انھیں لوگ ’خان صاحب‘ یا ’بادشاہ خان‘ کہتے تھے۔ بہت سے لوگ انھیں ’فرنٹیئر گاندھی‘ یا ’سرحدی گاندھی‘ کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔
قد چھ فٹ چار انچ، سیدھی کمر، مہربان آنکھوں والے اور عدم تشدد کے داعی، یہ خان عبدالغفار خان تھے۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی سے متاثر ہو کر بادشاہ خان نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں عدم تشدد کی تحریک کی قیادت کی۔
پشتون یا پٹھان عموماً عدم تشدد کا راستہ نہیں اپناتے لیکن بادشاہ خان کے ہم نواؤں نے عدم تشدد کا راستہ چنا۔
سنہ 1930 کی دہائی میں انھوں نے سیواگرام میں گاندھی کے ساتھ کافی وقت گزارے۔ وہ بنگالی کے معروف شاعر اور فلسفی رابندر ناتھ ٹیگور سے ملنے کے لیے ان کے ادارے شانتی نکیتن بھی گئے۔
27 سال جیل میں گزارے
انڈیا کے مشہور سفارت کار نٹور سنگھ اپنی کتاب ’واکنگ ود لائنز، ٹیلز فرام ڈپلومیٹک پاسٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کانگریس کے پانچ لوگوں نے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی ان میں مہاتما گاندھی، خان عبدالغفار خان، جے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا اور مولانا ابوالکلام آزاد شامل تھے۔‘
’کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس31 مئی اور 2 جون سنہ 1947 کے درمیان منعقد ہوا اور پاکستان کو منظور کرنے کا ایک اہم فیصلہ لیا گیا تو سرحدی گاندھی نے محسوس کیا کہ انھیں دھوکہ دیا گیا ہے۔‘
برطانوی حکومت نے نہ صرف انھیں کئی سال جیل میں رکھا بلکہ آزادی کے بعد حکومت پاکستان نے بھی انھیں جیل میں رکھنے میں دریغ نہیں کیا۔
نیلسن منڈیلا کی طرح بادشاہ خان یعنی خان عبدالغفار خان نے بھی اپنی زندگی کے 27 سال جیل میں گزارے۔ دسمبر سنہ1921 میں بادشاہ خان کو پشاور جیل میں رکھا گیا۔ اپنے لمبے قد کی وجہ سے انھیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
بادشاہ خان اپنی سوانح عمری ’مائی لائف اینڈ سٹرگل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب میں جیل کے کپڑے پہنتا تھا تو پاجامہ صرف میری پنڈلیوں تک پہنچتا تھا اور قمیض میری ناف تک بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔‘
’جب میں نماز پڑھنے بیٹھتا تھا تو میرا پاجامہ اکثر پھٹ جاتا تھا۔ میری کوٹھڑی شمال کی جانب تھی اس لیے سورج کی روشنی کبھی وہاں نہیں پہنچتی، ہر تین گھنٹے کے بعد پہریدار بدلتے تھے اور جب بھی ایسا ہوتا تھا وہاں بہت شور ہوتا تھا۔‘
Getty Imagesمصنف اور سفارتکار نٹور سنگھقصہ خوانی بازار
جب گاندھی نے سنہ 1930 میں نمک کا قانون توڑنے کا بیڑا اٹھایا تو اس کا بڑا اثر سرحدی صوبے میں بھی نظر آیا۔ 23 اپریل سنہ 1930 کو برطانوی حکومت نے خان عبدالغفار خان اور ان کے کچھ ساتھیوں کو پشاور جاتے ہوئے گرفتار کر لیا۔
یہ خبر سنتے ہی ہزاروں لوگوں نے چارسدہ جیل کا گھیراؤ کر لیا جہاں ان کو رکھا گیا تھا۔ پورا شہر سڑکوں پر آگیا۔
گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی بادشاہ خان کی سوانح عمری ’غفار خان، نان وائلنٹ بادشاہ آف دی پختون‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس دن پشاور کے قصہ خوانی بازار اور سرحدی صوبے میں تقریباً 250 پٹھان برطانوی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔‘
’عام طور پر گرم خون والے پٹھانوں نے کوئی جوابی پرتشدد کارروائی نہیں کی یہاں تک کہ فوج کی گڑھوال رائفلز کے سپاہیوں نے بھی پٹھانوں کے غیر مسلح ہجوم پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔‘
