Getty Images
100 سال کی عمر میں وفات پانے والے سابق امریکی صدر جمی کارٹر جب برسراقتدار آئے تو انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام سے کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔
ان سے قبل رچرڈ نکسن واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد مستعفی ہوئے تھے۔ جیورجیا سے تعلق رکھنے والے جمی کارٹر، جو مونگ پھلی کے کاشتکار ہوا کرتے تھے، نے اپنے دور صدارت کے دوران مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک تاریخی امن معاہدہ کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم وہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور دوسری جانب ایران میں امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنائے جانے کے بحران سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار رہے۔ صرف چار سال بعد 1980 میں رونلڈ ریگن نے انھیں شکست سے دوچار کر دیا۔
وائٹ ہاؤس سے بے دخلی کے بعد جمی کارٹر نے امن اور انسانی حقوق کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور انھیں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا۔ اکتوبر 2024 میں جمی کارٹر 100 سال کے ہوئے تو وہ امریکی تاریخ کے سب سے طویل العمر صدر بنے۔
جمی کارٹر نے 1974 میں امریکی صدارتی مہم کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب امریکہ واٹر گیٹ سکینڈل سے گزر رہا تھا۔ کارٹر نے خود کو ایک سادہ کسان کی حیثیت سے پیش کیا جن کی شخصیت پر کوئی دھبہ نہیں تھا۔
’دل میں زنا‘Getty Images
کارٹر کی مہم کے آغاز کے لیے وہ بہترین وقت تھا۔ امریکی عوام کسی ایسی شخصیت کو صدر کے طور پر دیکھنا چاہتی تھی جو سیاسی میدان میں نووارد ہو۔
ایسے میں انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران سب کو حیران کر دیا جب انھوں نے اعتراف کیا کہ ’میں نے اپنے دل میں کئی بار زنا کیا ہے۔‘ یہ انٹرویو انھوں نے پلے بوائے میگیزن کو دیا تھا۔ تاہم ان کی نجی زندگی میں ایسا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔
ابتدا میں سروے کے مطابق صرف چار فیصد ڈیموکریٹ ہی ان کی حمایت کر رہے تھے لیکن نو ماہ کے اندر ہی انھوں نے جیرالڈ فورڈ کو شکست سے دوچار کیا۔
صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی کارٹر نے ہزاروں ایسے نوجوانوں کو معافی دی جو ویتنام جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہتے تھے اور فوجی سروس سے بچنے کے لیے ملک چھوڑ گئے تھے۔ ان کے ایک رپبلکن ناقد سینیٹر بیری گولڈ واٹر نے اس فیصلے کو کسی بھی صدر کا ’سب سے شرمناک کام‘ قرار دیا تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے والے وہ پہلے بین الاقوامی سربراہ تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ وائٹ ہاوس میں جینز اور سویٹر پہنتے تھے اور توانائی کی بچت کے لیے حرارت کا نظام بند کروا دیا کرتے تھے۔
کارٹر نے وائٹ ہاؤس کی چھت پر سولر پینل بھی نصب کروائے جنھیں بعد میں رونلڈ ریگن نے اتروا دیا تھا۔
بھٹو اور پاکستانی جوہری پروگرام کی مخالفت
1976 میں جب امریکہ میں صدارتی انتخاب کی تیاریاں ہو رہی تھیں، پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ پاکستانی جوہری پروگرام کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہا تھا۔ صدارتی دوڑ میں شامل جمی کارٹر بھی جوہری پروگرام کے مخالف تھے۔
Getty Images
27 مارچ 2022 کو بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق سنہ 1976 اور 1977 میں جب بھٹو کی حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک چل رہی تھی تو امریکہ میں جمی کارٹر صدر بن چکے تھے اور ہینری کیسنجر کی جگہ سائرس وینس وزیرِ خارجہ تھے۔ بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ حزبِ اختلاف کی تحریک کو امریکی حمایت حاصل تھی۔
علی جعفر زیدی، جو پاکستان پیپلز پارٹی کے ابتدائی کارکنوں میں سے ایک اور ذوالفقار علی بھٹو کے قریب رہے، کے مطابق ’امریکی صدر جمی کارٹر پی این اے کی تحریک کو انسانی حقوق کی تحریک قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ بھٹو اس تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں۔ اس تحریک کو امریکہ کی مالی مدد حاصل تھی اور اصل میں سارا معاملہ پاکستان کے جوہری پروگرام سے ہی متعلق تھا۔‘
