Getty Images
نومبر کے آخری ہفتے کی خنک ہواؤں نے زور پکڑا اور اوائل سرما کی راتیں اوس کی وہ سیلن لائیں کہ اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کی پچ اپنی تاریخی شہرت ہی گنوا بیٹھی اور عمران خان جیسے گھاگ کپتان بھی دھوکہ کھا گئے۔
سنہ 1990-91 میں ویسٹ انڈیز کے دورہِ پاکستان کا دوسرا ٹیسٹ میچ تھا۔ کراچی ٹیسٹ میں سلیم ملک کی فاتحانہ سنچری اور عمران خان کی پانچ گھنٹے پہ محیط مزاحمت نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں کی وہ فتح دلائی جو صرف عددی ہی نہیں، نفسیاتی اعتبار سے بھی واضح برتری تھی۔
23 نومبر 1990 کی صبح جب ویسٹ انڈین کپتان ڈیسمنڈ ہینز ٹاس کے لیے عمران خان کے ہمراہ کھڑے ہوئے تو ان کے ذہن و دل پر نہ صرف ون ڈے سیریز میں تین صفر کے وائٹ واش کا بوجھ تھا بلکہ سامنے ٹیسٹ سیریز میں بھی اس شکست کا خدشہ منڈلا رہا تھا جو اس 'مائٹی ویسٹ انڈیز' کے کلچر میں ایک ناقابلِ یقین سی بات تھی۔
’موت کی سرگوشی‘ اور ’مائیکل ہولڈنگ کے آنسو‘Getty Images
اگرچہ اپنے عروج کی دہائیوں میں طویل قامت ویسٹ انڈین پیسرز کی 'خطرناکی' کئی تنازعات اور مباحث کو جنم دیتی رہی مگر کریبیئن کرکٹ اوائل سے ہی 'مائٹی' نہ تھی بلکہ اس کی ابتدائی شناخت ایک ایسی ٹیم کی تھی جو حیران کن نیچرل ٹیلنٹ رکھتی تھی اور 'جینٹلمین گیم' کی انگلش فلاسفی پہ پوری طرح کاربند تھی۔
مائیکل ہولڈنگ اپنی سوانح حیات 'نو ہولڈنگ بیک' میں لکھتے ہیں کہ ویسٹ انڈینز کے لیے کرکٹ کھیل سے کہیں بڑھ کر تھی اور یہ کریبیئن معاشرت کا ایک جزوِ لاینفک تھی۔
'کلائیو لائیڈ کی قیادت میں اپنی شناخت مرتب کرتی اس ویسٹ انڈین ٹیم کے لیے کرکٹ ہی وہ واحد ذریعہ تھی جو برطانوی نو آبادکاروں اور نسلی امتیاز مسلط کرنے والی اقوام کے سامنے انھیں برابری کا (واحد) موقع فراہم کر سکتی تھی۔'
دستاویزی فلم 'فائر ان بیبیلون' میں مائیکل ہولڈنگ انکشاف کرتے ہیں کہ پہلی بار جب دورہِ آسٹریلیا پر ان کا پالا ڈینس للی اور جیف تھامسن کے 'قاتلانہ' باؤنسرز اور تماشائیوں کے شدید نسل پرستانہ جملوں سے پڑا تو وہ ششدر رہ گئے (کیونکہ) وہ کرکٹ کے اس (جارحانہ) روپ سے واقف نہ تھے۔
گو کہ بعد ازاں انھیں اپنے تباہ کن باؤنسرز کی وجہ سے 'موت کی سرگوشی' کا لقب ملا، مگر اس دورے پہ آسٹریلوی یلغار نے ہولڈنگ کا اعتماد اس قدر مجروح کر ڈالا کہ وہ اپنے آنسوؤں پہ قابو نہ رکھ پائے۔
محمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےسعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھےاحمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیےٹیسٹ کرکٹ میں ’ٹو ٹیئر‘ منصوبہ ’لالچ‘ یا کھیل کی بقا کا واحد راستہ؟