آزادی کے بعد 10 ماہ کے اندر پاکستانی جیل میں
23 فروری 1948 کو بادشاہ خان نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اور نئے ملک اور اس کے پرچم سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔
پاکستان کے بانی اور قانون ساز اسمبلی کے سربراہ محمد علی جناح نے انھیں چائے پر مدعو کیا۔ اس موقع پر انھوں نے غفار خان کو گلے لگاتے ہوئے کہا ’آج مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرا پاکستان بنانے کا خواب پورا ہو گیا ہے۔‘
5 مارچ سنہ 1948 کو خان عبدالغفار خان نے پہلی بار پاکستان کی پارلیمنٹ میں تقریر کی۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ ’میں نے برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کی مخالفت کی تھی۔‘ انھوں نے ارکان پارلیمنٹ کی توجہ تقسیم کے دوران ہونے والے قتل عام کی طرف مبذول کرائی لیکن یہ بھی کہا کہ ’اب جب کہ تقسیم ہو ہی چکی ہے تو اب اس کے بعد لڑائی کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
بابڑہ ’قتل عام‘: چارسدہ کی تاریخ کا سب سے تاریک بابقصہ خوانی: خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعدچمالانگ کی لڑائی: جب بلوچ باغیوں کے خلاف امریکی گن شپ استعمال ہوئےکرم میں قیام امن اور اسلحے کی حوالگی کا مجوزہ معاہدہ کیا ہے اور اس میں تاخیر کیوں؟
بادشاہ خان اور پاکستانی حکومت کے درمیان مفاہمت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ برطانوی حکومت کے جانے کے دس ماہ کے اندر بادشاہ خان کو غداری کے الزام میں تین سال کے لیے مغربی پنجاب کی منٹگمری جیل بھیج دیا گیا۔
اپریل سنہ 1961 میں پاکستان کے فوجی حکمران ایوب خان نے انھیں دوبارہ گرفتار کر کے سندھ کی ایک جیل بھیج دیا۔
سنہ1961 تک بادشاہ خان ’غدار‘، ’افغان ایجنٹ‘ اور حکومت پاکستان کے لیے ’خطرناک شخص‘ بن چکے تھے۔ بادشاہ خان کے لیے حالات اس حد تک خراب ہو چُکے تھے کہ انھوں نے پاکستان چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لی۔
Getty Imagesکابل میں اندرا گاندھی نے سرحدی گاندھی سے ملاقات کیکابل میں اندرا گاندھی سے ملاقات
سنہ 1969 میں جب انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے افغانستان کا دورہ کیا تو انڈین سفیر اشوک مہتا نے بادشاہ خان کو اندرا گاندھی کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں مدعو کیا۔
نٹور سنگھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی نے 22 سال بعد عبدالغفار خان سے ملاقات کی۔ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اور بہو سونیا کا ان سے تعارف کرایا۔ سرحدی گاندھی نے راجیو گاندھی کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ جب وہ دو سال کا تھے تو انھوں نے راجیو کو اپنی گود میں کھلایا تھا۔‘
نٹور سنگھ لکھتے ہیں کہ ’اگلے دن میں بادشاہ خان کے گھر گیا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ فرش پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ میں نے بادشاہ خان سے کہا کہ اندرا گاندھی آپ کی سہولت کے مطابق آپ کے گھر آ کر آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’اندرا گاندھی یہاں نہیں آئیں گی۔ میں خود ان سے ملنے جاؤں گا۔‘
طے پایا کہ وہ اندرا گاندھی سے ملنے اگلے دن چار بجے سٹیٹ ہاؤس پہنچیں گے۔
