Getty Imagesپاکستانی بلے باز سلمان آغا کا کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں سینچری بنانے کے بعد ایک انداز
یہ خیال ہی کس قدر مضحکہ خیز تھا کہ جو ٹورنامنٹ پاکستان نے چیمپئینز ٹرافی کی تیاری میں سجایا اور اسے اپنے نوتعمیر شدہ سٹیڈیمز کی نقاب کشائی کا وسیلہ بنایا، اِسی کے فائنل تک یہ میزبان خود ہی نہ پہنچ پاتا۔
کرکٹ سے جڑی ایک ضخیم معیشت ہے جس کا مکمل انحصار کھیل اور مسابقت کی معنویت پر ہے۔ اگر پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ ٹورنامنٹ کے فائنل میں دو مہمان ٹیمیں کھیل رہی ہوتیں تو یقیناً شائقین کے ساتھ ساتھ براڈکاسٹرز کے جذبات بھی خاصے مجروح ہوتے۔
اس ادراک نے پاکستانی ڈریسنگ روم میں وہ روح پھونک دی جو کئی تاریخی ریکارڈز پھلانگتے ہوئی فتح کی صورت شائقین کے ذہنوں میں ایسی نقش ہو گئی کہ سالہا سال کی داستانوں کا حصہ رہے۔
صائم ایوب کی انجری نے پاکستانی تھنک ٹینک کو کئی ایک آزار دیے ہیں اور چیمپئینز ٹرافی سے عین پہلے جب ایک طے شدہ فاتحانہ کمبینیشن یوں اوپر تلے تبدیلیوں کا ہدف بن جائے تو امکانات بھی مثبت نہیں رہتے۔
اس بیٹنگ آرڈر میں فخر زمان کے سوا سبھی بلے بازوں کو، اپنی قوت سے قطع نظر، اس ترتیب پر بیٹنگ کرنا پڑ رہی ہے جو ٹیم کی ضرورت ہے۔ اگرچہ انٹرنیشنل سطح پر کسی بھی بلے باز کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ بدلتی ترتیب سے خود کو ہم آہنگ کر سکے مگر اس ہم آہنگی کو جو وقت درکار ہوتا ہے، اب وہ بھی میسر نہیں۔
Getty Images
ایسے میں یہ ریکارڈ ساز فتح مزید خوش کُن ہو کر اُبھرتی ہے کہ کراچی میں نہ صرف پاکستان نے اپنی ون ڈے تاریخ کا بلند ترین تعاقب اپنے نام کیا بلکہ یہ کارنامہ اس بیٹنگ آرڈر کے ساتھ انجام دیا جہاں سبھی بلے باز اپنے نئے کرداروں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
باوومہ نے ٹاس کی خوش بختی تو اپنے نام کر لی مگر وہ جانتے تھے کہ ایک نوآموز بولنگ یونٹ کے ساتھ جیت کھوجنے کے لیے انھیں سکور بورڈ پر ایسا ہندسہ درکار ہو گا جس کے دفاع میں کچھ کوتاہیوں کی گنجائش بھی نکل پائے۔
کپتان اور ان کے نائب نے پاکستان کو جنوبی افریقہ پر ریکارڈ فتح دلوا دیرچن رویندرا پیشانی پر گیند لگنے سے زخمی اور گلین فلپس کے ہاتھوں پاکستانی بولرز کی پٹائی’خطا صرف رضوان کے بلے بازوں کی ہی نہیں‘پاکستان میں ٹرائی سیریز: جنوبی افریقہ کے سکواڈ میں صرف 11 کھلاڑی کیوں؟
بریٹزکے، باوومہ اور کلاسن نے اپنی جارحیت سے پاکستانی بولنگ کے ڈسپلن کی آزمائش کرتے ہوئے وہ ہندسہ سکور بورڈ پر جڑ دیا جسے پاکستان نے کبھی تعاقب میں عبور نہیں کیا تھا۔
