’ویلکم ٹو دی فیملی، اب آپ ہماری بیٹی ہیں۔‘
شادی کے دن اپنے سسر سے یہ جملہ سن کر کوئی بھی دلہن یقیناً خوش ہو گی اور مستقبل کے حوالے سے کافی پراعتماد بھی محسوس کرے گی۔ لیکن شاید بہت ساری انڈین اور پاکستانی لڑکیوں کے لیے یہ محض ایک ٹوٹا ہوا خواب ثابت ہو۔
یہ ڈائیلاگ ایسی ہی ایک فلم کا ہے جسے پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا پر گوگل پر سب سے زیادہ بار سرچ کیا گیا۔
فلم ’مسز‘ میں اگرچہ موضوع وہی پرانا ہے یعنی لڑکیوں پر شادی کے بعد سسسرال میں ذمہ داریوں کا بوجھ، شادی سے پہلے کے خوابوں کا ٹوٹنا، شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل وغیرہ تاہم یہ ایک مشترکہ خاندان میں ارینج میرج کی کچھ حقیقتوں کو عیاں کرتی ہے۔
کچھ مناظر بہت سے ناظرین کے لیے پریشان کن بھی ہیں لیکن پھر بھی کئی خواتین اس میں اپنی زندگی کا عکس دیکھتی پائی گئیں۔
اس فلم میں جس مسئلے کو اجاگر کیا گیا وہ ہے میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق۔
سیکس لائف میں غیر حسّاس رویہ
شادی کی پہلے ہی رات سے رچا اور ان کے شوہر دیوارکر میں جذباتی فرق صاف دکھائی دیتا ہے۔
رچا کے شوہر کا رومانس چار دن میں ختم ہو جاتا ہے اور وہ روز مرّہ انداز میں صرف سیکس کے لیے ان کے قریب آتے ہیں۔
دیوارکر کو فلم میں ماہرِ امراض نسواں دکھایا گیا ہے۔ لیکن فلم بینوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ’گائناکالوجسٹ ہو کر بھی انھیں سیکس کے دوران عورت کو ہونے والی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔‘
رچا کے شوہر کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ بیوی جسمانی تعلق کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں۔ جس کی وجہ سے رچا انھیں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ وہ صرف ’مکینیکل سیکس‘ نہیں کرنا چاہتیں۔
فلم میں ایک موقع پر جب شوہر بیوی کا بوسہ لینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ انھیں ’بدبو آ رہی ہے‘ جس پر شوہر کہتا ہے ’تم سے کچن کی بو آ رہی ہے اور یہ دنیا کی سیکسی ترین بو ہے۔‘
لیکن تھوڑا وقت گذرنے پر یہی شوہر بیوی کی جانب سے پیار کرنے اور ’فور پلے‘ کے لیے کہنے پر اس پر ’سیکس ایکسپرٹ‘ ہونے کا الزام لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم سے کیا پیار کروں ’تم سے تو ہر وقت کچن کی بو آتی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر فلم بینوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس سے بیشتر مرد صرفِ نظر کرتے ہیں۔
فلم کے مرکزی کردار رچا کی طرح کئی خواتین اسی وجہ سے سیکس سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ اس تعلق میں مرد کی جانب سے رومانوی رویہ کم ہو جاتا ہے اور گھر کے کام سے تھک جانے والی خواتین مزید تھکن سے بچنے کے لیے کمرے میں ہی نہیں جاتیں۔ بالکل ایسے جیسےفلم میں رچا ایک منظر میں لاؤنج کے صوفے پر سو جاتی ہے۔
خواتین کا جنسی تذبذب
خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن اور برطانیہ میں بطور ماہر اطفال کام کرنے والی ڈاکٹر ایویڈ ڈیہار کہتی ہیں کہ ’خواتین کے جسمانی لحاظ سے مختلف افعال ہوتے ہیں۔ خواتین کے ہارمونز حیض کے دوران اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہارمونز میں یہ ماہانہ بنیادوں پر ہونے والا اُتار چڑھاؤ افسردگی، تھکاوٹ اور جسم میں کم ہوتی توانائی کا سبب بن سکتا ہے اور ’ایسی صورت میں خواتین جنسی طور پر تذبذب کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کی جنسی خواہش کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔‘
