وہ نوکیلے جوتے جنھیں لندن میں ’شیطانی پنجے‘ قرار دے کر پابندی لگائی گئی

بی بی سی اردو  |  Feb 08, 2025

قرون وسطیٰ کے زمانے میں شاید سب سے بڑا خطرہ اس وقت پیدا ہوا جب لوگ یہ سوچ کر پریشان ہونے لگے کہ کوئی برائی پورے معاشرے کو برباد کر سکتی ہے۔

’پولینز‘ نامی نوکیلے جوتے لوگوں میں مقبول ہو رہے تھے لیکن ان کے بارے میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ ان سے جنسی رویے تبدیل ہوجاتے ہیں اور اسی لیے خدا نے عذاب کے طور پر طاعون کی بیماری نازل کی ہے۔

یہ نوکیلے جوتے اس قدر مشہور تھے کہ لوگ ان میں کائی یا بھوسہ بھرتے تھے تاکہ ان کی شکل برقرار رہے۔ انھیں نفیس سجاوٹی کپڑوں یا مضبوط چمڑے سے بنایا جاتا تھا۔ میدان جنگ میں جانے کے لیے اس کی بکتر بند قسم بھی دستیاب تھی۔

عقیدت مندوں کے لیے دہرا صدمہ یہ تھا کہ ان جوتوں کو ’شیطانی‘ کہہ کر لندن میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔

Getty Imagesنوکیلے جوتے پہننے والے نوجوانوں پر تنقید

بینیڈکٹائن نظریات کے پیروکار راہب اس مسئلے پر اس قدر برہم ہوئے کہ انھوں نے اس پر اپنا بے حد وقت اور توانائی صرف کی۔

1100عیسوی کے قریب لکھی گئی چرچ کی تاریخ میں آرڈریک وائٹلس نے نارمن سرداروں کے لباس پر تنقید کی اور اس دوران خاص طور پر لمبے نوک والے جوتوں کے لیے کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ولیم رفوس کے دور میں رابرٹ نامی شخص وہ پہلا فرد تھا جس نے جوتوں کی لمبی نوک کو بھوسے سے بھرنے اور انھیں بھیڑ کے سینگ کی طرح موڑنے کا رواج متعارف کروایا۔

'اس عجیب و غریب فیشن کو جلد ہی فخر اور قابلیت کی علامت کے طور پر اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد نے اپنا لیا۔‘

’بدمعاش نوجوان عورتوں جیسے رویے اپنا رہے ہیں۔‘

Getty Images

انھوں نے دستانے پہننے، درمیان سے مانگ نکالنے اور لمبے چغے پہننے پر بھی تنقید کی۔ لیکن جوتے ان کی توجہ کا اصل محور معلوم ہوتے تھے۔ ’وہ اپنے پیر سانپ کی دموں سے مشابہہ چیز میں گھساتے ہیں اور انھیں بچھوؤں کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔‘

’وہ اپنے آپ کو بدکاری میں مبتلا کر لیتے ہیں اور ساتھ ہی خواتین جیسے لمبے بال اور زیادہ تنگ قمیضیں اور چغے پہنے ہوتے ہیں۔‘

پولینز (کراؤکس) کا نام پولینڈ کے شہر کراکوف کے نام پر رکھا گیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زیادہ تر امیر مردوں کے زیر استعمال رہتے تھے۔

Getty Images

یہ بھاری بھرکم جوتے پہننے والے کی فراغت اور جسمانی محنت نہ کرنے کی قابلیت کو ظاہر کرتے تھے۔

لندن میوزیم میں ایسے جوتے بھی رکھے گئے ہیں جن کی نوک 10 سینٹی میٹر سے زیادہ لمبی ہے۔

ایوشم ایبی کے ایک راہب نے 1394 میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس نے لوگوں کو آدھے گز (45 سینٹی میٹر) لمبی نوک والے جوتے پہنے ہوئے دیکھا ہے۔

جب ایک ڈاکٹر نے عضو تناسل کی ایستادگی میں کمی سے پریشان کسان میں بکرے کے خصیوں کی پیوندکاری کی’حجابی فیشن‘ خواتین میں کیوں مقبول ہو رہا ہے؟اسلامی آزاد یونیورسٹی میں زیرجامہ میں آنے والی لڑکی کی وائرل ویڈیو اور گرفتاری: ’میں آپ کو بچانے آئی ہوں‘عالمی رہنماؤں اور ان کی بیگمات کے لاکھوں ڈالرز کے کپڑوں کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟

انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'ان جوتوں کو پہن کر چلنے والوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی پنڈلی کو چاندی کی زنجیروں سے باندھیں۔'

1348 میں طاعون نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں تقریبا 40 ہزار لوگ ہلاک ہوئے جو شہر کی آبادی کا تقریباً نصف تھا۔

چرچ نے طاعون کی وجہ ’انسانوں کے نامناسب رویے‘ کو قرار دیا اور پولینز اس رویے کی علامت بن گئے۔

Getty Imagesعضو تناسل کی ایستادگی کی علامت

یہ جوتے عضو تناسل کی ایستادگی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ جوتے پہننے والے کے ٹخنے نظر آتے تھے اور ٹانگ لمبی نظر آتی تھی جبکہ اس کے ساتھ رنگ برنگی جرابیں پہنی جاتی تھیں جس سے دیکھنے والے متاثر ہوتے تھے۔

لندن میوزیم کے مطابق نوجوان مرد گلی کے کونوں پر کھڑے ہو کر اپنے جوتے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ہلاتے تھے۔