کلائیو لائیڈ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ہولڈنگ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ اگر یہ ہم سے اس طرح کی کرکٹ کا تقاضا کر رہے ہیں تو پھر ہم بھی انھیں ایسا ہی کھیل، کھیل کر دکھائیں گے۔'
1975 کے دورہِ آسٹریلیا پر کلائیو لائیڈ کی ٹیم کے بیشتر چہرے نو آموز تھے۔ پانچ ٹیسٹ میچز میں شکست کے ساتھ ساتھ میزبان ملک کا رویہ بھی وہ چوٹ تھی جسے مجموعی کریبیئن شعور نے پوری طرح محسوس کیا اور ملکی میڈیا نے بھی اسے ویسٹ انڈین وقار کی وہ تذلیل قرار دیا جس کا جواب لانا ضروری تھا۔
پھر کلائیو لائیڈ کی جانب سے حکمتِ عملی کے بدلاؤ نے ویسٹ انڈین کرکٹ کی سمت بدل ڈالی اور ایک نئی پیس بیٹری کو جنم دیا۔ اب میلکم مارشل، اینڈی رابرٹس، جوئیل گارنر، کولن کرافٹ اور مائیکل ہولڈنگ کا وہ نیا روپ دنیا کے سامنے آیا جس نے 'مائٹی آسٹریلیا' کی محکوم دنیائے کرکٹ کو 'مائٹی ویسٹ انڈیز' جیسی اصطلاحات کھوجنے پر مجبور کر دیا۔
’۔۔۔لیکن سپن کے خلاف پھنستے تھے‘Getty Images
اس نظریاتی بدلاؤ نے ویسٹ انڈین برتری کی وہ بنیاد رکھی جو اگلی دو دہائیوں تک یوں حاوی رہی کہ کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق جون 1976 سے مارچ 1995 کے درمیان ویسٹ انڈیز نے 142 ٹیسٹ میچ کھیلے اور صرف 19 میں اسے شکست ہوئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جس دور میں ویسٹ انڈیز انگلینڈ کو اس کے گھر جا کر 'وائٹ واش' اور آسٹریلیا کو اس کے گھر میں بھی پے در پے ہرا رہا تھا، تب پاکستان وہ ٹیم تھی جو اس کا بہتر مقابلہ کر رہی تھی۔
فیصل آباد ٹیسٹ 1987 کی فاتح ٹیم کے رکن توصیف احمد نے کرک انفو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جو 'پاور ہٹنگ' آج کل ماڈرن کرکٹ کا مظہر سمجھی جاتی ہے، (دراصل) ویسٹ انڈین کرکٹرز یہی کام 1980 کی دہائی میں کر رہے تھے مگر وہ سپن کے خلاف 'پھنستے' تھے اور پاکستان کے پاس بہترین سپنرز تھے۔
’پاکستانی کرکٹ کے کلائیو لائیڈ، عمران خان‘Getty Images
یہ وہ دور تھا جب ویسٹ انڈیز نے متواتر 11 ٹیسٹ فتوحات کا ریکارڈ بنایا اور وہ تسلسل بھی دیکھا جہاں مسلسل 27 ٹیسٹ میچز میں یہ یکسر ناقابلِ شکست رہی۔
ویسٹ انڈین کرکٹ کے اس ناقابلِ تسخیر عہد میں پاکستان کی وہ کامیابی بھی کسی معجزے سے کم نہ تھی جو اسے 1987 کے فیصل آباد ٹیسٹ میں حاصل ہوئی۔ عبدالقادر کی گگلی اور عمران خان کی مہارت نے ویوین رچرڈز کی ٹیم کو یکسر بے بس کر ڈالا اور دنیائے کرکٹ کو ایک 'شاکنگ' بریکنگ نیوز دے ڈالی۔
دراصل عمران خان کی جارحانہ اپروچ ہی ویسٹ انڈین کرکٹ کے لیے 'ٹکر' کا چیلنج بھی تھی۔ ایک انٹرویو میں رچی رچرڈسن کا کہنا تھا کہ عمران کی قیادت میں کھیلتی اس پاکستانی ٹیم کی مجموعی اپروچ دراصل عمران کی اپنی شخصیت ہی کی 'ایکسٹینشن' تھی۔
