نجی بجلی گھروں کو 170 ارب روپےکی ٹیکس چھوٹ کا انکشاف

ہم نیوز  |  Feb 10, 2025

اسلام آباد ( زاہد گشکوری، مجاہد حسین، ابوبکرخان ) نجی بجلی گھروں کے مالکان کو 170 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ اور ملک میں سالانہ کھربوں روپے کی بجلی چوری کا انکشاف ہوا ہے۔

جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور میں شروع ہونے والا بجلی کا بحران پیپلز پارٹی کے دور 2009 اور 2010 میں خطرناک صورتحال اختیار کر گیا۔ ان دنوں 8500 میگا واٹ یعنی مجموعی پیداوار کا 40 فیصد بجلی کا شارٹ فال رہا۔

اس بحران سے نمٹنے کیلئے 2010 میں قومی توانائی پروگرام جاری کیا گیا ، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کی بہترحکمت عملی کیلیے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی بنائی گئی، پی پی حکومت کے اہم پروجیکٹس میں نو سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کیلیے نیلم جہلم پروجیکٹ، 1400 میگا واٹ کا تربیلا فورتھ ایکسٹنشن ہائیڈرو پروجیکٹ پرتوقع کے مطابق کام نہیں ہو سکا۔

آئی پی پیز کیخلاف تحقیقات حتمی مرحلے میں داخل ، اضافی منافع خوری کی نشاندہی 

2014 سے چین کی مختلف بجلی کمپنیاں 20 ہزارمیگا واٹ بجلی بنانے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، پچھلے سال تک یہ پرائیویٹ پلانٹس حکومت کومجموعی طور پر 3000 ارب کی بجلی فروخت کرچکا ہے۔

مہنگے آئی پی پیز 2002 میں آئے، 1994 میں آئی پی پی کی ٹیرف قیمت ساٹھ پیسے تھی ، 2013 قیمت 15 روپے ہو گئی اوراب یہ 77 روپے سے اوپر جا چکی ہے۔

اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت نے انرجی پالیسی 2013 متعارف کرائی، نواز شریف حکومت نے 27 آئی پی پیز کے کوئلہ پلانٹس چائنہ سے حاصل کیے، چھ سال پہلے حب پاور پلانٹس، بلوچستان، جنکی مالیت ڈھائی ارب ڈالر کی مالیت ہے، بجلی نہیں دے دے رہا۔

نواز حکومت میں سولہ آئی پی پیز جبکہ پی پی کی حکومت میں 12 آئی پی پیز لگائے گئے تھے، 2015 میں 13 نئے آئی پی پی لگائے گئے، اہم بجلی کے پروجیکٹس میں ڈاٹانگ پاکستان کراچی پاور جنریشن لمٹیڈ، ائی سی ائی پاکستان لمٹیڈ، کے انرجی لمٹیڈ، کلاچی پورٹگن لمٹیڈ، سندھ نوری اباد پاور کمپنی لمٹیڈ،اینگرو پاورجن تھر لمٹیڈ، نیشنل پاور پارکس منیجمنٹ کمپنی لمٹیڈ، چائنہ پاور حب جنریشن کمپنی لمٹیڈ، کراچی نیکلیرپاور پلانٹ یونٹ، پورٹ قاسم الیکٹرک پاورکمپنی لمٹیڈ شامل ہیں۔

نجی بجلی گھروں کے مالکان کو 170 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کا انکشاف ہوا ہے، نجی بچلوں گھروں کو منافع والی آمدنی پر ٹیکس چھوٹ دینا ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ دینے کا انکشاف پچھلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں ہوا ہے، یہ ٹیکس چھوٹ 220 نجی بجلی گھروں کا کاروبار کرنے والی شخصیات کو دی گئی ہیں۔

ہم انویسٹی گیٹس کو حاصل رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ آئی پی پیز توانائی  پالیسی اور ٹیکس قوانین کی پاسداری نہیں کر رہے ، آئی پی پیز کی کاروباری سرگرمیوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا گیا، نجی بجلی گھروں کے مالکان نے 2018 سے 2022 تقریبا 168 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ لی، ٹیکس چھوٹ لینے کے باوجود آئی پی پیپز ملک میں بجلی کا نظام اسی طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔

بجلی صارفین کیلئے ریلیف تیار ، آئی پی پیز کیساتھ معاہدے ختم کرنیکا فیصلہ

آڈٹ ٹیم کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس حکام اس ٹیکس چھوٹ کی مانیٹرنگ کرنے میں ناکام رہے ہیں،اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ کا انکشاف اس وقت ہوا جب حکومت نے 5 نجی کمپنیوں کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدے ختم کر دیے ہیں، جن میں ملک کی سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ بھی شامل ہے۔

”ٹیک یا پے“ کو پاکستان میں ”کیپیسٹی پیمنٹس“ کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں حکومت کو نجی کمپنیوں کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ کتنی بھی بجلی پیدا کریں اور اسے گرڈ میں منتقل کریں۔

وزیرتوانائی اویس لغاری نے ہم انویسٹی گیٹس کے زاہد گشکوری کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ دیگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، اور جلد ہی لوگ اپنے ماہانہ بلوں میں اس کا اثر دیکھیں گے۔ وفاقی وزیرنے تسلیم کیا کہ حکومت کے  بجلی کی کھپت کے حوالے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور حکومتوں نجی بجلی گھروں سے زیادہ سے زیادہ معاہدے کئے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا میں 120 ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے ،اسپیشل  فرانزک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وارسک ڈیم کے علاقوں میں ساڑھے سات ارب اور شبقدر میں ساڑھے سات ارب کی بجلی چوری ہوئی۔

پیسکو کی اسپیشل فرانزک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پیسکو پولیس نے 39 کروڑ خرچ کیے لیکن ریکوری 23 کروڑ کئے، علاوہ ازیں پنتالیس کروڑ کی کیش اور بچلی کے سازو سامان کی چوری کا بھی انکشاف ہوا ہے ، بجلی چوری کرنے والے پیسکو ملازمین کیخلاف 1700 انکوائریاں کی گئی۔

تقسیم کار کمپنیوں  کے ہزاروں ملازمین کی جانب سے اربوں روپے کی کرپشن اور غبن کا انکشاف بھی ہوا ہے ، ہم انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق پانچ تقسیم کار کمپنیوں کے فنڈز میں ایک سال میں ایک ارب سے زیادہ کی کرپشن کا انکشاف ہواہے ، چار ہزار سے زائد تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین چوری، فراڈ اورغبن میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ تقسیم کار کمپنیوں میں 64 کروڑ روپے کی سرکاری گاڑیوں ، 54 کروڑ سے زائد بجلی کے سازوسامان کا چوری ہوا۔

اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی میں ڈیڑھ ارب روپے کی کرپشن ، گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی میں ساڑھے تین کروڑ اور این ٹی ڈی سی میں چھتیس لاکھ کی کرپشن پکڑی گئی ہے۔

تقسیم کار کمپنیوں میں ایک سال میں چھیالیس کروڑ کی چوری پکڑی گئی،  کوئٹہ الیکٹرک سپلی کمپنی میں تیرہ کروڑ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں تین  تین کروڑ کی چوری ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق آڈٹ ٹیموں کی سفارش کے باوجود ملوث افسران اور ملازمین کیخلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں سالانہ 459 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی، پشاور 30 ارب، لاہور 29 ، حیدرآباد 17 ارب، نوشہرہ 24 ، قصور 19 ، کوئٹہ 14 ارب، خیبر، شیخوپورہ 12 ارب، ڈیرہ اسماعیل اور مردان 11 ، لاڑکانہ، فیصل آباد 9 اور مستونگ، پشین ، خضدار، چارسدہ میں 8 ارب ، اکاڑہ ، رحیم یار خان میں 7 ارب ، خیرپور، سکھر، کشمور، کرم، جنوبی وزیرستان، صوابی اور راولپنڈی 5 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔

بلوچستان کے زیادہ بجلی چوری والے اضلاع میں 99 فیصد، جھل مگسی، آواران 97 فیصد، شیرانی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، بارکھان 93 فیصد، شہید سکندراباد 96، قلات 94 فیصد ، خاران، کیچ 91 ، ڈیرہ بگٹی، نوشکی پشین 90، واشک میں 79 فیصد، خضدار، زیارت 86، ژوب، موسی خیل میں 77 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔

انڈپینڈنٹ پاور پلانٹس کا سلسلہ 1994 سے شروع ہوا، آئی پی پی پلانٹس کے مالکان کے کیس سپریم کورٹ میں بھی رہے ، حتی کہ بین الاقوامی عدالتی فورم پر 2012 سے 2015 تک رہے ہیں جسمیں حکومت پاکستان کو اربوں روپے جرمانوں کا سامنا رہا، آئی پی پیز پلانٹس اور حکومت  کی توانائی نظام سے جڑے کئی شخصیات پر نیب کے کیس بھی بنے، ان کیس کی مبینہ کرپشن کی مالیت 200 ارب روپے زائد بنتی ہے جس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کا نام سرفہرست ہے۔

ٹاسک فورس اور آئی پی پی مالکان کے درمیان معاہدے کی تفصیلات کابینہ میں پیش کرنے کے بعد حبکو، لال پیر پاور لمیٹڈ، صبا پاور، روس پاور اور اٹلس پاور کو ان آئی پی پیز میں شامل کیا گیا جن کے معاہدے ختم کیے جائیں گے۔ ان 5 آئی پی پیز سے 2400 میگاواٹ کے معاہدوں کے خاتمے کے بعد اب یہ بجلی نظام کا حصہ نہیں رہیں گے کیونکہ این ٹی ڈی سی نے بھی ان سے ٹیک اینڈ پے کے طریقہ کار کے تحت بجلی خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔

لیسکو کا بجلی چوری میں ملوث افسران و ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنے کا فیصلہ

ایک ٹاسک فورس کے عہدیدار نے بتایا کہ آئندہ ہفتے 18 مزید آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت شروع کی جائے گی جن کی مجموعی کیپسٹی 4267 میگاواٹ ہے اور یہ بھی 1994 اور 2002 کی بجلی کی پالیسیوں کے تحت وجود میں آئے تھے، ان سے بھی بجلی ٹیک اینڈ پے موڈ یعنی جتنی بجلی لی جائے گی اتنی ہی ادائیگی کی جائے گی اور انہیں کیپسیٹی پیمنٹ ادا نہیں کی جائے گی۔

حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں فرنس آئل پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی 19، پانی سے چلنے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے والے پلانٹس تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس پانچ ، سورج کی روشنی سے چلنے والے پلانٹس 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاہدوں کے خاتمے سے عوام کے لیے بجلی کی قیمت کم ہو گی، حقائق بتاتے ہیں کہ عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملے گا، اب بڑا سوال یہ  بھی ہے کیا اس سے حکومت کو کئی سو ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں بچت ہو گی جس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کی پیش رفت اور ان کے خاتمے کی وجوہات کے بارے میں عافیہ ملک نے بتایا کہ سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز کی جانب سے اس مسئلے کو ایکس پر لانے کے بعد اس پر بہت زیادہ شور مچ گیا تھا اور حکومت بھی دبائو کا شکار ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس تنقید کو کم کرنے کے لیے فیس سیونگ کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے ، اس سے حکومت اور صارفین کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔

ہم انویسٹگیشن ٹیم کو موصول سرکاری اعداد وشمار میں انکشاف ہوا ہے کہ 30 ہزار سے زائد افسران کوسالانہ 12 ارب روپے کی مفت بجلی دیے جانے کا انکشاف  بھی ہوا ہے، دولاکھ 20 ہزارملازمین سالانہ 25 ارب کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں ، سرکاری حاضرسروس اور ریٹائرڈ ملازمین کوماہانہ 2 ارب روپے کی مفت بجلی دی جا رہی ہے، اسکے علاوہ 39 ارب روپے کی ماہانہ بجلی چوری ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ دس تقسیم کار کمپنیوں کے ایک لاکھ 81 ہزار ملازمین سالانہ 15 ارب کی فری بجلی استعمال کرتے ہیں۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ایوان صدر کے 311  ملازمین کوسالانہ 8 کروڑ اور وزیراعظم ہائوس کے 454 ملازمین کے 14 کروڑ کے یوٹیلٹی، بجلی بلوں کی مد میں ملتے ہیں، ججوں اور عملے کو 35 کروڑ روپے یوٹیلٹی اوربجلی بلوں کی مد میں رقم سالانہ دیے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے ، ان تمام ملازمین کوبجلی کے ماہانہ ساڑھے تین کروڑ یونٹ فری میں دیے جاتے ہیں۔

گریڈ 22 اور21 کے افسران کو 1300 یونٹ جبکہ 19 سکیل کے افسران کو 880 اور 20 سکیل کے افسران کو 1110 اور ایک تا درجہ چہارم کے ملازمین کو ماہانہ 100 یونٹ بجلی مفت دی جاتی ہے۔

سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ ایئنی عہدوں پرپراجمان تمام شخصیات کی بل اور یوٹیلٹی اخراجات متعلقہ ڈیپارٹمنٹ اور ڈویژن سے 20 کروڑ سالانہ جاتے ہیں، عدالت عظمی کے جج ماہانہ 2000 یونٹ جبکہ ہائیکورٹ کے جج 1300 یونٹ مفت استعمال کر سکتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ میں 120 ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف

اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئسکو) کے 3752 نادہندگان سے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کی رقم وصول کرنے میں ناکام رہی ، لیسکومیں  12718 نادہندگان کے ذمے ساڑھے 5 ارب، فیسکومیں 2 ارب ، کیسکو  577 ارب ، پیسکو میں نادہندگان نے 26 ارب روپے ادا کرنے تھے جبکہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے مختلف محکموں کے ذمے 205 ارب روپے واجب الادا تھے۔

چیئرمین سینیٹ کے پاس 7 کروڑ 10 لاکھ روپے مالیت کے بجلی کے بلز واجب الادا ہیں ، چیف جسٹس آف پاکستان 70 لاکھ روپے جبکہ پارلیمنٹ لاجز کے ذمے 12 کروڑ تک واجبات ہیں، وفاقی حکومت کے زیر انتظام اسپتال 37 کروڑ 10 لاکھ روپے کے نادہندہ ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ذمے بجلی کے بلوں کی مد میں ایک کروڑ، پاک سیکرٹریٹ 87 کروڑ 30 لاکھ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن 40 لاکھ، کیبنٹ سیکرٹریٹ 10 کروڑ ، وفاقی پولیس 17 کروڑ ، ایف بی آر/سی بی آر 3 کروڑ 70 لاکھ ، وزارت داخلہ 11 کروڑ 20 لاکھ ، وزارت صحت 6 کروڑ ، وزارت خارجہ امور 90 لاکھ ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی 70 لاکھ ، وزارت تعلیم 5 کروڑ 20 لاکھ ، وزارت حج و اوقاف 2 کروڑ 30 لاکھ ، وزارت ریلوے 15 کروڑ 70 لاکھ ، وزارت ثقافت و کھیل 6 کروڑ 70 لاکھ ، وزارت لوکل گورنمنٹ 2 کروڑ 10 لاکھ ، وزارت منصوبہ بندی و آبادی 40 لاکھ ، وزارت منصوبہ بندی و ترقی 1 کروڑ 10 لاکھ، وزارت ماحولیات اور یو آر بی 2 کروڑ 30 لاکھ، پاکستان پوسٹ آفس 1 کروڑ، پاکستان پی ڈبلیو ڈی 22 کروڑ 10 لاکھ  اور ڈی جی سپیشل ایجوکیشن کے ذمے ایک کروڑ 40 لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More