نٹور سنگھ نے لکھا کہ ’مجھے پورچ پر ان کا استقبال کرنا تھا لیکن مجھے وہاں پہنچنے میں چند سیکنڈ کی تاخیر ہو گئی انھوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا تمہیں وقت پر آنا چاہیے تھا۔‘
’ان کی وقت کی پابندی نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔ اسی ملاقات میں خان عبدالغفار خان نے گاندھی کی صد سالہ تقریبات کے لیے انڈیا آنے پر رضامندی ظاہر کی۔‘
Getty Imagesعبدالغفار خان نے 1948 میں پاکستان سے اپنی حمایت کا اعلان کیاکپڑوں کی گٹھری لے کر انڈیا پہنچے
بادشاہ خان 22 سال بعد انڈیا آرہے تھے۔ وہ اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر انڈیا پہنچے۔ ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی لیکن کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے اس پر توسیع کی مہر ثبت کر دی۔
وزیر اعظم اندرا گاندھی اور جے پرکاش نارائن ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر پہنچے تھے۔
بادشاہ خان کے بھتیجے محمد یونس اپنی سوانح عمری ’پرسنز، پیشنز اینڈ پالیٹکس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب بادشاہ خان اپنے کپڑوں کی گٹھری ہاتھوں میں لیے جہاز سے نیچے آئے تو اندرا گاندھی نے اسے ان کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی لیکن انھوں ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ویسے ہی بہت بڑا بوجھ اٹھا کر چل رہی ہیں مجھے اپنا حصہ اٹھانے دیجیے۔ بادشاہ خان جہاں بھی گئے لوگوں کا بڑا مجمع ان کو سننے کے لیے اکٹھا ہوا۔‘
نٹور سنگھ نے بھی بادشاہ خان کی دہلی آمد کی کچھ دلچسپ تفصیل اپنی تحریر میں درج کیں ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’بادشاہ خان کو ہوائی اڈے سے ایک کھلی گاڑی میں شہر لایا جانا تھا اور وزیر اعظم کو ان کے پاس بیٹھنا تھا۔ جے پرکاش نارائن نے بھی اس کار میں بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اندرا گاندھی نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس میں بیٹھیں۔‘
’جب اندرا کے سکیورٹی آفیسر نے جے پی کو کار میں بیٹھنے سے روکا تو جے پی جو کہ عام طور پر پرسکون رہتے تھے غصے میں آگئے۔ اس خوف سے کہ کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے میں نے سکیورٹی آفیسر سے جے پی کو گاڑی میں بیٹھنے دینے کے لیے کہا۔‘
بادشاہ خان کی شکایت: ’انڈیا گاندھی کو بھول گیا‘
بادشاہ خان کی انڈیا آمد کے ایک یا دو دن بعد ہی ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے۔ بادشاہ خان نے ان فسادات کو روکنے کے لیے تین دن کی بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ یہ سن کر فسادات رک گئے۔ 24 نومبر سنہ 1969 کو انھوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔
پارلیمنٹ میں دو ٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آپ گاندھی کو اسی طرح بھول رہے ہیں جس طرح آپ گوتم بدھ کو بھول گئے تھے۔‘
کچھ دنوں بعد جب وہ اندرا گاندھی سے ملے تو انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ان سے کہا کہ ’تمہارے باپ اور پٹیل نے مجھے اور پختونوں کو بھیڑیوں کے پاس پھینک دیا تھا۔‘
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی کی اس بات کی تعریف کرنی پڑتی ہے کہ انھوں نے بادشاہ خان کی اس بے تکلفی پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور کابل میں تعینات ہر انڈین سفیر کو بادشاہ خان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی ہدایت کی۔‘
افغانستان میں جلاوطنی
ستر کی دہائی کے اوائل میں افغانستان کی حکومت نے انھیں جلال آباد میں رہنے کے لیے ایک مکان دیا۔
