Getty Imagesامریکہ نے تقریبا 18,000 انڈین شہریوں کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے تھے
ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم غیر ملکی شہریوں کی وسیع پیمانے پر ملک بدری کو ملک کی ایک اہم پالیسی بنا دیا ہے۔ اب تک امریکہ نے تقریباً 18,000 انڈین شہریوں کی نشاندہی کی ہے جن کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ غیر قانونی راستوں سے امریکہ داخل ہوئے تھے۔
گذشتہ ہفتے نریندر مودی نے کہا تھا کہ انڈیا امریکہ میں غیر قانونی طور پر موجود اپنے شہریوں کو واپس لے گا اور 'انسانی سمگلنگ کے نظام‘ کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کرے گا۔
واشنگٹن کے دورے کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 'یہ بہت ہی عام خاندانوں کے بچے ہیں اور وہ بڑے خوابوں اور وعدوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔'
اب جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایبی بوڈیمن اور دیویش کپور کے ایک نئے مقالے میں وقت کے ساتھ ساتھ غیر دستاویزی انڈین شہریوں کی تعداد، آبادی، داخلے کے طریقوں، مقامات اور رجحانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہاں کچھ زیادہ حیرت انگیز نتائج ہیں۔
امریکہ میں کتنے غیر قانونی انڈین موجود ہیں؟
غیر قانونی تارکین وطن امریکہ کی آبادی کا تین فیصد اور بیرون ملک پیدا ہونے والی آبادی کا 22 فیصد ہیں۔
تاہم ان میں مکمل دستاویزات کے بغیر امریکہ آنے والے انڈین شہریوں کی تعداد مختلف سرویز میں مختلف آئی ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر اور سینٹر فار مائیگریشن سٹڈیز آف نیو یارک (سی ایم ایس) کا اندازہ ہے کہ 2022 تک تقریباً 700،000 افراد تھے جو میکسیکو اور ایل سلواڈور کے بعد تیسرا سب سے بڑا گروپ بناتے ہیں۔
اس کے برعکس مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایم پی آئی) کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 375,000 ہے، جس سے انڈین شہری غیر قانونی طریقے سے امریکہ پہنچتے ہیں اور یہ غیر قانونی طریقے سے سفر کرنے والے مُمالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں۔
ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) کے سرکاری اعداد و شمار ایک اور تصویر پیش کرتے ہیں، جس میں 2022 میں 220،000 غیر مجاز انڈین کی امریکہ آنے کا پتہ چلتا ہے۔
مطالعے کے مطابق تخمینوں میں وسیع فرق غیر دستاویزی انڈین آبادی کے حقیقی حجم کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک اور امریکی جنگی جہاز 119 تارکین وطن کے ساتھ امرتسر پہنچ گیا ’ہمارے مقدس شہر کو جلاوطنی کا مرکز نہ بنائیں‘ٹرمپ کا انڈیا کو ’ایف 35 سٹیلتھ‘ طیارے دینے کا عندیہ:دنیا کے سب سے بہترین اور مہنگے طیارے میں خاص کیا ہے؟گرم جوشی اور قہقہوں کے تبادلے کے بعد ٹرمپ، مودی ملاقات میں کون سے اہم معاملات اور مسائل زیر بحث آئیں گے؟غیرقانونی انڈین تارکین وطن کی امریکہ بدری: چھ ماہ کا خطرناک سفر، لاکھوں کا خرچہ اور امریکی فوجی طیارے میں ہتھکڑیوں میں واپسیاس کے باوجود تعداد کم رہی
انڈین تارکین وطن امریکہ میں مجموعی غیر مجاز تارکین وطن آبادی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔
اگر پیو اور سی ایم ایس کے اندازے درست ہیں تو امریکہ میں ہر چار میں سے ایک انڈین تارکین وطن غیر قانونی طریسے سے آیا ہے۔ (انڈین تارکین وطن امریکہ میں سب سے تیزی سے بڑھتے ہوئے گروہوں میں سے ایک ہیں، جو 1999 میں 600،000 سے بڑھ کر 2022 میں 32 لاکھ ہو گئے ہیں۔
ڈی ایچ ایس نے 2022 میں تخمینہ لگایا تھا کہ امریکہ میں غیر دستاویزی انڈین آبادی 2016 کی بلند ترین سطح سے 60 فیصد کم ہو کر 560،000 سے 220،000 رہ گئی ہے۔
2016 سے 2022 تک غیر دستاویزی یا غیر قانونی انڈین شہریوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے کمی کیسے آئی؟ دیویش کپور کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار واضح جواب فراہم نہیں کرتے ہیں لیکن قابل قبول وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ کچھ نے قانونی حیثیت حاصل کی جبکہ دیگر واپس آئے خاص طور پر کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مُشکلات کی وجہ سے۔