’لہذا اگر شوہر اپنی اہلیہ کے جسم اور رویے میں ہونے والی اِن تبدیلیوں کو بروقت سمجھ پائے تو وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بہتر جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ خواتین کے جسم میں ہارمونز کے عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جنسی تعلقات کے قائم کرنے کے لیے دستیاب یا تیار نہیں ہو سکتیں۔‘
’ایسی صورتحال میں خواتین کو سیکس کرنے پر مجبور کرنا خطرناک ہو سکتا ہے اور اس سے اندام نہانی کے پھٹنے اور خون بہہ نکلنے کے ساتھ ساتھ خواتین پر شدید نفسیاتی ضرب لگ سکتی ہے اور اس کے علاج کے لیے متاثرہ خاتون کو برسوں جسمانی اور ذہنی علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘
’خواتین کی سیکس میں عدم دلچسپی مردوں سے دگنی‘وہ عوامل جو مردوں اور خواتین میں جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش کو کم کرتے ہیںکیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟’سٹوڈیو میں سیکس‘ اور ’ہٹ مین جیسی دھمکیاں‘: ہپ ہاپ میوزک کے بادشاہ کی سلطنت کیسے بکھری؟
ڈاکٹر ایویڈ ڈیہار کے مطابق ’ایسی صورتحال میں خواتین کو سیکس کرنے پر مجبور کرنا خطرناک ہو سکتا ہے اور اس سے اندام نہانی کے پھٹنے اور خون بہہ نکلنے کے ساتھ ساتھ خواتین پر شدید نفسیاتی ضرب لگ سکتی ہے اور اس کے علاج کے لیے متاثرہ خاتون کو برسوں جسمانی اور ذہنی علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘
بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے الگ الگ رویّے
شادی کے بعد لڑکی گھر کے کام ہی کرے گی اس سوچ کی عکاسی شادی کے تحفوں میں بھی ظاہر ہوتی ہے جیسے فلم کے کردار رچا کو بھی زیادہ تر کچن کے استعمال کی چیزیں تحفے میں ملتی ہیں۔
رچا بھی اچھی مشرقی بہو کی طرح سسر اور شوہر کی خوشی کے لیے اپنے ڈانس کے شوق کو بھلا کر ناصرف ساس کی غیر موجودگی میں گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے بلکہ بہتر سے بہتر کھانے پکانے کی کوشش کرتی ہے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انھیں لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی کریں ان کی ستائش نہیں ہو رہی۔ رچا کی ماں بھی انھیں حالات سے ’ایڈجسٹ‘ کرنے کو کہتی ہیں۔
ایک موقع پر رچا کے سسر انھیں کپڑے تک ہاتھ سے دھونے کو کہتے ہیں کیونکہ ان کے بقول مشین میں پسینے کے داغ نہیں جاتے۔
Getty Images ایک عمومی سوچ یہی ہے کہ شادی کے بعد لڑکی زیادہگھر کے کام ہی کرے گی
شائقین کے لیے وہ منظر بھی حیران کن تھا جب ماہواری آنے پر رچا کو ان کا شوہر کچن میں جانے سے روک دیتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے پانچ دن کے لیے رچا کو ذمہ داریوں سے آزادی اور آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن چُھوت اچھوت پر یقین رکھنے والے ان کے شوہر اور سسر کے لیے یہ وقت مشکل ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ انڈیا اور نیپال کے کچھ علاقوں میں اب بھی ماہواری کے دنوں میں عورتوں کو ناصرف کچن میں نہیں جانے دیا جاتا بلکہ کچھ علاقوں میں تو انھیں گھر کی دار دیواری سے بھی باہر نکال دیتے ہیں۔
رچا کام کاج کی مشکلات تو سہہ جاتی ہیں لیکن اس وقت دکھی ہو جاتی ہیں جب انھیں ان کے شوق ’ڈانس‘ سے ناصرف روکا جاتا ہے بلکہ سوشل میڈیا سے ڈانس کی پرانی ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
ایک وقت آتا ہے کہ رچا کو احساس ہوتا ہے کچھ بھی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔ لیکن ان کے والدین واپس جانے کو کہتے ہیں۔یہاں وہ کہتی ہیں ’آپ جیسے والدین نے بیٹوں کو بگاڑ رکھا ہے۔ بیٹا نہیں ہوں میں، بیٹی ہوں۔ جو عزت بیٹوں کو ملتی ہیں وہ بیٹی کو بھی ملنی چاہیے۔‘
فلم کے آخری مناظر میں رچا اور دیوارکر کو اپنی اپنی زندگیوں میں آگے بڑھتے دکھایا گیا ہے۔