سابق ویسٹ انڈین پیسر ٹونی گرے نے پاکستانی کرکٹ پہ عمران خان کے اثرات کا موازنہ کلائیو لائیڈ اور سر فرینک وورل کے ان دُور رس اثرات سے کیا جنھوں نے ویسٹ انڈین کرکٹ کی شناخت بدل ڈالی۔
جب بولرز کا قبرستان بلے بازوں کے لیے مشکلات کا پہاڑ بناGetty Images
تاریخی طور پر اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کی پچ سلو ہونےکے سبب بدنام رہی ہے اور ڈینس للی اسے بولرز کا قبرستان بھی قرار دے چکے تھے مگر 1990 کے دورہِ ویسٹ انڈیز کا دوسرا ٹیسٹ میچ للی کے دعوؤں کی نفی کرنے والا تھا جہاں چاروں اننگز کے اطراف 200 کا مجموعہ کسی ٹیم کے نصیب میں نہ تھا۔
اوائل سرما کی اوس زدہ راتوں سے چھنتی نمی اور نومبر کی خنک ہواؤں نے یہاں وہ کنڈیشنز پیدا کر دی تھیں کہ نہ صرف ہوا سے سوئنگ میسر ہونے لگی بلکہ پچ سے بھی اتنی سیم موومنٹ ملنے لگی کہ یہ بولرز کا قبرستان اچانک بلے بازوں کے لیے مشکلات کا پہاڑ بن گیا۔
پہلے ہی سیشن میں عمران خان کا پہلے بیٹنگ کا فیصلہ غلط ثابت ہونے لگا۔ یہ سعید انور اور معین خان کا ڈیبیو میچ تھا۔ سعید انور پہلی اننگز میں کرٹلی امبروز جبکہ دوسری اننگز میں ایان بشپ کا شکار ہوئے۔ میچ میں ان کا مجموعہ صفر رہا اور ٹیسٹ کرکٹ میں دوسرے موقع کے لیے انھیں اگلے تین سال انتظار کرنا پڑا۔
پہلے دن کے مختصر کردہ کھیل میں پاکستانی بیٹنگ خاطر خواہ مجموعے سے بہت پیچھے ہانپ گئی۔ سلیم ملک نے بھر پور مزاحمت کی اور جارحانہ اننگز کھیلتے ہوئے شاندار سٹرائیک ریٹ سے 113 گیندوں پر 74 رنز بنائے جن کا بیشتر حصہ باؤنڈریز پہ مشتمل تھا۔
’وقار یونس کی ریورس سوئنگ‘Getty Images
پاکستان کے جواب میں دوسرے روز ویسٹ انڈیز کا آغاز پر اعتماد رہا اورلنچ تک رچی رچرڈسن چھائے رہے۔ مگر دوسرے سیشن کی سہ پہری خنک ہواؤں میں وقار یونس کی برق رفتار ریورس سوئنگ جان کو آئی تو تجربہ کار کریبئین بیٹنگ دھڑام سے منہ کے بل گر گئی۔
ویسٹ انڈین برتری کو محدود کرتے ہوئے پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے وقار یونس نے یہاں انفرادی پچاس ٹیسٹ وکٹوں کا سنگ میل بھی حاصل کیا۔ یہ ان کے کریئر کا دسواں ٹیسٹ میچ تھا اور یہ پاکستان کی جانب سے تیز ترین پچاس ٹیسٹ وکٹوں کا نیا ریکارڈ تھا۔
ان کا یہ ریکارڈ اگلے 25 برس تک قائم رہا اور بالآخر 2015 میں یاسر شاہ نے اپنے کریئر کے نویں ٹیسٹ میچ میں پچاس وکٹوں کا سنگِ میل عبور کر کے ان کا دیرینہ ریکارڈ توڑا۔
’میلکم مارشل کی صرف 13 گیندیں‘Getty Images
دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹنگ پہلی اننگز سے بہتر نکلی اور چار وکٹوں کے نقصان پر 145 کے سکور پہ وہ ایک ایسے مجموعے کی توقع کر سکتے تھے جو چوتھی اننگز میں کریبئین اعصاب پہ بوجھ ڈال پاتا۔