اگر کسی جوتے کے نوک پر گھنٹیاں لگی ہوتیں تو اس کا مطلب ہوتا کہ پہننے والا جنسی تعلقات کے لیے دستیاب ہے۔

Getty Images

اسے ’بے حیائی‘ سمجھنے والے مذہبی رہنما اس لیے بھی پریشان تھے کہ لمبے نوکیلے جوتے لوگوں کو صحیح انداز میں گھٹنے ٹیکنے سے روکتے ہیں۔

1215 میں پوپ انسینٹ سوم نے پادریوں پر نہ صرف ان جوتوں کے پہننے پر پابندی لگا دی بلکہ ساتھ ہی سبز یا سرخ کپڑوں، سجے ہوئے بکلوں اور کھلے چغے پہننے کو بھی ممنوع قرار دیا۔ ان ’شیطانی پنجوں‘ پر یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ انھیں پہننے سے عبادت میں خلل آتا ہے۔

1362 میں پوپ اربن پنجم نے انھیں مکمل طور پر ممنوع قرار دینے کی کوشش کی اور 1463 میں ایڈورڈ چہارم نےبرطانوی پارلیمنٹ کے ذریعے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت لارڈ سے کم درجہ رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے دو انچ سے زیادہ نوک والے جوتے پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔

جو لوگ زیادہ لمبے نوک والے جوتے پہننے کے لیے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے ان پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا تھا۔

یہی نہیں بلکہ لندن شہر یا شہر کے کسی بھی حصے سے تین میل کے اندر کوئی بھی موچی یا جوتے بنانے والے پر لازم تھا کہ وہ کم درجے کے لوگوں کے لیے یہ جوتے فراہم کرنے یا بنانے میں معاونت نہیں کریں گے۔

تاہم کوئی بھی فیشن ایک خاص وقت کے لیے عروج پر ہوتا ہے۔ 1475 تک پولینز پہننے کا جنون بڑی حد تک ختم ہو چکا تھا۔

Getty Images

15ویں صدی کے آخر میں پسند کیے جانے والے نوکیلے جوتوں کے برعکس ہنری ہشتم کو چوڑے اور چوکور پنجے کے جوتے پسند تھے۔

وی اینڈ اے میوزیم کے مطابق 'چوڑے جوتے مردوں کے فیشن ایبل لباس کی لائن کی عکاسی کرتے تھے جنھوں نے چوڑے کندھوں والی پیڈڈ ڈبلٹس (تنگ جیکٹیں) پہنی ہوتی تھی۔‘

چنانچہ یورپی جوتے چوڑے باکس ٹوڈ جوتوں میں بدل گئے اور ظاہر ہے کہ عوام نے شاہی طرز کی تقلید جوش و خروش کے ساتھ کی۔

ہنری کے دور حکومت میں جوتوں کی چوڑائی بڑھا دی گئی۔ کچھ جوتوں کے تلے (سول) 17 سینٹی میٹر (تقریباً 7 انچ) سے زیادہ چوڑے تھے۔

ہنری ہشتم نے 1509 میں مہنگے لباس پہننے سے متعلق ایک قانون میں ترمیم کی جس میں اونچے طبقے کے دولت مند تاجروں کے لیے سماجی حیثیت سے زیادہ مہنگے کپڑے اور جوتے خریدنے کی استطاعت کو ذہن میں رکھا گیا اور شاہی و دیگر طبقوں کے درمیان فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھا گیا۔

لباس سے متعلق قوانین میں سے ایک نے ان چوڑے جوتوں کی چوڑائی پر پابندی عائد کر دی اوراس کے تحت صرف بلند مرتبے کے مردوں کو ایک خاص چوڑائی کے جوتے پہننے کی اجازت تھی۔

لباس کے قوانین میں بعد چار ترامیم نے عام لوگوں کو شاہی دربار کی کاپی کرنے سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کے پاس ایسے لوگ موجود تھے جو عوام کے جوتوں کی چوڑائی کی پیمائش کرتے اور انھیں پکڑنے میں مدد کرتے۔

Getty Images

توقعات کے عین مطابق پولینز پیروں کے لیے زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوئے۔

2005 میں کیے گئے ایک مطالعے میں قرونِ وسطیٰ کی باقیات سے پتہ چلا کہ ہیلوکس ویلس صرف پولینز کے دور کے ڈھانچوں میں پائی گئی ۔ ہیلوکس ویلس دراصل پیر کے پنجے کی ہڈی کے ابھار کے ساتھ ایک معمولی خرابی کا نام ہے جو عام طور پر بونینز کے نام سے بھی مشہور ہے۔

اور پھر 2021 کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو پولینز فیشن کے عروج کے دور میں زیادہ فیشن ایبل پائے گئے تھے ان میں بونینز، بے ڈھنگے پاؤں اور گرنے سے ہونے والے بازو کے فریکچر ہونے کے امکانات زیادہ پائے گئے۔

جب ایک ڈاکٹر نے عضو تناسل کی ایستادگی میں کمی سے پریشان کسان میں بکرے کے خصیوں کی پیوندکاری کیشین کے سستے کپڑوں کے پیچھے چھپی چینی فیکٹریوں کی کہانی، جہاں مشینیں مزدوروں کے رات دن کا فیصلہ کرتی ہیںشمالی کوریا جہاں پھٹی جینز پہننے والوں کی تلاش میں پولیس قینچی لیے سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہےاسلامی آزاد یونیورسٹی میں زیرجامہ میں آنے والی لڑکی کی وائرل ویڈیو اور گرفتاری: ’میں آپ کو بچانے آئی ہوں‘عالمی رہنماؤں اور ان کی بیگمات کے لاکھوں ڈالرز کے کپڑوں کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More