ہاں کی زمینیں بنجر ہو گئیں۔

وہاں انہیں زمین پر مردہ سانپ بھی نظر آئے جو ان کے لیے درخت لگانے کی ترغیب اور تحریک ثابت ہوئے۔ انہیں یہ خیال آیا کہ اگر خشک سالی سے سانپ مر سکتے ہیں تو انسانوں کا حال کیا ہو گا۔

اس تباہی کا ذاتی مشاہدہ کرنے کے جادو پائینگ نے اپنے اس ریت کے ٹکڑے کو واپس پرانی حالت میں لانے کا تہیہ کر لیا۔

جادو پائینگ کا اگایا گیا سرسبز جنگل اب لاکھوں جانوروں کا مسکن بن چکا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)انہوں نے ریاست میں کافی تعداد میں پائے جانے والے بانس کے درخت لگانے سے شجر کاری کی ابتدا کی اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ وہ مختلف قسم کے پیڑ پودے لگاتے رہے۔

جادو بتاتے ہیں کہ جب وہ 16 سال کے تھے تو ان کے ہاں وہ تباہ کن سیلاب آیا تھا جس نے زراعت، سبزیاں اور جنگلی حیات کو بڑے پیمانے پر تباہ کر دیا۔

جنگل کے محکمے کو مطلع کیا گیا، لیکن انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ سب درخت خود لگائیں۔

اس کے بعد انہوں نے شجرکاری کا کام شروع کر دیا اور پھر دریائے برہمپتر کے کنارے کی ریتیلی زمیں پر انہوں نے پودے لگانا شروع کر دیے۔

ان کی کوشش کی وجہ سے جادو پائینگ نے نہ صرف اپنی زمین کو خشک سالی، زمین کے کٹاؤ اور جنگلات کی کٹائی سے بچایا بلکہ انہوں نے ہر دن ایک درخت لگانے کا منصوبہ بنایا جو دھیرے دھیرے آج ایک سرسبز جنگل بن گیا جو اب لاکھوں جانوروں کا مسکن بن چکا ہے۔

ہر شخص جادو پائینگ کی کہانی سے حقیقتاً متاثر ہو سکتا ہے۔ آسام کے جورہٹ کے قریب کوکلامکھ میں واقع یہ گھنا جنگل ’مولائی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور آج 1300 ایکڑ سے زیادہ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

جیتو کلیتا کی تیار کردہ مقامی ڈاکیومنٹری فلم ’دی مولائی فاریسٹ‘ انڈیا کی مشہور یونیورسٹی جواہر لعل نہرو میں دکھائی گئی (فائل فوٹو: بلاگچیٹر)مقامی نیوز پورٹل ڈائیورسٹی آسام سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس جزیرے پر 5 ہزار اضافی ایکڑ پر درخت لگا رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا ماڈل قائم کیا ہے جو بتاتا ہے کہ انسان ماحول کی حفاظت میں کیا کچھ کر سکتا ہے۔

یہ جنگل بنگال ٹائیگر کے ساتھ ساتھ ہندوستانی گینڈے اور سو سے زائد ہرن اور خرگوش کا مسکن ہے۔ اس کے علاوہ، مختلف قسم کے پرندے اور بندر بھی مولائی جنگل میں دکھائی دیتے ہیں۔

ہاتھیوں کے ریوڑ جب گاؤں والوں کے کھیتوں کو روند دیتے ہیں تو لوگ جادو سے شکایت کرتے ہیں وہ کہ جنگلوں کو کم کریں تاکہ ان کا نقصان کم ہو۔ جادو ان کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں ’تمہیں درختوں کو کم کرنے سے پہلے مجھے مارنا ہو گا۔‘

جادو پچھلے 40 برسوں سے روزانہ جزیرے پر آ کر چند پودے لگاتے ہیں یہ ان کے لیے آسان کام نہیں تھا۔

کئی فلمی ہدایت کاروں نے جادو پائینگ کے سفر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے (فائل فوٹو: شلندرا یشونت)وہ سورج نکلنے سے پہلے اٹھ کر پودے لگاتے اور پھر ان کو مسلسل پانی دینا ان کے لیے وقت کے ساتھ ایک بڑا چیلنج بنتا گيا۔

اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ ہر پودے کے اوپر بانس کا پلیٹ فارم بنایا اور مٹی کے برتن رکھے جن میں چھوٹے سوراخ تھے، تاکہ نیچے پودوں کو ہفتے میں ایک بار پانی ملے جس کے قطرے مٹی کے برتن سے رس کر نیچے آتے تھے۔

جب ان سے ان کی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’ایسا نہیں کہ میں نے یہ سب اکیلے کیا۔ آپ ایک یا دو درخت لگاتے ہیں، اور ان سے سیپلنگ بنتے۔ اور جب وہ سیپلنگ بن جاتے ہیں تو ہوا جانتی ہے کہ کیسے ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے، پرندے جانتے ہیں، گائیں جانتی ہیں، ہاتھی جانتے ہیں، یہاں تک کہ دریائے برہمپتر کا پورا ماحولیاتی نظام جانتا ہے کہ ان کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔‘

جادو پائینگ نے انڈین عوام پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور کئی ہدایت کاروں نے ان کے سفر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

ونائیک ورما نے جادو پائینگ پر ’جادو اینڈ دی ٹری پلیس‘ نامی کتاب لکھی ہے (فائل فوٹو: گڈ ریڈز)سنہ 2012 میں جیتو کلیتا کی تیار کردہ مقامی ڈاکیومنٹری فلم ’دی مولائی فاریسٹ‘ انڈیا کی مشہور یونیورسٹی جواہر لعل نہرو میں دکھائی گئی۔

سن 2013 کی بنی ڈاکیومنٹری فلم ’فارسٹنگ لائف‘ میں جادو پائينگ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا گيا ہے۔ اس فلم ہدایت کاری فلم ساز آرتی شریواسو نے کی ہے اور مولائی جنگل کی زندگی کو پیش کیا ہے۔

ان کی کوشش ولیم ڈگلس کی 2013 کی ڈاکیومنٹری فلم ’فارسٹ مین‘ کا موضوع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنہ 2018 کی فلم ’ہاتھی میرا ساتھی (2018)‘ جادو کے کردار پر مبنی ہے۔ اسے تمل ہدایت کار پربھو سولومن نے بنایا ہے۔

اس کے علاوہ ان کی زندگی پر صوفیہ گہولز نے ایک کتاب ’دا بوائے ہُو گرو اے فاریسٹ: دا ٹرو سٹوری آف پائینگ‘ لکھی ہے۔

اس کے علاوہ ونائیک ورما نے ان پر ’جادو اینڈ دی ٹری پلیس‘ نامی کتاب لکھی ہے۔

جادو کی کوشش ولیم ڈگلس کی 2013 کی ڈاکیومنٹری فلم ’فارسٹ مین‘ کا موضوع ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف انوارنمینٹل سائنس کی جانب سے ایک پروگرام میں جادو پائینگ کو اعزاز سے نوازا گیا۔ جے این یو کے وائس چانسلر نے اس موقع پر انہیں ’فاریسٹ مین آف انڈیا‘ کہا۔

سنہ 2015 میں انہیں صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے دہلی میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا۔ ان کی کامیابیوں کے اعتراف میں انہیں قاضی رنگا یونیورسٹی اور آسام ایگریکلچرل یونیورسٹی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ بھی دی گئی۔

’فاریسٹ مین آف انڈیا‘ جادو پائینگ کی متاثر کن کہانی اب امریکہ کے ایک سکول کے نصاب کا حصہ بن چکی ہے۔

سنہ 2015 میں جادو کو صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے دہلی میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا (فائل فوٹو: اے این آئی) بریسٹل کنیٹیکٹ کے گرين ہلز اسکول میں ٹیچر نوامی شرما کے مطابق طلبہ کو زراعت کے شعبے میں پدم شری جادو پائینگ کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں کو یہ سبق پڑھانے کا مقصد آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بچوں کو یہ بتایا جائے کہ صحیح نقطہ نظر اور پختہ عزم کے ساتھ کوئی بھی فرد دنیا پر کس طرح مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More