Getty Images
مصالحتی عمل بھلے میاں بیوی میں ہو، سیاستدانوں کے مابینیا ریاستوں کے درمیان، کامیاب تب ہی ہوتا ہے جب ایک فریق درپیش حالات و واقعات سے تھک جائے یا دونوں فریق شل ہو جائیں اور ضروری لچک دکھاتے ہوئے بحرانی گرداب سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ ناکام ہونے لگیں تو کوئی غیر جانبدار ثالث بیچ میں ڈال لیں اور ڈیڈلاک توڑنے میں کامیاب ہو جائیں۔
ان منطقیات و اصولیات کی روشنی میں اگر شہباز سرکار اورپی ٹی آئی کی ’مصالحتی بات چیت‘کے بسورے عمل کو دیکھا جائے تو بقول میرے دوست عبداللہ پنواڑی صرف ’ٹائم پاسی‘ ہو رہی ہے، حجت تمام ہو رہی تاکہ کہنے کو بات رہ جائے کہ ہم نے تو پوری کوشش کی، اگلا ہی بددماغ اور ہٹ دھرم ہے تو ہم کیا کریں۔
پی ٹی آئی کو بھی اچھے سے معلوم ہے کہ عمران خان سمیت جتنے بھی ’سیاسی قیدی‘ ہیں، انھیں کسی گروہ نے اغوا نہیں کیا کہ بات چیت کے نتیجے میں کل شام تک رہا ہو جائیں گے بلکہ ان سب کو سول و فوجی قوانین کے تیزابی آمیزے میں بھگو کے اندر رکھا جا رہا ہے۔
ان میں سے جو بھی رہا ہو گا وہ تب ہو گا جب کسی ’عدالتی طریقِ کار‘ کی قینچی سے مقدمات کی رسیاں کاٹی جائیں گی جیسا کہ شریف برادران اور زرداریوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ فروری 2024 کے الیکشن سے پہلے یا بعد میں ہوا۔
پی ٹی آئی کو یہ بھی معلوم ہے کہآٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے ازسرِ نو جائزے یا نئے شفاف انتخابات کا مطالبہ بھی کوئی نہیں مانے گا۔ ماننے کا مطلب اب تک کے کیے کرائے پر پانی پھیرنا ہو گا۔
جو حکومت بالکل ویسے ہی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کے چل رہی ہو جس طرح عمران خان کی سابق حکومت چل رہی تھی، ایسی حکومت کیسے قبل از وقت انتخابات یا نقص زدہ انتخابات کی مرمت پر راضی ہو کر اپنے سیاسی و اقتداری بلیک وارنٹ پر دستخط کر سکتی ہے۔
جب فریقین کے ذہن ’یا ہم،یا تم‘ کی بنیاد پر کام کر رہے ہوں وہاں ذرا سی بھی لچک دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات: ’عمران خان کی رہائی آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے پہلا نہیں‘پی ٹی آئی اور حکومتی مذاکرات: مسلم لیگ ن کو اس عمل پر خدشات کیوں اور عمران خان دو مطالبوں سے پیچھے کیوں ہٹے؟نو مئی کے مقدمات میں رہائی پانے والوں کا وزیر اعلی ہاؤس میں ’ہیروز ویلکم‘: ’بعض جنگجو نہیں چاہتے کہ صلح صفائی کا ماحول پیدا ہو‘’گھر میں سوتے ہوئے بھی ایسا لگتا تھا کہ جیل میں ہوں‘: نو مئی واقعات پر فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے اور ان کے اہلخانہ کیا سوچتے ہیں؟
چنانچہ مذاکرات کے نام پر سب کا زور وقت گزاری پر ہے ورنہ تو جو مطالبات پی ٹی آئی ہر دھرنے، ہر ٹویٹ اور ہر پریس کانفرنس میں دھراتی ہے انھیں تحریری صورت میں دوسرے فریق کو دینا اتنا بڑا ایشو نہ بن جاتا کہ ہمیں اس کے لیے خان صاحب سے اجازت لینا ہو گی، اجازت کے لیے جیل میں ملاقات کرنا ہو گی، ملاقات ایسے ماحول میں ہو جو جاسوسیآلات سے پاک ہو۔
(جاسوسی آلات کی موجودگی میں ہی قیدی ذوالفقار علی بھٹو پینسل اور کاغذ کی مدد سے ملاقاتی بیٹی سے بات کرتے تھے اور پھر یہ کاغذ پھاڑ دیتے تھے)۔
اگر پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم پر عمران خان تک بلا رکاوٹ مسلسل رسائی کا احسان کر بھی دیا جائے تو بھی کون سا بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، علیمہ خان یا گنڈا پور نے عمران خان کو جیل تڑوا کے فرار کروا لینا ہے۔
