بنگالی زبان کے ناول نگار سرت چندر چٹوپادھیائے کے ایک ناول 'دیوداس' کو جتنی پذیرائی حاصل ہوئی اور جتنی فلمیں اس پر بنائی گئیں شاید کسی انڈین فکشن نگار کو یہ خوش نصیبی نہ مل سکی۔ان کے ناول پرینیتا کے علاوہ دتتا اور کئی ديگر ناول اور ناولٹ پر فلمیں بنائی گئیں لیکن دیوداس پر مختلف زبانوں میں اب تک کم از کم دو درجن فلمیں بنائی جا چکی ہیں جبکہ اس پر پانچ مخصوص گیت بھی لکھے گئے ہیں۔آج ہم سرت چندر کی نہیں بلکہ 1955 میں آنے والی دلیپ کمار کی اداکاری والی فلم دیوداس کی بات کر رہے ہیں جس نے سرت چند کے ناول کو گھر گھر تک پہنچایا اور بمل رائے نے ایک ایسی فلم دی جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ فلم آج سے تقریبا 70 سال قبل آج کے ہی دن یعنی 30 دسمبر 1955 کو ریلیز ہوئی تھی۔دیوداس ناول سنہ 1917 میں منظر عام پر آیا جس پر 1928 میں ایک خاموش فلم بنائی گئی۔ پھر پی سی بروا نے 1935 میں اسی نام سے بنگالی زبان میں فلم بنائی۔ پھر اگلے سال انھوں نے اپنے زمانے کے سب سے بڑے سٹار کے ایل سہگل کے ساتھ اسے ہندی زبان میں بنایا۔ اس کے اگلے سال انہوں نے آسامی زبان میں اس فلم کو پیش کیا۔ہندوستان کی آزادی کے بعد 1953 میں اسے تمل اور تیلگو زبان میں ناظرین کے سامنے پیش کیا گيا۔ لیکن پھر بمل رائے نے اس فلم کو اپنے انداز میں دلیپ کمار، سوچترا سین اور ویجنتی مالا کی اداکاری کے ساتھ پیش کیا۔دیوداس کی مقبولیت اتنی ہوئی کہ اسے خواجہ سرفراز نے حبیب تالش، شمیم آرا اور نیرہ سلطان کے ساتھ پاکستانی ناظرین کے لیے اردو میں پیش کیا۔کہا جاتا ہے کہ اس کہانی کے پلاٹ کو امیتابھ کی فلم ’مقدر کا سکندر‘ میں بھی استعمال کیا گيا ہے اور پھر شاہ رخ خان کی اداکاری والی دیوداس سامنے آئی جسے سنجے لیلا بھنسالی نے اپنے میگا انداز میں پیش کیا جبکہ انوراگ کیشیپ نے ’دیوڈی‘ کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں دیوداس کا نیا روپ دیکھنے میں آیا۔یہ تین لازوال کرداروں پر مبنی کہانی ہے جس میں دیوداس نامی نوجوان بچپن سے پارو کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اسے اس محبت کا احساس اسے کھونے کے بعد ہوتا ہے جبکہ اس کی زندگی میں ایک طوائف چندر مکھی آتی ہے۔فلم کے یہ کردار اتنے زندہ نظر آتے ہیں کہ عام طور پر ان کا نام وہی رہنے دیا گيا ہے۔ دلیپ کمار نے دیوداس کا جو کردار ادا کیا اسے تمام فلم کریٹک نے اب تک کی بہترین اداکاری کہا ہے جبکہ سوچترا سین نے پارو کے کردار میں اور ویجنتی مالا نے چندرمکھی کے کردار میں سب کو بہت متاثر کیا ہے۔دیوداس انڈیا ٹائمز کی ضرور دیکھنے والی 25 انڈین فلموں کی فہرست میں شامل ہے جبکہ فوربز نے اس فلم میں دلیپ کمار کی اداکاری کو انڈین سینما کی 25 بہترین اداکاری میں شامل کیا ہے۔دیوداس کے کردار میں دلیپ کمار اس قدر جذب ہو گئے تھے کہ انھیں اس کے لیے ماہر نفسیات سے مشورہ لینا پڑا (فوٹو: آئی ایم بی ڈی)کہا جاتا ہے کہ اس فلم نے دلیپ کمار کے ’ٹریجڈی کنگ‘ کے خطاب کو مستحکم کر دیا۔ اس سال دلیپ کمار کی چار فلمیں اڑن کھٹولہ، آزاد اور انسانیت بھی آئی تھیں۔ اگرچہ دیوداس نے ابتدا میں اچھا بزنس نہیں کیا لیکن بعد کے آنے والے دنوں میں یہ ہمیشہ سینما کے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرتی رہی۔اس فلم میں پارو کے رول کے لیے تو سب تیار تھے لیکن چندرمکھی یعنی طوائف کا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔دیوداس کے کردار کے لیے بمل رائے کی پہلی پسند دلیپ کمار تھے اور انہوں نے ان کی پیشکش کو بخوشی قبول کر لیا۔ لیکن بمل رائے مینا کماری کو پارو اور نرگس کو چندر مکھی کے طور پر اپنی فلم میں لینا چاہتے تھے، لیکن مینا کماری کے شوہر کمال امروہی بیچ میں آ گئے اور وہ یہ کردار اس لیے ادا نہیں کر سکیں کیونکہ کمال امروہی نے کچھ ایسی شرائط رکھی تھیں جن پر بمل رائے راضی نہ ہو سکے۔دوسری جانب نرگس نے چندر مکھی کے کردار کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ پارو کا کردار ادا کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن اس وقت تک پارو کا کردار بنگالی کی سرکردہ اداکارہ سوچترا سین کو دیا جا چکا تھا۔پھر بمل رائے نے چندر مکھی کے کردار کے لیے بینا رائے اور ثریا سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے وہ کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر، ویجینتی مالا سے رابطہ کیا گیا اور وہ چندر مکھی کا کردار ادا کرنے کے لیے راضی ہوگئیں اور انہوں نے اس کردار کو لازوال بنا دیا۔یہ دلیپ کمار کے ساتھ ویجنتی مالا کی پہلی فلم تھی اور اس کے بعد ان دونوں نے سات ہٹ فلمیں دیں۔ جن میں نیا دور، مدھومتی، گنگا جمنا، پیغام، لیڈر اور سنگھرش شامل تھیں۔ سوچترا سین نے اس کے بعد چند ایک ہندی فلمیں ہی کیں جن میں دیو آنند کے ساتھ بمبئی کا بابو اور سنجیو کمار کے ساتھ آندھی شامل ہیں۔دیوداس کے کردار میں دلیپ کمار اس قدر جذب ہو گئے تھے کہ انھیں اس کے لیے ماہر نفسیات سے مشورہ لینا پڑا۔اس کے بعد شاہ رخ خان کی اداکاری والی دیوداس 2002 میں آئی جس نے ایوارڈز کی جھڑی لگا دی (فوٹو: ایروس)شاہ رخ خان نے ایک انٹرویو میں یہ معلومات شیئر کیں، اور یہ بھی کہا کہ دلیپ کمار نے انہیں بتایا کہ یہ کردار اتنا شدید تھا کہ انہیں ٹھیک ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا۔ جبکہ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو کے کہنے پر دلیپ کمار نے یہ علاج کروایا تھا۔بہر حال یہ فلم انتہائی کامیاب فلم رہی اس کے لیے دلیپ کمار کو بہترین ادکار کا، ویجنتی مالا کو بہترین معاون اداکارہ کا اور موتی لال کو بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ ملا جبکہ اسے تیسری بہترین فلم کا ایوارڈ بھی ملا۔اس کے بعد شاہ رخ خان کی اداکاری والی دیوداس 2002 میں آئی جس نے ایوارڈز کی جھڑی لگا دی اسے 11 فلم فیئر ایوارڈز ملے جبکہ آئیفا میں اسے 16 ایوارڈز ملے اور پانچ نیشنل ایوارڈز ملے، جبکہ اسے آسکر میں بھی انڈیا کی جانب سے بھیجا گیا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ شاہ رخ دلیپ کمار کے آس پاس بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔دیوداس پر اس کے بعد بھی فلمیں بننا جاری ہیں کون جانے اب اسے کون نئی بلندیوں پر لے جائے کیونکہ دیوداس کے آتے رہنے کا سفر جاری ہے۔