مقبوضہ مغربی کنارے میں رم اللہ کے شمال میں واقع قصبے کوبر سے تعلق رکھنے والے قیدی نائل البرغوثی کے خاندان کے مطابق انھوں نے گذشتہ منگل اپنے اہل خانہ کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے والے معاہدے کے تحت اگلے مرحلے میں انھیں رہا کر دیا جائے گا۔
خاندان نے مزید کہا کہ البرغوثی نے كتسيعوت (النقب) جیل سے اپنی اہلیہ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انھیں جمعرات یا سنیچر کو رہا کر دیا جائے گا۔
فلسطینیوں کے لیے نائل البرغوثی ایک انتہائی اہم شخصیت ہیں کیونکہ انھوں نے تقریباً 45 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے ہیں۔ یہ کسی بھی فلسطینی قیدی کا اسرائیلی جیل میں گزارا گیا سب سے طویل عرصہ ہے۔
فلسطینی قیدیوں کے امور کی اتھارٹی ہیئت شؤون الاسری کے مطابق، یہیں سے انھوں نے فلسطینی حلقوں میں ’قیدیوں کے باپ‘ کا لقب حاصل کیا۔
البرغوثی کی عمر 67 سال ہے اور انھوں نے اپنی زندگی کا تقریباً دو تہائی حصہ اسرائیلی جیلوں میں گزارا ہے جن میں 34 سال مسلسل جیل بھی شامل ہے۔
نائل کو 1978 میں رملہ کے شمال میں کارکنوں کو لے جانے والی بس کو روکنے اور اس کے اسرائیلی ڈرائیور موردچائی یاکوف کو قتل کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بی بی سی عربی کے مطابق دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ نائل کو رم اللہ کے قریب ایک اسرائیلی فوجی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اسرائیلی جیلوں میں قید کے دوران انھوں نے اپنی سیاسی وابستگی الفتح سے حماس میں تبدیل کر لی۔
یہ وہ وقت تھا جب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے جس کی قیادت اس وقت یاسر عرفات کر رہے تھے۔
نائل البرغوثی کون ہیں؟
وہ رم اللہ کے شمال مغرب میں واقع قصبے کوبر میں پیدا ہوئے تھے اور ان کا تعلق برغوثی خاندان سے ہے جس سے کئی ممتاز فلسطینی شخصیات کا بھی تعلق ہے۔ ان میں فتح تحریک کے سیاسی رہنما مروان البرغوثی بھی شامل ہیں جو اسرائیلی جیلمیں قید ہیں۔
نائل البرغوثی نے اپنے گاؤں کوبر میں پرائمری سکول کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پڑوسی گاؤں برزیت کے پرنس حسن سکول میں مکمل کی۔
بی بی سی عربی کے مطابق 1967 میں اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے کے فوراً بعد نائل کی سیاسی سرگرمیاں بہت کم عمری میں ہی شروع ہو گئیں۔ البرغوثی، ان کے بھائی عمر اور کزن فخری دیواروں پر لکھنے اور 1968 میں مغربی کنارے سے اسرائیل جانے والی کارکنوں کی بسوں والی سڑکیں بلاک کرنے میں سرگرم تھے۔ اس وقت نائل کی عمر گیارہ سال سے زیادہ نہیں تھی۔
مروان البرغوثی: دہائیوں سے جیل میں قید ’فلسطینی نیلسن منڈیلا‘ کی رہائی کی بازگشت اور ’اسرائیلی توقعات‘شارٹ رینج پروجیکٹائل اور سات کلوگرام کا وارہیڈ: ’چوتھی منزل پر پہنچے تو اسماعیل ہنیہ کے کمرے کی دیواریں اور چھت گر چکی تھی‘متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ’جس صوفے پر یحییٰ سنوار کی موت ہوئی وہ میری ماں نے مجھے دیا تھا‘: وہ گھر جہاں حماس کے سربراہ کو اسرائیل نے ہلاک کیا
ستر کی دہائی کے وسط میں ان کے بھائی عمر بیروت میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلے گئے۔ اس کے بعد ان کے کزن فخری بھی عمر سے جا ملے۔ وہیں پر وہ فتح تحریک کی صفوں میں شامل ہو گئے جن کی سرگرمیاں اس وقت بیروت میں عروج پر تھیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہیں پر ان دونوں نے فوجی تربیت حاصل کی۔
ستر کی دہائی کے آخر میں عمر اور فخری مغربی کنارے واپس آئے اور نائل ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
اس وقت وہ برزیت شہر کے ہائی سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ تینوں نے مل کر اپنی فوجی سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
بی بی سی عربی کے مطابق نائل، عمر اور فخری مستقبل میں فوجی کارروائیوں کے اہداف کی تلاش کے لیے اکثر اسرائیلی علاقوں میں داخل ہوتے تھے، انھوں نے حیفہ میں ایک فیکٹری کے خلاف تخریب کاری کی کارروائی کی اور یروشلم میں ایک کیفے کو اڑانے کا منصوبہ بنایا۔
وكالة الأنباء الفلسطينية - WAFA1967 میں اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے کے فوراً بعد نائل کی سیاسی سرگرمیاں بہت کم عمری میں ہی شروع ہو گئیں
قید کے دوران انھوں نےاسرائیلی ٹی وی پر ایک نوجوان فلسطینی خاتون امان نافع کے بارے میں رپورٹ دیکھی جنھیں 1987 میں یروشلم میں حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 1997 میں وہ رہا کر دی گئی تھی۔
اس وقت انھوں نے اس نوجوان خاتون سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ امان کے والدین کے گھر جا کر ان کا ہاتھ مانگیں۔۔لیکن امان نے اس وقت ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ انھیں نہیں جانتی تھیں۔
