پاکستانی سپنرز نے ایک بار پھر جادو دکھایا، عامر خاکوانی کا تجزیہ

اردو نیوز  |  Jan 19, 2025

آج کا میچ شاندار رہا۔ پاکستانی ٹیم کی جیت ہمارے لیے ہمیشہ خوبصورت اور ناقابل فراموش رہتی ہے۔ آج پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز پہلے ٹیسٹ پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے ماضی کی ایک حسین جھلک۔

یہ 14 مئی 2017 کی شام تھی۔ روزیو ویسٹ انڈیز میں پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز کا تیسرا ٹیسٹ کھیلا جا رہا تھا۔ سیریز ایک ایک ٹیسٹ سے برابر تھی، یہ فیصلہ کن میچ تھا۔

اس ٹیسٹ میچ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کے دو نامور بلے بازوں یونس خان اور مصباح الحق کا یہ آخری ٹیسٹ تھا۔ دونوں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے، مصباح الحق ٹیسٹ ٹیم کے کپتان تھے، اپنے آخری میچ میں انہیں فتح مل جاتی تو یہ یادگار ہوجاتا، خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان اپنی پوری تاریخ میں کبھی ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز نہیں جیتا تھا۔

اس ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں اظہر علی نے سینچری بنائی، بابراعظم نے 55 اور مصباح الحق نے 59 رنز، پاکستان نے 376 رنز بنائے جبکہ ویسٹ انڈیز کو پہلی اننگ میں 247 پر آوٹ کر دیا، محمد عباس نے پانچ وکٹیں جبکہ لیگ سپنر یاسر شاہ نے تین آوٹ کیے۔

پاکستان نے دوسری اننگ میں 174رنز بنا کر ڈکلیئر کر دیا۔ ویسٹ انڈیز کو 304 رنز کا ہدف ملا مگر ان کی بیٹنگ ناکام ہوئی، 200 پر نو آوٹ ہوگئے جبکہ آخری دو اوورز باقی تھے۔ روسٹن چیز نے وکٹ پر ٹھہر کر ایک بہت اچھی اننگ کھیلی، وہ سینچری بنا چکے تھے، مگر سکینڈ لاسٹ اوور جو یاسر شاہ کرا رہا تھا، اسے شینن گیبرائل کھیل رہے تھے۔ یاسر شاہ نے پانچ گیندیں کرا لیں مگر کچھ نہیں بن پا رہا تھا، چوتھی گیند پر گیبرائل کو بیٹ اینڈ پیڈ کیچ آوٹ دے دیا گیا، مگر اس نے ریویو لیا جو حق میں گیا۔

یاسر شاہ اپنی آخری گیند کرانے آئے۔ اس کے بعد صرف ایک اوور تھا، وہ شاید فاسٹ بولر محمد عامر کراتا اور اسے روسٹن چیز ہی نے کھیلنا تھا جو پچھلے تین چار گھنٹوں سے کھیل کر سیٹ تھا۔ یہ ٹیسٹ میچ ڈرا ہوتا نظر آ رہا تھا، ایسی صورت میں سیریز بھی ڈرا ہوجاتی اور پاکستان ایک بار پھر ویسٹ انڈیز میں سیریز جیتتے رہ جاتا۔

یاسر شاہ نے اپنی لاسٹ گیند پر بلے باز کے چاروں اطراف میں فیلڈر کھڑے رکھے تھے، آٹھ نو فیلڈر دائیں بائیں گیند دبوچنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔

یاسر شاہ نے فلائٹ کے ساتھ سلائیڈر گیند کرائی۔ گیبرائل نے اسے گگلی سمجھا اور بجائے روکنے کے نجانے کیوں ہٹ مار نے کا فیصلہ کیا۔ گیبرائل کا خیال تھا کہ چونکہ فیلڈر قریب ہیں تو وہ شاٹ مار کر چوکا لگا لے گا، مگر اس کا کیا فائدہ ہونا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے سو مزید رنز بنانے تھے تو یہ چوکا یا چھکا جو بھی ہوتا بیکار تھا۔ اصل میں گیبرائل اپنا ٹمپرامنٹ کھو چکا تھا۔ اس نے شاٹ کھیلنے کے لیے بلا گھمایا مگر ان سائڈ ایج لگ کر بولڈ ہوگیا۔ ویسٹ انڈیز آل آؤٹ ہوگئی۔