بادشاہ خان اس گھر میں پلنگ کے بجائے چارپائی استعمال کرتے تھے۔ وہ اپنی خواب گاہ یعنی اپنے کمرے میں سونے کی بجائے سردیوں میں بھی گھر پہلی منزل پر برآمدے میں سوتے تھے۔
جب مشہور مصنف وید مہتا ان سے ملنے گئے تو انھوں نے شکایتی لہجے میں ان سے کہا کہ ’انڈیا میں گاندھی ازم ختم ہو چکا ہے۔ وہاں گاندھی کو بھلا دیا گیا ہے۔ آپ کی حکومت وہ سب کچھ کر رہی ہے جس کی گاندھی نے مخالفت کی تھی۔‘
Getty Imagesافغانستان میں سوویت فوج کی موجودگی کے مخالف رہےافغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کی مخالفت
بادشاہ خان نے ابتدا میں افغانستان میں سوویت مداخلت کی حمایت کی تھی لیکن جب وہ سنہ 1981 میں علاج کے لیے انڈیا پہنچے تو وہ افغانستان میں سوویت یونین کی موجودگی کے خلاف ہو چکے تھے۔
انھوں نے اندرا گاندھی سے درخواست کی کہ وہ سوویت رہنما لیونیڈ بریزنیف سے ملاقات کا بندوبست کریں۔
انڈیا کے سابق سکیورٹی ایڈوائزر جے این دکشت اپنی کتاب ’این افغان ڈائری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بادشاہ خان بریزنیف سے ملنا چاہتے تھے اور ان سے افغانستان سے سوویت فوجوں کو نکالنے کی درخواست کرنا چاہتے تھے۔‘
’اندرا گاندھی اس سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سوویت ان کی جانب سے آنے والی اس گزارش کو قبول نہیں کریں گے اور ناراض ہوں گے۔ دوسری طرف وہ یہ بھی مانتی تھیں کہ افغانستان میں سوویت یونین کی تھوڑے دنوں کی موجودگی انڈیا کے مفادات کے خلاف نہیں ہے۔‘
لیکن اندرا گاندھی بادشاہ خان کے دباؤ کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہ کر سکیں۔
جے این دکشت لکھتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی نے بادشاہ خان کا پیغام سوویت سفیر ورونتسوف اور سوویت نائب صدر واسیلی کزنیتسوف تک پہنچایا جو انڈیا کے دورے پر تھے اور جب افغانستان کے وزیر خارجہ انڈیا آئے تو انھوں نے ان سے پوچھا کہ وہ سوویت فوج کو ہٹانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟‘
راجیو گاندھی اور ضیاء الحق کی جنازے میں شرکت
سنہ 1987 میں خان عبدالغفار خان ایک بار پھر انڈیا پہنچے جہاں انھیں سب سے بڑا شہری اعزاز ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا۔
بادشاہ خان نے 98 سال کی عمر میں 20 جنوری سنہ 1988 کو صبح 6 بج کر 55 منٹ پر آخری سانس لی۔
ان کی آخری خواہش تھی کہ ان کی تدفین افغانستان کے شہر جلال آباد میں ان کے گھر کے صحن میں کی جائے۔
سرحدی گاندھی کے تقریباً 20 ہزار چاہنے والے ان کے جنازے کے جلوس کے ساتھ پاکستان میں اتمنزئی سے افغانستان میں داخل ہوئے اور بغیر کسی پاکستانی پاسپورٹ یا افغان ویزا کے ڈیورنڈ لائن کو عبور کیا۔
کاروں، ٹرکوں اور بسوں کا ایک لمبا قافلہ ان کے ساتھ تھا۔ جلال آباد کے اس جلوس میں مزید کئی ہزار لوگ شامل ہوئے۔
ان کی آخری رسومات میں پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق اور انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی دونوں موجود تھے۔
قصہ خوانی: خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعدبابڑہ ’قتل عام‘: چارسدہ کی تاریخ کا سب سے تاریک بابچمالانگ کی لڑائی: جب بلوچ باغیوں کے خلاف امریکی گن شپ استعمال ہوئے’میر جعفر، میر صادق‘: پاکستان کے وہ سیاستدان جنھیں غداری کے القابات سے نوازا گیا’مشرقی پاکستان کے سبز کو سرخ کر دیا جائے گا‘ کس نے اور کیوں کہا تھا؟باچا خان: غداری کے فتوے، 39 سال قید اور جلا وطنی