رچا اپنا ڈانس کا شوق پورا کرتی نظر آتیہیں اور دیوارکر کے گھر میں ایک نئی بہو اسی جستجو اور محنت میں مگن نظر آتی ہیں جو کبھی رچا کی زندگی کا حصہ رہا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین کا ردِ عمل
پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں اس فلم پر سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے جاری ہیں جہاں ایک طرف فلم کے مرکزی کرداروں میں نظر آنے والے مرد اداکاروں کی تصاویر کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ ’اس وقت سب سے زیادہ نفرت سمیٹنے والے مرد‘ ہیںتو وہیں خواتین کے مسائل کی اتنی اچھی عکاسی پر فلم کی تعریف ہو رہی ہے۔
ایک سوشل میڈیا صارف مہناز اختر نے تبصرہ کیا ’اگر آپ ایک خاتون خانہ ہیں تو اس میں آپ کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ جو 24/7 زندگی میں چل رہا ہو وہی سکرین پر کیا دیکھنا، کیوں دیکھنا؟۔۔۔ ہاں مردوں کو مشورہ ہے کہ یہ فلم ضرور دیکھیں۔ ایسی فلمیں مردوں کے لیے ہی بطور خاص بنائی جاتی ہیں۔‘
Getty Imagesسوشل میڈیا پر ایک صارف کے مطابق ’جھگڑا برتن دھونے، سل بٹے سے چٹنی پیسنے یا گھر کی صاف صفائی خود کرنے کا نہیں‘’مسز محض ایک فلم نہیں انڈین اور پاکستانی عورت کی زندگی کا عکس ہے‘
اقرا بنتِ صادق نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا ’جھگڑا برتن دھونے، چٹنی پیسنے یا گھر کی صفائی خود کرنے کا نہیں ہے! کبھی بھی نہیں تھا! جھگڑا بس یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی کے لیے اپنے گھر یا اپنی زندگی میں یہ کردار تعین کیا ہے۔۔۔ تو کم از کم اس کو نبھانے کے لیے اسے عزت بھی دیں۔۔‘
مومنہ انور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مسز محض ایک فلم نہیں ہندوستانی اور پاکستانی عورت کی زندگی کا عکس ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو ہر عورت اور مرد کو دیکھنی چاہیے۔ یہ ناصرف ہمارے سماج کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ رشتوں میں عزت، برابری اور انسانیت کا ہونا کتنا ضروری ہے۔‘
پرساد قدم نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار بریانی بنائی تھی، میرے والدین نے میری تعریف کی تھی، لیکن میری بہن غصے میں تھی۔ اس نے سخت محنت کی جبکہ میں نے صرف اجزا کو ملایا۔ میں نے باورچی خانے میںگند پھیلا دیا، مجھے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ اسے کس نے صاف کیا تھا۔ یہ پدرشاہی ہندوستانی گھرانوں کی حقیقت ہے۔ ہندوستانی مردوں کی پرورش میں کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘
ایک اور مرد صارف نے بظاہر ہلکے پھلے موڈ میں ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’میری بیوی نے ابھی ’مسز‘ مووی دیکھی ہے اور وہ منہ پھلا کر بیٹھ گئی ہے۔ میں کھانا بناتا ہوں، ابھی آلو کے پراٹھے بنا رہا ہوں۔ فلم بنانے والے یہ ڈسکلیمر دیا کریں کہ یہ سب کے لیے نہیں ہے۔ ہر عورت ایک جیسی نہیں ہوتی اور سبھی مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔‘
کیم سیکس: ’جنسی لذت کے لیے آئس کا نشہ کرنے سے لطف تو دوبالا ہوا لیکن ہم تیزی سے کمزور پڑنے لگے‘بچوں کے ذہن پر پورن دیکھنے کے منفی اثرات: ’13 برس کی عمر تک میں پورن کے ساتھ ساتھ خود لذتی کے عمل سے آشنا ہو چکی تھی‘کیا عورت کا جسم جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتا ہے؟’سٹوڈیو میں سیکس‘ اور ’ہٹ مین جیسی دھمکیاں‘: ہپ ہاپ میوزک کے بادشاہ کی سلطنت کیسے بکھری؟’خواتین کی سیکس میں عدم دلچسپی مردوں سے دگنی‘نوجوانوں میں کنڈوم کے استعمال کو ترک کرنے کا رجحان جو پورن دیکھنے سے بڑھ رہا ہے