پاکستانی کھلاڑی خوشی سے پاگل سے ہوگئے۔ یاسر شاہ نے دوڑ لگائی اور پھر لمبی سلپ لگائی۔ اس کی اننگ میں پانچ وکٹیں پوری ہوگئی تھیں۔ پاکستان ٹیسٹ میچ اور ویسٹ انڈیز میں پہلی بار کوئی ٹیسٹ سیریز جیت گیا۔ مصباح الحق ایک کامیاب اور فاتح کپتان کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ پاکستانی سپنر کا جادو چل گیا۔ یہ سیریز ویسے بھی یاسر شاہ کی تھی، اس نے تین تیسٹ میچز میں 25 وکٹیں لیں۔

ساجد خان نے بڑی عمدہ باولنگ کرا کر ابتدائی چار وکٹیں لیں، پھر کچھ مزاحمت ہوئی مگر مسٹری سپنر ابرار احمد نے وکٹ لے کر اوپننگ لی (فوٹو: اے ایف پی)آج 19 دسمبر 2024 ہے، سات سال گزر چکے، اتوار کی دوپہر ملتان میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے پہلے ٹیسٹ میچ کو دیکھتے ہوئے مجھے وہی میچ یاد آ رہا تھا جو یاسر شاہ نے جتوایا۔ آج بھی پاکستانی سپنرز نے کمال کر دیا۔

پہلے ساجد خان نے بڑی عمدہ باولنگ کرا کر ابتدائی چار وکٹیں لیں، پھر کچھ مزاحمت ہوئی مگر مسٹری سپنر ابرار احمد نے وکٹ لے کر اوپننگ لی اور پھر ہیٹ ٹرک چانس بنا۔ ساجد نے اپنی پانچویں وکٹ لی اور پھر ابرار کی ایک گیند پر آخری بلے باز ریورس سوئپ کھیلتے ہوئے بولڈ ہوگیا۔ ساجد خان نے دوسری اننگ میں پانچ اور مجموعی طور پر نو وکٹیں لیں، ابرار احمد کی مجموعی طور پر پانچ وکٹیں جبکہ نعمان علی نے دوسری میں ایک اور پہلی میں پانچ وکٹیں لیں۔ یعنی بیس کی بیس وکٹیں پاکستانی سپنرز نے حاصل کیں۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی باہمی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ویسٹ انڈین بلے باز پاکستانی سپنرز کے ہاتھوں ہمیشہ پھنستے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں وسیم حسن راجہ کو ہمیشہ ویسٹ انڈیز کے خلاف کھلایا جاتا تھا، ان کا بیٹنگ ریکارڈ بھی ویسٹ انڈیز میں بہت اچھا تھا، مگر وسیم راجہ ایک اچھے لیگ سپنر بھی تھے، وہ وکٹیں بھی لے لیتے۔ پھر عبدالقادر کا جادو چلتا رہا اور ویسٹ انڈینز ان کےہاتھوں پریشان ہوئے۔

پاکستان میں ایک بار عبدالقادر کے سامنے ویسٹ انڈیز صرف 51 رنز پر آؤٹ ہوگئی، تب ویوین رچرڈ جیسا بلے باز بھی ان میں موجود تھا۔ رچرڈ نے ہمیشہ عبدالقادر کی تعریف کی اورجب اپنی دانست میں ٹیسٹ میچز کی آل ٹائم بیسٹ الیون بنائی تو اس میں بھی قادر کو شامل کیا۔ یاسر شاہ کا ذکر آ چکا ہے، سعید اجمل بھی ویسٹ انڈینز کو تنگ کرتا رہا۔

ملتان میں مگر جس طرح ساجد خان اور نعمان کی جوڑی نے ویسٹ انڈیز بیٹنگ کو تباہ کیا اور پھر دوسری اننگ میں ابرار نے ٹیل اینڈرز کو آوٹ کیا، وہ مثالی تھا۔ پاکستانی سپنرز کی گھومتی ہوئی گیندیں ویسٹ انڈین بلے بازوں کو ازحد پریشان کرتی رہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ دفاع کریں یا جارحانہ بیٹنگ۔ کریز سے باہر نکل کر شاٹ مارنے جائیں یا بیک فٹ پربلاک کریں۔ سوئپ شاٹ کھیلیں یا ریورس سوئپ۔

ساجد خان خاص طور سے غیر معمولی رہے۔ ساجد کوئی مسٹری سپنر نہیں، روایتی آف سپنر ہیں، ان کے پاس غیر معمولی ورائٹی نہیں۔ ساجد خان مگر پچ کو بہت اچھے سے استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ ان کی گیند پڑ کر اندر بہت شارٹ ٹرن لیتی ہے جبکہ بعض گیندیں بظاہر ٹرن لیتی نظر آتیں مگر پڑ کر سیدھی رہتی ہیں۔ ساجد خان کا آرم گیند بھی اچھا ہے۔ کھبے بلے بازوں کو ساجد خان خاص طور سے تنگ کرتا ہے۔ ادھر نعمان علی اپنی نپی تلی لینتھ پر ٹرن کرا کر پریشان کرتا ہے۔

اس میچ میں ٹرننگ پوائنٹ پہلی اننگ میں سعود شکیل اور محمد رضوان کی بیٹنگ تھی۔ دونوں نے بڑی اننگز کھیلیں۔

سعود شکیل بڑے تسلسل سے لمبا رنز کر رہے ہیں اور وہ مشکل ٹرننگ پچوں پر بھی متواتر رنز کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)سعود شکیل بڑے تسلسل سے لمبا رنز کر رہے ہیں، ان کی ٹیسٹ ایوریج بہت اچھی ہے اور وہ مشکل ٹرننگ پچوں پر بھی متواتر رنز کر رہے ہیں۔ دو ماہ قبل جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں سنچورین جیسی تیز سوئنگ کے لیے مددگار پچ پر بھی سعود شکیل نے بہت اچھی بیٹنگ کر کے جنوبی افریقی ماہرین کومتاثر کیا۔ محمد رضوان نے بھی اچھی جارحانہ بیٹنگ کی اور مشکل وکٹ پر پہلی اننگ میں ایسا سکور کیا جو بعد میں اچھا اور مفید ثابت ہوا۔

دوسری اننگ میں شان مسعود نے اچھی تیز نصف سینچری بنائی تاہم مڈل آرڈر اور لوئر آرڈر بری طرح فیل ہوا۔

ایک نمایاں ناکامی بابر اعظم کی رہی۔ جنوبی افریقہ میں بابراعظم نے دو تین اچھی اننگز کھیلیں، تاہم سینچری نہ بنا سکے۔ اس بار تو بابر اعظم رنز کر ہی نہیں پائے۔ امید کرنی چاہیے کہ اگلے میچ میں بابر کا بلا بھی رنز اگلے گا۔

محمد حریرہ ڈومیسٹک میں تسلسل سے رنز کر رہے تھے۔ نوجوان حریرہ کو عاقب جاوید نے اس ٹیسٹ میچ میں موقعہ دے کر اچھا کیا۔ وہ زیادہ رنز تو نہیں بنا پائے مگر دوسری اننگ میں اچھی اوپننگ پارٹنرشپ بنائی۔ امید ہے کہ حریرہ کو مزید مواقع ملیں گے۔

امکان یہی ہے کہ پاکستان کے دوسرے ٹیسٹ میں بھی ایسی ٹرننگ پچ ہی بنے گی۔ پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف آخری دو ٹیسٹوں میں یہ نسخہ کیمیا ایجاد کیا اور اب لگتا ہے مستقبل میں اسی پر عمل ہوگا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہر ملک اپنی قوت کے حساب سے ہوم پچز بناتا ہے۔ پاکستان کے پاس دو بہت اچھے تجربہ کار سپنر ساجد، نعمان موجود ہیں جبکہ ابرار بھی اچھا سپنر ہے۔

سیریز میں ہمیں برتری مل گئی ہے اور پاکستان کو اب سیریز میں شکست نہیں ہوسکتی (فوٹو: اے ایف پی)ہمیں سپن پچز بنانی چاہییں، تاہم ہمارے بلے بازوں کو بھی ایسی مشکل ٹرننگ پچوں پر کھیلنے میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے ورنہ جب مخالف ٹیم میں اچھے سپنرز ہوں گے تو پاکستان پریشان ہوگا، اپنے جال میں خود ہی پھنس سکتا ہے۔

اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی ڈومیسٹک کرکٹ میں ایک دو گراؤنڈز پر ایسی ٹرننگ سپن پچز ہی بنانی چاہئیں، تاکہ نوجوان بلے باز بھی مشکل پچ پر سپن بولنگ کو اچھا کھیل سکیں۔ سوئپ اور ریورس سوئپ مارنے میں مہارت بھی حاصل کرنا ہوگی۔

بہرحال پاکستان کو ایک بڑی جیت مبارک ہو۔ سیریز میں ہمیں برتری مل گئی ہے۔ پاکستان کو اب سیریز میں شکست نہیں ہوسکتی، البتہ اگر اگلا ٹیسٹ بھی جیت گئے تو ویسٹ انڈیز کو وائٹ واش کیا جا سکتا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More