کگیسو ربادا اور مارکو یئنسن کی خدمات سے محروم جنوبی افریقی اٹیک کو پاور پلے میں ہی وہ ضرب لگ گئی جس کے بعد اعتماد کی بحالی دشوار تھی۔ پچ کے تقاضوں سے ناواقف کوربن بوش نری پیس کی راہوں میں بھٹکتے رہ گئے اور فخر زمان نے پہلا پاور پلے پاکستان کے نام کیا۔
Getty Images
مگر وائن ملڈر کے سپیل نے منھ زور پاکستانی اننگز کو واپس گھٹنوں کے بل لاکھڑا کیا۔ کپتان اور نائب کپتان دونوں شاید توقع نہیں کر رہے تھے کہ انھیں اتنی جلدی کریز پر آنا پڑے گا اور پاکستان اچانک ایسے دباؤ میں آ چکا ہو گا۔
گو دباؤ سے نمٹنے میں محمد رضوان بھی کئی یادگار اننگز رقم کر چکے ہیں مگر سلمان آغا کا معاملہ کچھ الگ ہے۔
جہاں اکثر سمجھدار بلے باز دباؤ کے لمحات میں سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے کچھ وقت خاموشی سے گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہاں سلمان علی آغا دباؤ کا جواب واپس دباؤ سے دیتے ہیں۔
آغا ان کھلاڑیوں میں سے نہیں جو آزمائش کے ہنگام سر جھکا کر مفاہمت اپنا لیں، وہ پلٹ کر وار کرتے ہیں۔ جب جنوبی افریقی اننگز کسی بہت بڑے مجموعے کی سمت بھاگتی جا رہی تھی، تب بھی آغا ہی نے اچانک وہ ناقابلِ یقین کیچ کیا جس نے سبک خرام پروٹیز پیش قدمی سست کر دی۔
انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں جب انہوں نے فاتحانہ سینچری بنائی تھی تو ’ایکس‘ پہ، معروف فلمی ڈائیلاگ ’اپنا ٹائم آئے گا‘ کی برمحل تضمین کرتے ہوئے سلمان آغا نے ’اپنا ٹائم آغا‘ کی پوسٹ لکھی تھی۔
کراچی میں جو اننگز انھوں نے کھیلی، یہ اُن کے کرئیر کا ایک تشنہ گوشہ بھی تھی۔ جس مہارت اور صلاحیت کے وہ بلے باز ہیں، ان کے ون ڈے اعدادوشمار میں سنچری کا خانہ خالی ہونا ایک ناانصافی سی معلوم ہوتا تھا۔
گو اس سے پہلے وہ جن نمبروں پر کھیلتے آئے ہیں، وہاں سے سینچری تک پہنچ پانے کا وقت بھی کم ہی باقی رہتا مگر یہاں انھیں نمبر بھی درست ملا اور وقت بھی کافی، ضرورت صرف دباؤ جھیلنے اور اسے جذب کرنے کی تھی۔
جبکہ محمد رضوان نے اپنا کنارہ سنبھالے رکھنے کو ترجیح دی، سلمان آغا نے دباؤ جذب کرنے کی بجائے اسے واپس پلٹانے کا عزم کیا۔ اور ان کا عزم ایسا با ثمر رہا کہ نہ صرف اپنی ٹیم کو فائنل تک لے گیا بلکہ پاکستان کی چیمپئینز ٹرافی کی تیاری سے جڑے کئی سوالات کے جواب بھی دے گیا۔
رچن رویندرا پیشانی پر گیند لگنے سے زخمی اور گلین فلپس کے ہاتھوں پاکستانی بولرز کی پٹائیکپتان اور ان کے نائب نے پاکستان کو جنوبی افریقہ پر ریکارڈ فتح دلوا دیلاہوریوں کی سٹیڈیم وارمنگ پارٹی: ’تجسس تھا کہ دیکھیں ہماری حکومت نے کیا بنایا ہے‘’خطا صرف رضوان کے بلے بازوں کی ہی نہیں‘پاکستان میں ٹرائی سیریز: جنوبی افریقہ کے سکواڈ میں صرف 11 کھلاڑی کیوں؟احمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیے