’انڈیا کے لیے باعثِ تشویش،1971 کے بعد پاکستانی فوج کی پہلی مرتبہ بنگلہ دیش واپسی۔‘ یہ انڈین نیوز ویب سائٹ ’فرسٹ پوسٹ‘ پر چھپنے والی ایک خبر کی سُرخی ہے اور ایسی دیگر متعدد خبریں اور تجزیے انڈین میڈیا پر گذشتہ کئی دن سے چھاپے اور نشر کیے جا رہے ہیں۔
انڈیا کے مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایک وفد نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تاہم بنگلہ دیش کے سرکاری خبر رساں ادارے بی ایس ایس کے مطابق ’آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پر نہیں آئے۔‘
بی ایس ایس نے چیف ایڈوائزر کی ’پریس ونگ فیکٹس‘ کے حوالے سے لکھا کہ ’وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پر نہیں آئے۔ پریس اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبریں غلط ہیں۔‘
بی بی سی اردو نے اس حوالے سے پاکستانی فوج اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو سوالات بھیجے ہیں تاہم ان کی طرف سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
انڈین میڈیا میں ایسی ’تشویش‘ بھری خبروں نے اس وقت زور پکڑا جب رواں مہینے بنگلہ دیشی فوج کا ایک وفد پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن کی قیادت میں پاکستان پہنچا اور ان کی پاکستان میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔
اس دورے کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے وفد نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشماد مرزا اور پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سندھو سے بھی ملاقات کی تھیں۔
جمعے کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے بیچ فوجی تعاون سے متعلق سوال پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ ’جو بھی سرگرمیاں ہمارے پڑوس میں، خطے میں یا انڈیا کے اردگرد ہوتی ہیں، ہم ہمیشہ اس پر نظر رکھتے ہیں۔ اور (خاص کر) ایسی سرگرمیاں جس کا تعلق ہماری قومی سلامتی سے ہو۔ ہمیں جس طرح کے قدم اٹھانے ہیں، وہ ہم اٹھائیں گے۔‘
تاریخی طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ 1971 میں پاکستانی فوج کا آپریشن اور بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی تھی۔
گذشتہ برس اگست میں پُرتشدد مظاہروں کے نیتجے میں شیخ حسینہ کو بطور وزیرِ اعظم استعفیٰ دے کر انڈیا جانا پڑا تھا جس کے بعد بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کی گئی تھی۔
شیخ حسینہ کو انڈیا کا حامی اور پاکستان کا مخالف تصور کیا جاتا تھا اور ان کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے تھے تاہم شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔
گذشتہ مہینے قاہرہ میں ڈی 8 سمٹ کے دوران پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور پاکستانی وزیرِ اعظم کے دفتر کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ’دو طرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار‘ کیا تھا اور ’باہمی فوائد پر مبنی ترقیاتی مقاصد‘ حاصل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق بھی کیا تھا۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی قربت
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری نظر آئی ہے۔
گذشتہ برس نومبر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تقریباً 20 برس تک منقطع رہنے والی سمندری تجارت بحال ہوئی تھی جب پاکستان سے سفر شروع کرنے والا کارگو بحری جہاز چٹاگانگ پہنچا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور سیاسی تعلقات تو گذشتہ برس ہی بہتر ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن رواں برس کے ابتدائی ہفتوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی افواج کے درمیان بھی رابطے بڑھتے ہوئے نظر آئے۔
14جنوری کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور بنگلہ دیشی فوج کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن نے ملاقات میں ’مضبوط دفاعی تعاون‘ استوار کرنے کا اعادہ کیا اور ’دونوں برادرانہ ممالک کی شراکت داری کو بیرونی دباؤ‘ سے پاک رکھنے پر زور دیا۔
لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سے بھی ملاقات کی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس ملاقات کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سینیئر افسر نے جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیاروں سمیت پاکستان میں بنائے جانے والے دیگر عسکری سامان میں بھی دلچپسی کا اظہار کیا۔
انڈین میڈیا پر چلنے والی کچھ خبروں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایسے امکانات بھی موجود ہیں کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلہ دیشی فوج کو تربیت دی جائے تاہم پاکستانی فوج کے بیانات میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں اور بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے اس متعلق سوال کا بھی پاکستانی فوج کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
جنوبی ایشیا پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
فضل الرحمان: دنیا کی بلند ترین عمارت اور سعودی حج ٹرمینل بنانے والے ’آئن سٹائن آف انجینیئرنگ‘ جنھوں نے پاکستان کو خیرباد کہابانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہواحمود الرحمان کمیشن: سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِاعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟
انڈیا سٹدی سینٹر (آئی ایس سی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس کہتے ہیں کہ ’پچھلے 10، 15 برس میں شیخ حسینہ کی حکومت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوئے تھے، سنہ 2016 میں انڈیا نے سارک اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کے بعد بنگلہ دیش نے بھی فوراً ایسا ہی کیا تھا۔ اب پاکستان کے لیے مثبت بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں نئی انتظامیہ سارک کو دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈھاکہ کے امور میں انڈیا کی مبینہ مداخلت پر بنگلہ دیش میں ناراضی پائی جاتی تھی اور وہاں کی نئی انتظامیہ اب شیخ حسینہ کی پالیسیوں کو خیرباد کہہ کر پاکستان سے تعلقات بہتر کر رہی ہے تاکہ لوگوں کی ناراضی کو کم کیا جا سکے۔
’دوسری جانب اگر اقتصادی نظریے سے دیکھیں تھے اس وقت بنگلہ دیش کو جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کی فروخت پر بات ہو رہی ہے۔ جب سکیورٹی تعاون بڑھے گا تو پاکستان کا بنگلہ دیش پر سٹریٹجک اثر و رسوخ بھی بڑھے گا۔‘
ڈاکٹر خرم عباس کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے پاس ایک سٹریٹجک موقع آیا ہے جس کے سبب پاکستان اس خطے میں ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
ماہر خارجہ امور کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہتر ہوتے تعلقات انڈیا کے لیے سٹریٹجک تحفظات کا باعث بالکل ہوں گے کیونکہ نئی دہلی کا اس خطے میں ایک اور ملک پر اثر و رسوخ کم ہو گیا۔
کیا انڈیا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے سبب بنگلہ دیش پاکستان کے قریب آ رہا ہے؟
یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس سے منسلک بنگلہ دیشی امور کے ماہر جیوفری میکڈونلڈ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین خوشگوار سفارتی رابطوں کے باوجود ڈھاکہ میں عبوری حکومت کا موقف یہی ہے کہ پاکستان 1971 کے اقدامات پر معافی مانگے۔
ان کی رائے ہے کہ ’جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا دونوں ممالک کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر تناؤ رہے گا اور باہمی مفادات کے معاملات پر تعاون کی راہ میں رکاوٹیں رہیں گی۔‘
مگر اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی تعلقات سے دونوں ہی ممالک کو تجارت، توانائی اور دیگر شعبوں میں فوائد حاصل ہوں گے۔
انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں تناؤ کا سبب شیخ حسینہ کی انڈیا میں موجودگی بھی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ انڈیا سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر چکی ہے۔
ڈاکٹر خرم عباس کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک طویل بارڈر ہے اور پھر بنگلہ دیش میں سیلاب بھی آتے رہتے ہیں اور ان کا واٹر مینجمنٹ پر بھی انڈیا سے مسئلہ رہتا ہے۔‘
’اس پر بھی بنگلہ دیش سوچ رہا ہوگا کہ کہیں ان معاملات پر انڈیا جارحانہ مؤقف نہ اپنالے۔ اس لیے بنگلہ دیش اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے اور ہو سکتا ہے بنگلہ دیش، پاکستان اور چین کوئی سہہ فریقی فورم تشکیل دے لیں۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش اور پاکستان کی قربت کو انڈیا کی شکست بالکل نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کے تجارتی تعلقات ہیں، زمینی سرحدیں ہیں، دریا کا نظام اور ٹرین کا نظام بھی ہے۔‘
’انڈیا کے پاس ابھی بھی ایسی صلاحیت ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات دوبارہ بحال کر سکتا ہے۔‘
ادھر جیوفری کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش کے موجودہ رہنماؤں کو انڈیا کے ساتھ مثبت تعلقات کی قدر کا بخوبی اندازہ ہے لیکن ان کی جیو پولیٹیکل حکمت عملی یہ ہے کہ کسی بھی ایک ملک پر ضرورت سے زیادہ انحصار نہ کیا جائے۔‘
’بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی نگاہ میں پاکستان سے بہتر ہوتے تعلقات سٹریٹجک اور اقتصادی آزادی کو آگے بڑھانے کی علامت ہیں.‘
انڈیا میں او پی جندال یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر شریردھا دتا کہتی ہیں کہ ’اگر ہم دونوں ممالک کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں ان کی نئی دوستی جلدبازی میں کیا گیا اقدام نظر آتی ہے۔‘
’بنگلہ دیش کا ایک بڑا طبقہ ان دو طرفہ تعلقات میں اچانک تبدیلی کو خدشات کی نگاہ سے ہی دیکھے گا۔‘
پروفیسر دتا پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات پر انڈیا میں پائے جانے والے خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات میں پہلے ہی تناؤ پایا جاتا ہے اور ایسے میں (پاکستان کے ساتھ قربت بڑھا کر) وہ ان تعلقات میں پیچیدگی کی ایک اور پرت بڑھا رہا ہے۔‘
’یہ واضح نہیں کہ بنگلہ دیش پاکستان سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں انڈیا کو ضرور ایک غیردوستانہ پیغام جا رہا ہے۔‘
پروفیسر دتا کے مطابق بنگلہ دیش کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ ’ماضی پر معافی مانگے بغیر انھیں بنگلہ دیش میں قبولیت مل رہی ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش سے رابطے بڑھانے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا۔‘
1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیاحسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِاعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟حمود الرحمان کمیشن: سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہوافضل الرحمان: دنیا کی بلند ترین عمارت اور سعودی حج ٹرمینل بنانے والے ’آئن سٹائن آف انجینیئرنگ‘ جنھوں نے پاکستان کو خیرباد کہا