یہ ضروری تو نہیں کہ حکومت ہر قدم پر یہ ثابت کرنے کا ادنی ترین موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دے کہ دیکھو دیکھو ہم کتنے بااختیار ہیں، ہم کوئی ’فارمی‘ سرکار نہیں۔
(ہماری نانی ایسے مواقع پر کہتی تھیں ’اوچھے کے ہاتھ میں تیتر، باہر رکھوں کہ بھیتر‘) ۔
شاید یہ ’اختیار پنا‘ ثابت کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ جس طرح عمران خان کو سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کا طعنہ سن کر غصہ آتا تھا، ایسا ہی غصہ موجودہ وزیرِ اعظم کو اردلی کا طعنہ سن کےآتا تو ہو گا۔
اردلی کو بھی اگر کوئی اوئے اردلی، ابے اردلی کہہ کر پکارے تو منہ لال تو ہوتا ہے، چے جائیکہ آپ کسی وزیرِ اعظم کو سیدھا سیدھا اس کے منہ پر سلیکٹڈ یا اردلی کہہ دیں۔
جس طرح پی ٹی آئی کا مفاد بس اتنا ہے کہ حکومت کو مسلسل پنجوں کے بل کھڑا رکھے تاکہ وہ سکون سے اپنے سیاسی، معاشی اور سٹریٹیجک ایجنڈے پر کام نہ کر سکے۔
اسی طرح موجودہ حکومت بس یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح اپنی مدت پوری کر لے، بھلے اس کے لیے آئین و قوانین میں کتنا ہی ردوبدل کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسے امید ہے کہ تب تک معیشت و امن و امان کے محاذ پر کوئی ایسا تیر مار لے کہ پی ٹی آئی کے منڈیر پر بیٹھے نیم دل ووٹروں کا دل نرم ہو جائے۔
عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مفاد بس اتنا ہے کہسیاسی و معاشی عدم استحکام بھلے رہے مگر ایک دائرے سے باہر نہ نکلے تاکہ کلیدی سیاسی و معاشی معاملات اور اداروں پر آہنی گرفت ڈھیلی نہ ہونی پائے بلکہ شکنجہ تھوڑا اور کس جائے تو کیا کہنے۔
کیونکہ بزعمِ خود اب بس وہی ہیں جو پاکستان کے وفاقی استحکام کی ضمانت ہیں۔ باقیوں کو جز وقتی ملازمت و مراعات کی گاجر دے کر ان پر سواری تو گانٹھی جا سکتی ہے مگر کاروبارِ ریاست بخوبی نبھانے کے معاملے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اعتمادکا مطلب اختیارات کی رکابی میں حصہ داری ہے اور حصہ داری بھلا کسے پسند ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو امید ہے کہ جس طرح پچھلے ستتر برس میں پاپولر جماعتوں اور لیڈروں کو راستے سے ہٹانے یا تھکا تھکا کے مارنے کی پالیسی کامیاب رہی اس بار بھی اس پالیسی کو آگے بڑھانے میں بظاہر کوئی بقائی رکاوٹ نہیں۔ سب لائن میں ہیں سوائے ایک منہ زور گھوڑے کے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ہارس ٹرینر(سائیس)کا چابک پہلے تھکتا ہے یا گھوڑے کا زور ٹوٹتا ہے۔ سائیس اور گھوڑے کےمذاکرات تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب اسپِ تازی دیگر گھوڑوں کی طرح سدھنے پر آمادہ ہو جائے۔
پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ مگر ’عمران خان کو مطمئن کرنا مشکل ہوگا‘پی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج اور مذاکرات کی گونج: ’یہ مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے، ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے‘نو مئی کے مقدمات میں رہائی پانے والوں کا وزیر اعلی ہاؤس میں ’ہیروز ویلکم‘: ’بعض جنگجو نہیں چاہتے کہ صلح صفائی کا ماحول پیدا ہو‘نو مئی کا احتجاج: عسکری تنصیبات پر حملوں کے جرم میں عمران خان کے بھانجے سمیت مزید 60 مجرمان کو فوجی عدالتوں سے قید کی سزائیںنو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانیعمران خان اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے سول نافرمانی اور بائیکاٹ تحریک سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