زہری پر ’مسلح گروہ کا قبضہ‘ اور جبری گمشدگیوں کا الزام: بلوچستان کے قصبے میں 8 جنوری کے دن کیا ہوا تھا؟

بی بی سی اردو  |  Jan 14, 2025

Getty Imagesفائل فوٹو

' ہمارے خاندان کے پانچ افراد کو اٹھا لیا گیا اور ہمیں بتایا نہیں جا رہا کہ وہ کہاں ہیں۔'

بلوچستان کے علاقے زہری سے تعلق رکھنے والے عبدالحمید کا الزام ہے کہ سنیچر کی رات ان کے پانچ کزنز ان 14 افراد میں شامل تھے جن کو سکیورٹی فورسز نے ایک مسلح گروہ کی جانب سے بلوچستان کے دورافتادہ قصبے پر ’حملے‘ کے تین دن بعد حراست میں لیا۔

عبدالحمید سمیت زہری ٹاؤن کے متعدد افراد نے جبری گمشدگی کا الزام لگاتے ہوئے سوراب شہر کے قریب مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے رکھا تھا۔ تاہم بعد میں ’مبینہ جبری گمشدگی‘ کا شکار ہونے والے پانچ افراد کی واپسی اور حکام کی یقین دہانی کے بعد یہ احتجاج ختم کر دیا گیا۔

لیکن خضدار شہر سے 120کلومیٹر دور زہری ٹاؤن میں آٹھ جنوری کے دن ہوا کیا تھا جس کے بعد بلوچستان حکومت نے لیویز فورس کے 15 اہلکاروں کو معطل کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم بھی دیا؟ بی بی سی نے مقامی افراد سمیت حکام سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

یاد رہے کہ 8 جنوری کو مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد زہری شہر میں داخل ہوئی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس واقعے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

BBC8 جنوری کو زہری میں کیا ہوا تھا؟

بدھ کا روز تھا اور دن کے تقریباً 12 بجے تھے جب چہرے پر نقاب اوڑھے مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد بلوچستان کے شہر زہری ٹاؤن میں داخل ہوئی۔

’مسلح افراد کے پاس دو گاڑیاں تھیں جن پر ایک مخصوص پرچم لگا تھا۔۔۔ جبکہ ان میں سے زیادہ تر موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔۔ بعض مسلح افراد نے اس پرچم کو اپنے جسم پر بھی لپیٹا ہوا تھا۔‘

جس وقت مسلح افراد شہر میں داخل ہوئے اس وقت وہاں کے بازار میں موجود ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو یہ تفصیلات بیان کی ہیں۔

شہر میں آنے کے بعد ان میں سے بعض مسلح افراد پہلے ایک نجی بینک میں داخل ہوئے جبکہ ان کی بڑی تعداد لیویز فورس کے تھانے پہنچی۔

انھوں نے بتایا کہ ’تھانے سے دو دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں جس سے مقامی لوگ خوفزدہ ہو گئے۔‘ عینی شاہد کے مطابق اس دوران مسلح افراد نے لیویزفورس کے تھانے کے ساتھ ساتھ نادرا کے دفتر کو بھی نذرآتش کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بعض مسلح افراد نے زہری ٹائون کی رابطہ سڑکوں پر ناکے بھی لگائے تھے۔ مسلح افراد ٹاؤن میں اندازاً شام 5 بجے تک موجود رہے اور جب وہ شہر سے نکلے تو اپنے ساتھ تھانے سے لیویز فورس کی دو گاڑیوں کو بھی لے گئے۔‘

عینی شاہد نے بتایا کہ مسلح افراد کی اچانک بڑی تعداد میں داخل ہونے پر ٹاؤن میں لوگ خوفزدہ ضرور ہوئے لیکن ’انھوں نے کسی کو کچھ نہیں کہا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زہری ایک دشوار گزار علاقہ ہے لیکن یہاں اس سے پہلے بدامنی کا کوئی سنگین واقعہ پیش نہیں آیا اسی لیے یہاں سکیورٹی فورسز کی بہت بڑی تعداد موجود نہیں رہی۔

یاد رہے کہ زہری بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل ہے اور زہری شہر تحصیل کا ہیڈکوارٹر ہے۔ زہری خضدار شہر سے 120کلومیٹر جبکہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مشرق میں اندازاً 290 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی؟بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو انضمام کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟شاری بلوچ کے اہلخانہ کو اب بھی لگتا ہے ’جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے‘گوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟

زہری ٹاِؤن میں ان مسلح افراد کی آمد کے حوالے سے بعض ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں۔

ایک ویڈیو میں مسلح شخص جس کے ہاتھ میں وائرلیس سیٹ ہے ایک مسجد میں نظر آ رہا ہے اور لوگوں سے براہوی زبان میں خطاب کررہا ہے۔