Reutersبرغوتی نے 2011 میں رہائی کے ایک ماہ بعد ہی أمان نافع سے شادی کی۔
جون 2006 میں حماس نے غزہ کی پٹی کی سرحد کے قریب اسرائیلی علاقے کے اندر ایک آپریشن کیا جس کے نتیجے میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو گرفتار کر لیا گیا۔
سنہ 2011 کے آواخر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا تھا جس میں اسرائیل کی جانب سے 1027 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے فوجی گیلاد کی رہائی بھی شامل تھی۔
نائل البرغوثی ان افراد میں شامل تھے جنھیں اس معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اسی معاہدے میں یحییٰ سنوار کو بھی رہا کیا گیا تھا جو بعد میں غزہ میں حماس کے سربراہ کے طور پر سامنے آئے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے طوفان الاقصیٰ حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔
رہائی کے صرف ایک ماہ بعد نائل نے أمان نافع سے شادی کی اور اپنے گاؤں کوبر میں رہنے کے لیے واپس آ گئے۔
المركز الفلسطيني للإعلام -Palinfoنائل اپنی رہائی کے دوران (2011-2014)
کچھ ذرائع کا اس بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ نائل کو نظر بند کیا گیا تھا کیونکہ ان کی نقل و حرکت رم اللہ اور آس پاس کے دیہات تک محدود تھی اور انھوں نے اپنے گاؤں کے اندر زمینوں کو دوبارہ حاصل کرنے کا کام کیا۔
سنہ 2014 میں تین اسرائیلی نوجوانوں کو جنوبی مقبوضہ مغربی کنارے سے اغوا کیا گیا تھا اور بعد میں ان کی لاشیں ہیبرون کے ایک گاؤں کے قریب سے ملی تھیں۔ اسرائیل نے اس کا الزام حماس کے ایک گروہ پر عائد کیا۔
اس کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مہم چلائی اور گیلاد کی رہائی کے بدلے رہا ہونے والے درجنوں افراد کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔
نائل البرغوثی کو جون 2014 میں اپنی رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کے الزام میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی دوبارہ گرفتاری کی پہلی وجہ تو ان کی برزیت یونیورسٹی میں اسرائیلی جیل میں اپنی قید کے دوران کے حالات پر تقریر کرنا بنی۔ تاہم دوسری وجہ فلسطینی میڈیا میں آنے والی یہ خبریں بنیں کہ انھیں فلسطینی انتظامیہ کی جانب سےقیدیوں کے امور کے وزیر کے عہدے کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔
ابتدائی طور پر انھیں 30 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی اور 2016 کے آخر میں انھوں نے اپنی سزا پوری کی لیکن انھیں کبھی رہا کیا ہی نہیں گیا۔
اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اوفر جیل میں اسرائیلی فوجی عدالت نے مئی 2015 میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ نائل نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا جس سے ان کی رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی ہو، لیکن انھوں نے 2017 کے اوائل میں اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
بعد میں فوجی عدالت نے 1978 میں ان کے خلاف جاری کی گئی سابقہ سزا پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ جاری کیا تھا۔
فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام نے کیس میں ’خفیہ معلومات‘ کی موجودگی کی وجہ سے ان کی سابقہ سزا یعنی عمر قید اور 18 سال کی سزا پر دوبارہ عمل درآمد کیا ہے۔
فلسطینی خبر رساں ادارے کے مطابق ان کے وکیل نے ان کی عمر قید کی سزا پر دوبارہ عمل درآمد کے فیصلے کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کیں لیکن ان درخواستوں پر کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا۔
دریں اثنا اسرائیلی ذرائع نے 2022 میں اسرائیلی انتظامیہ نے اطلاع دی تھی کہ ایک فوجی عدالت نے اپیل پر نائل البرغوثی کے خلاف فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
’جس صوفے پر یحییٰ سنوار کی موت ہوئی وہ میری ماں نے مجھے دیا تھا‘: وہ گھر جہاں حماس کے سربراہ کو اسرائیل نے ہلاک کیامروان البرغوثی: دہائیوں سے جیل میں قید ’فلسطینی نیلسن منڈیلا‘ کی رہائی کی بازگشت اور ’اسرائیلی توقعات‘شارٹ رینج پروجیکٹائل اور سات کلوگرام کا وارہیڈ: ’چوتھی منزل پر پہنچے تو اسماعیل ہنیہ کے کمرے کی دیواریں اور چھت گر چکی تھی‘متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ’بات نہ کرو ، گولی مارو‘: اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایران میں جاسوسی کارروائیوں کی تاریخ’نتن یاہو کا یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق‘: اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے تین مراحل