تاہم یہ تخمینہ 2023 میں امریکی سرحدوں پر انڈین شہریوں کی تعداد میں اضافے کی عکاسی نہیں کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اصل تعداد اب زیادہ ہوسکتی ہے۔
Getty Imagesٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں سیاسی پناہ کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے سرحدی جھڑپوں کے باوجود امریکی حکومت کے اندازوں کے مطابق مالی سال 2020 سے 2022 تک غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے انڈین شہریوں کی آبادی میں کوئی واضح اضافہ نہیں ہوا ہے۔
انکاؤنٹرز یا جھڑپوں سے مراد ایسے واقعات ہیں کہ جن میں غیر امریکی شہریوں کو میکسیکو یا کینیڈا کے ساتھ ملک کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امریکی حکام کی طرف سے روکا جاتا ہے۔
ڈیفرڈ ایکشن فار چائلڈ ہوڈ ارائیولز (ڈاکا) حاصل کرنے والے انڈین شہریوں کی تعداد بھی 2017 میں 2،600 سے کم ہو کر 2024 میں 1،600 رہ گئی ہے۔ ڈاکا پروگرام ان تارکین وطن کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو بچپن میں امریکہ آئے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے آنے والے انڈین شہریوں کی آبادی کی تعداد اور تمام غیر مجاز تارکین وطن کے حصے کے طور پر اضافہ ہوا، جو 1990 میں 0.8 فیصد سے بڑھ کر 2015 میں 3.9 فیصد ہو گیا اور 2022 میں کم ہو کر 2 فیصد رہ گیا۔
نقل مکانی کے راستوں میں اضافہ اور تبدیلی
امریکہ کی دو اہم زمینی سرحدیں ہیں۔
میکسیکو کی سرحد سے متصل ایریزونا، کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور ٹیکساس کی جنوبی سرحد پر تارکین وطن سب سے زیادہ آتے ہیں۔ اس کے بعد امریکہ اور کینیڈا کی سرحد ہے جو 11 ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہے۔
2010 سے پہلے دونوں سرحدوں پر انڈین شہریوں کا آنا کم تھا، جو کبھی بھی 1000 سے زیادہ نہیں تھے۔
سنہ 2010 کے بعد سے امریکہ اور میکسیکو کی جنوبی سرحد پر امریکی فوسرز اور تارکینِ وطن کے جتنے بھی انکائنٹرز ہوئے وہ سب کے سب انڈین شہریوں کے ساتھ تھے۔
مالی سال 2024 میں شمالی سرحد پر انڈین شہریوں کے سرحد پار کرنے اور انھیں روکنے کی کوشش کے واقعات کی تعداد بڑھ کر 36 فیصد ہو گئی جو گزشتہ سال صرف 4 فیصد تھی۔
کینیڈا انڈین شہریوں کے لیے زیادہ قابل رسائی انٹری پوائنٹ بن گیا تھا جس میں زائرین کے ویزا پروسیسنگ کا وقت امریکہ کے مقابلے میں کم تھا۔
اس کے علاوہ 2021 کے بعد سے سرحد پار کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا اور میکسیکو کی سرحد پر جھڑپیں 2023 میں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔
دیویش کپور نے کہا کہ ’یہ صرف انڈین شہریوں کی وجہ سے ہی نہیں ہے۔ یہ بائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد امریکہ آنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد کا حصہ ہے۔ کپور نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے جیسے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد تھی اور انڈین بھی اس میں خاصی تعداد میں تھے۔
Getty Imagesانتظامی اعداد و شمار انڈین پناہ گزینوں کی صحیح آبادی کا انداز لگانے مُشکل کام ہےغیر قانونی انڈین شہری کہاں رہ رہے ہیں؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ انڈین تارکین وطن کی آبادی والی ریاستوں کیلیفورنیا (112,000)، ٹیکساس (61،000)، نیو جرسی (55،000)، نیو یارک (43،000) اور الینوائے (31،000) میں بھی غیر مجاز انڈین تارکین وطن کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اوہائیو (16 فیصد)، مشی گن (14 فیصد)، نیو جرسی (12 فیصد) اور پنسلوانیا (11 فیصد) کی کل غیر مجاز آبادی میں بھی انڈین شہریوں کا ایک اہم حصہ ہے۔