مگر پھر 'مکمل ترین' پیسر کہلانے والے جینیئس میلکم مارشل کا ایک ایسا سپیل پاکستان کے راستے میں آ گیا کہ اس کے پنجے اکھاڑ پھینکے اور میچ میں واپسی کی کوئی راہ ہی نہ چھوڑی۔
پراعتماد سکور کارڈ کے ساتھ آگے بڑھتی پاکستانی بیٹنگ کا راستہ روکنے کو مارشل کی صرف 13 ہی گیندیں کافی ثابت ہوئیں اور مارشل نے چار پاکستانی وکٹیں لے کر 145/4 کے سکور کارڈ کو پلک جھپکتے میں 146/9 کر دیا۔
اگرچہ سرد موسم میں کھیل کے لیے دستیاب مختصر اوقات بھی ایک سرے پر اوس کے سبب تو دوسرے سرے پر خراب روشنی سے متاثر ہوتے رہے لیکن پھر بھی یہ میچ تین ہی روز میں سمٹ گیا اور ویسٹ انڈیز نے سات وکٹوں سے فتح حاصل کر لی۔
’35 برس کی پیاس‘
ہفتہ بھر پہلے جب ویسٹ انڈین ٹیسٹ ٹیم کے کوچ آندرے کولے ماضی کو بھلا کر مستقبل کی سمت دیکھنے کی بات کر رہے تھے تو ان کے پیشِ نظر یہ افسوسناک حقیقت بھی تھی کہ آج 1990 کی اس ویسٹ انڈین فتح کو 35 برس ہونے کو ہیں مگر تب سے اب تک وہ پاکستانی سرزمین پہ کوئی ٹیسٹ میچ جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔
جیسے جیسے نوے کی دہائی میں مائٹی ویسٹ انڈیز کا دنیائے کرکٹ پہ راج کمزور پڑنے لگا، ویسے ویسے ہی کرکٹ بورڈز کی ترجیحات بھی نئے تقاضوں میں ڈھلنے لگیں اور دو طرفہ کرکٹ کیلنڈرز ایسے ہڑبڑائے کہ ان 35 برسوں میں ویسٹ انڈیز نے پاکستانی سرزمین پر صرف سات ہی ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں اور ان سب میں اسے شکست ہی ہوئی ہے۔
35 برسوں پر محیط یہ ناخواستہ ریکارڈ اپنی اصل میں ایسا بھی بدنما نہیں کہ ویسٹ انڈین کرکٹ بارے کسی رائے کی بنیاد ہی بن سکے اور کریگ بریتھویٹ کی قیادت میں پاکستانی سرزمین پر فتح کھوجنے آئی یہ ویسٹ انڈین ٹیم بھی ایسے باہنر کھلاڑیوں پہ مشتمل ہے جو اپنے اپنے دن پر میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ کریبیئن کرکٹ کی 35 سالہ تشنگی ختم بھی کر سکتے ہیں اگر اپنے کوچ کی بات پلے باندھ لیں اور کل ملتان میں وہ واقعی ماضی کو پیچھے چھوڑ کر صرف آگے کی طرف دیکھ سکیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں ’ٹو ٹیئر‘ منصوبہ ’لالچ‘ یا کھیل کی بقا کا واحد راستہ؟سعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جو عمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھےمحمد آصف: وہ ’جادوگر‘ بولر جس کی انگلیوں نے عظیم ترین بلے باز نچا ڈالےدنیا کا ’تیز ترین‘ پاکستانی بولر جو صرف پانچ ٹیسٹ میچ ہی کھیل پایااحمد آباد کا تاریخی ٹیسٹ میچ: جب عمران خان نے انڈین شائقین کے پتھراؤ پر فیلڈرز کو ہیلمٹ پہنا دیےپاکستان برق رفتار پاکستانی فاسٹ بولرز کے لیے کیوں مشہور ہے اور یہ ٹیلنٹ کہاں سے آتا ہے؟