بعض دیگر ویڈیوز میں لوگ شہر کے مختلف حصوں میں لوگوں سے گفتگو بھی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تاہم بی بی سی ان ویڈیوز کی آزادانہ تصدیق نہیں کر پایا۔

اس واقعے کے بعد کمشنمر قلات ڈویژن نعیم بازئی نے بتایا کہ ’حملہ آوروں نے لیویز فورس کے تھانے، نادرا کے دفتر اور بینک کو نقصان پہنچایا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ ’مسلح افراد کی تعداد 70 سے 80 کے قریب تھی۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زہری ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے جہاں اس نوعیت کے کسی حملے کی اطلاع یا خدشہ پہلے سے نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’حملہ آوروں کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد سکیورٹی فورسز جن میں ایف سی، لیویز فورس اور پولیس شامل تھی، نے کارروائی کر کے علاقے کو کلیئر کر دیا۔‘

لیویز فورس کے خلاف کارروائی اور تحقیقاتGetty Imagesفائل فوٹو

سرکاری حکام کے مطابق مسلح افراد لیویز فورس کی دو گاڑیوں کے علاوہ وہاں سے اسلحہ اور سرکاری موٹر سائیکل بھی لے گئے تھے۔

ضلعی انتظامیہ نے اس واقعے کے حوالے سے لیویز فورس کے 15 اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی نے بتایا کہ ’لیویز فورس کے اہلکار فرائض میں غفلت برتنے کے مرتکب پائے گئے جس پر ان کو ملازمت سے برطرف کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کہ ’زہری میں لیویز فورس کے اہلکاروں کے علاوہ بلوچستان کانسٹیبلری کی ایک پلاٹون تعینات تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکاروں کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی یا نہیں وہ اس بارے میں نہیں بتا سکتے کیونکہ وہ بلوچستان پولیس کے ماتحت ہے۔‘

حکومت بلوچستان نے زہری واقعہ کے حوالے سے شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔

محکمہ داخلہ بلوچستان کے ایک اعلامیہ کے مطابق اس واقعہ کے ذمہ دار عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

محکمہ داخلہ نے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ’پورے صوبے میں ریاست کی رٹ قائم ہے اور کسی بھی قسم کی کوتاہی یا غیر ذمہ داری کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

حکومت بلوچستان کے ترجمان کے مطابق زہری واقعہ پر مقامی انتظامیہ کی جانب سے فوری ردعمل نہ دینے کا نوٹس لیتے ہوئے، محکمہ داخلہ نے سول انتظامیہ کو متحرک کرنے اور کوتاہیوں کے تدارک کے احکامات جاری کیے ہیں ۔

ترجمان نے مزید کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتحال کی مکمل نگرانی کر رہے ہیں اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پورے صوبے میں اقدامات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔

ترجمان کے مطابق ’حکومت تمام اضلاع میں سول انتظامیہ کی کارکردگی کو مزید بہتر کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب کیا جا سکے۔‘

BBC’ہمارے خاندان کے پانچ افراد کو اٹھایا گیا‘

عبدالحمید کے خاندان کے لوگ بھی زہری سے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف سوراب میں دیے جانے والے دھرنے میں شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنیچر کی شب زہری سے ان کے پانچ کزنز کو اٹھا لیا گیا جن میں فیاض احمد، بلال احمد، شیر احمد، زبیر احمد اور محمد عمران شامل ہیں لیکن ان کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

تاہم ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی کا کہنا تھا کہ ضلعی انتطامیہ نے زہری سے کسی کو حراست میں نہیں لیا۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بھی کہا کہ بلوچستان پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔

عبدالحمید نے دعویٰ کیا کہ 8 جنوری کے بعد زہری شہر سے 13 افراد جبکہ اس کے ایک نواحی علاقے سے ایک شخص کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تاہم احتجاج کے بعد پانچ افراد کی واپسی اور سرکاری حکام کی جانب سے دیگر کے حوالے سے یقین دہانے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔

خواتین اور بچوں سمیت ایک بڑی تعداد میں مقامی افراد نے پہلے زہری سے 50 کلومیٹر دور کوئٹہ کراچی ہائی وے پر موجود زہری کراس پر دھرنا دیا جبکہ اس کے بعد دھرنے کو سوراب شہر سے 10 کلومیٹر دور سوراب کراس پر منتقل کر دیا گیا تھا جس کے باعث نہ صرف کوئٹہ کراچی بلکہ سی پیک شاہراہ پر گوادر سمیت مکران اور رخشاں ڈویژن سے آنے والی ٹریفک معطل ہوگئی تھی۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ شاہراہوں پرٹریفک کو رواں دواں رکھنا مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جس کے لیے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو پالیسی دے دی گئی ہے۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو انضمام کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟گوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟شاری کی مجید بریگیڈ میں شمولیت اور فدائی مشن کے بارے میں جانتا تھا: ہیبتان بلوچبلوچ لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی؟شاری بلوچ کے اہلخانہ کو اب بھی لگتا ہے ’جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More