دریں اثنا، جن ریاستوں میں 20 فیصد سے زیادہ انڈین تارکین وطن غیر مجاز یا اُن کے کاغذات مکمل نہیں ہیں ان میں ٹینیسی، انڈیانا، جارجیا، وسکونسن اور کیلیفورنیا شامل ہیں۔
دیویش کپور کا کہنا ہے کہ ’ہم اس کی توقع کرتے ہیں کیونکہ کسی نسلی کاروبار میں گھل مل کر کام تلاش کرنا آسان ہے، جیسے ایک گجراتی امریکی یا اسی طرح کے سیٹ اپ میں پنجابی یا سکھ کے لئے کام کرتا ہے۔
پناہ مانگنے والے انڈین کون ہیں؟
امریکی امیگریشن نظام سرحد پر حراست میں لیے گئے ان افراد کو قابل اعتماد ’فیئر سکریننگ‘ سے گزرنے کی اجازت دیتا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں ظلم و ستم کی وجہ سے وہاں آئے ہیں یا پناہ کے متلاشی ہیں۔ پاس ہونے والے افراد عدالت سے پناہ کی درخواست کر سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں پناہ کی درخواستوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرحدی خدشات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
انتظامی اعداد و شمار انڈین پناہ گزینوں کی صحیح آبادی کا انکشاف نہیں کرتے ہیں لیکن بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں عدالتی ریکارڈ کچھ آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
انڈیا سے تعلق رکھنے والے پنجابی بولنے والے 2001 سے انڈین پناہ کی درخواستوں پر غالب رہے ہیں۔ پنجابی کے بعد انڈین پناہ گزین ہندی (14 فیصد)، انگریزی (8 فیصد) اور گجراتی (7 فیصد) بولتے ہیں۔
انھوں نے مالی سال 2001-2022 کے دوران پناہ کے 66 فیصد مقدمات دائر کیے ہیں جس میں پنجاب اور پڑوسی ریاست ہریانہ کو تارکین وطن کے اہم ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
انڈیا سے تعلق رکھنے والے پنجابی بولنے والوں میں پناہ کی درخواست کی منظوری کی شرح بھی سب سے زیادہ (63 فیصد) تھی، اس کے بعد ہندی بولنے والوں (58 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ اس کے برعکس، گجراتی بولنے والوں کے صرف ایک چوتھائی معاملوں کو منظور کیا گیا۔
’گیمنگ دی سسٹم‘: پناہ کی درخواستوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے
آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کی جانب سے جمع کیے گئے امریکی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں انڈین شہریوں کی پناہ کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔
صرف دو سالوں میں درخواستوں میں دس گنا اضافہ ہوا جو 2021 میں تقریبا 5،000 سے بڑھ کر 2023 میں 51،000 سے زیادہ ہو گیا۔
اگرچہ یہ اضافہ امریکہ میں سب سے زیادہ ڈرامائی ہے لیکن اسی طرح کے رجحانات کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی دیکھے گئے ہیں۔ جہاں انڈین شہری پناہ حاصل کرنے والے سب سے بڑے گروہوں میں شامل ہیں۔
دیویش کپور کا ماننا ہے کہ یہ ’ظلم و ستم کے معروضی خوف کے بجائے پناہ گزینوں کے نظام سے کھیلنے کا ایک طریقہ ہے، کیونکہ اس عمل میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔‘
پناہ مانگنے والے پنجابی بولنے والوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ واضح نہیں ہے کہ کانگریس پارٹی (2017-22) اور بعد میں عام آدمی پارٹی (2022-موجودہ) کی حکمرانی والی انڈیا کی شمالی ریاست میں اس اضافے کو چلانے کے لئے کیا تبدیلی آئی ہے۔
ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں پناہ کی درخواستوں میں کمی آنے والی ہے۔
ان کے پہلے ہفتے کے اندر ہی تارکین وطن کے لیے ایک اہم ایپ کو بند کر دیا گیا اور ایپ سٹورز سے ہٹا دیا گیا، جس کے نتیجے میں تقریبا تین لاکھ زیر التواء ملاقاتیں منسوخ کر دی گئیں، جن میں پہلے سے جاری سیاسی پناہ کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
Getty Imagesانڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق 2009 سے 2024 کے درمیان تقریبا 16 ہزار انڈین شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔پناہ کے متلاشی ہمیں انڈیا کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟
امریکی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر انڈیا سے آنے والے پناہ گزین پنجابی اور گجراتی ہیں یعنی انڈیا کی امیر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے گروہ جو اخراجات برداشت کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس انڈیا کے مسلمان اور پسماندہ برادریوں اور ماؤنوازوں کے تشدد اور کشمیر سے متاثرہ علاقوں جیسے تنازعات والے علاقوں کے لوگ شاذ و نادر ہی پناہ حاصل کرتے ہیں۔
لہٰذا زیادہ تر انڈیا کے پناہ گزین معاشی تارکین وطن ہیں، نہ کہ ملک کے غریب ترین یا تنازعات سے متاثرہ علاقوں سے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ لاطینی امریکہ کے راستے امریکہ کا مشکل سفر چاہے وہ لاطینی امریکہ کے راستے ہو یا کینیڈا میں ’جعلی‘ طالب علموں کے طور پر انڈیا کی فی کس آمدنی سے 30-100 گنا زیادہ ہے جس سے یہ صرف ان لوگوں کے لئے قابل رسائی ہے جن کے پاس فروخت یا گروی رکھنے کے لئے اثاثے ہیں۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پنجاب اور گجرات جو غیر مجاز انڈین شہریوں کے لیے سرفہرست ریاستیں ہیں، انڈیا کے امیر ترین علاقوں میں سے ہیں جہاں زمین کی قیمتیں کھیتی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔
مطالعے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہاں تک کہ غیر قانونی کام کرنے کے لیے بھی بہت پیسہ درکار ہوتا ہے۔‘
انڈیا سے امریکہ آنے والے غیر قانونی طریقے کیوں اختیار کرتے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ پناہ کی بڑھتی ہوئی درخواستوں کا تعلق انڈیا میں ’جمہوری پسپائی‘ سے ہو سکتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے۔
پنجاب اور گجرات میں تارکین وطن کی ایک طویل تاریخ ہے جہاں تارکین وطن نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا بھی رُخ کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں انڈیا کو 120 ارب ڈالر موصول ہونے والی ترسیلات زر سے بہتر زندگی کی امنگوں کو تقویت ملتی ہے جو غربت کی وجہ سے نہیں بلکہ ’نسبتا محرومی‘ کی وجہ سے ہے کیونکہ خاندان بیرون ملک دوسروں کی کامیابی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انڈیا میں ایجنٹوں اور بروکرز کی ایک متوازی صنعت نے اس مطالبے کا فائدہ اٹھایا ہے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کی حکومت نے ’اس کے برعکس دیکھا ہے شاید اس لیے کہ غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ بھیجنے والے ممالک سے کہیں زیادہ بوجھ ہے۔‘
کتنے انڈین شہریوں کو ملک بدر کیا گیا ہے؟
انڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق 2009 سے 2024 کے درمیان تقریبا 16 ہزار انڈین شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔
صدر اوباما کے دور حکومت میں ہر سال اوسطا 750، ٹرمپ کے پہلے دور میں 1550 اور بائیڈن کے دور میں 900 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔
مالی سال 2023 اور 2024 کے درمیان انڈین تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن 2020 میں تقریبا 2،300 تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔
انڈیا کے 104 غیرقانونی تارکین وطن کی امریکہ بدری کے بعد ملک واپسی: ’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آ گیا‘ٹرمپ کا تارکین وطن کو گوانتانامو بھیجنے کا اعلان اور امریکہ کے وہ شہر جو ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ ہیںغیرقانونی انڈین تارکین وطن کی امریکہ بدری: چھ ماہ کا خطرناک سفر، لاکھوں کا خرچہ اور امریکی فوجی طیارے میں ہتھکڑیوں میں واپسیگرم جوشی اور قہقہوں کے تبادلے کے بعد ٹرمپ، مودی ملاقات میں کون سے اہم معاملات اور مسائل زیر بحث آئیں گے؟ٹرمپ کا انڈیا کو ’ایف 35 سٹیلتھ‘ طیارے دینے کا عندیہ:دنیا کے سب سے بہترین اور مہنگے طیارے میں خاص کیا ہے؟ایک اور امریکی جنگی جہاز 119 تارکین وطن کے ساتھ امرتسر پہنچ گیا ’ہمارے مقدس شہر کو جلاوطنی کا مرکز نہ بنائیں‘