علی جعفر زیدی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بھٹو صاحب بتاتے پھر رہے تھے کہ خدا کے لیے اس تحریک کو سمجھو کہ اس کے پیچھے امریکہ ہے۔ یہ تحریک اس لیے شروع ہوئی ہے کیونکہ میں نیوکلیئر پروگرام کو ختم کرنے سے انکار کر رہا ہوں۔‘
عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ ’ایک طرف امریکہ میں صدر جمی کارٹر کی قیادت میں نئی انتظامیہ کا آنا اور دوسری طرف بھٹو کی مقامی مشکلات میں اضافہ دو ایسے واقعات تھے جو تقریباً ایک ہی وقت میں شروع ہوئے۔‘
ان کے مطابق ’امریکہ کی نئی حکومت جوہری عدم پھیلاؤ کے اصول پر سختی سے عمل کرنا چاہتی تھی اور پاکستان پر اس کے دباؤ کی بڑی وجہ یہی تھی۔ اس دباؤ کی وجہ جنوبی ایشا کے جیو پولیٹیکل حالات نہیں تھے اور نہ ہی یہ وجہ تھی کہ امریکہ انتظامیہ اِن حالات پر بہت گہری نظر رکھتے ہوئے فیصلے کر رہی تھی۔‘
جب امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کی’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہجب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہےجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہے
ایسے میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بی بی سی سی پر شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق، جس میں اس زمانے کے ڈی کلاسیفائیڈ یا افشا کیے گئے امریکی ٹیلی گرامز کا جائزہ لیا گیا، صدر کارٹر کے لیے پانچ جولائی 1977 کی یادداشت میں کہا گیا: ’شہر پُرسکون ہیں۔ مبینہ طور پر کوئی امریکی یا دوسرے غیر ملکی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران نے فوجی قبضہ پر نجی طور پر کچھ حدتک سکھ کا اظہار کیا ہے۔( اس پیراگراف کے اگلے دائیں حاشیہ میں، کارٹر نے لکھا: ’ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا!‘)
سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ اور امریکہ کا یوٹرنGetty Images
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات جمی کارٹر کے دور صدارت کے آغاز سے کشیدہ ہونا شروع ہو گئے۔ جمی کارٹر کی انتظامیہ نے یورینیم کی افزودگی پر پاکستان کے لیے فوجی امداد میں کٹوتی کی اور اسی دوران امریکی فوج کی طرف سے سعودی عرب کے شہر مکہ پر حملے کی افواہ کے بعد کچھ طلبہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو آگ لگا دی جس میں دو امریکی اور ایک پاکستانی ہلاک ہوئے۔
لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ جمی کارٹر اور امریکہ، دونوں نے ہی یو ٹرن لیا۔ یہ معاملہ تھا افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کا۔ تب امریکی امداد بند تھی کیوں کہ پاکستان ایٹمی پابندیوں کی زد میں تھا۔ 24 دسمبر 1979 کا آنا تھا کہ سب کچھ ایکا ایکی بدل گیا۔
دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے صدرجمی کارٹرکی انتظامیہ کو کیسے شتابی سے پاکستان کے لیے فوجی اور معاشی امداد کا پروگرام ترتیب دینا پڑا۔ کارٹر نے پاکستان کو فوجی اور اقتصادی امدادی پیکج کے ساتھ درج ذیل ذیلی اشیا کی بھی منظوری دی: پی ایل 480 امدادمیں 10-20 ملین ڈالر کا اضافہ، فوجی تربیت کے لیے چھ لاکھ ڈالر اور افغان مہاجرین کے لیے 60 لاکھ ڈالر کی اضافی امداد۔
جمی کارٹر کے بعد رونلڈ ریگن انتظامیہ نے بھی پاکستان کی امداد کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیا گیا۔
مشرق وسطی
جمی کارٹر کی مشرق وسطی پالیسی مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کے تاریخی معاہدے سے شروع ہوئی۔
Getty Images
تاہم بعد میں امریکہ کو ایران میں انقلاب کا سامنا کرنا پڑا اور ایران کے سابق حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کی امریکہ سے بے دخلی کا مطالبہ کرنے والے ایرانی مظاہرین نے چار نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول کر عملے کے 66 ارکان سمیت 99 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
چار ماہ بعد مارچ 1980 میں جب اس سفارت خانے کے عملے کی تصاویر جب امریکہ کے ٹی وی چینلوں پر نشر کی گئیں تو ان امریکی شہریوں کے بارے میں ملک میں پہلے سے موجود تشویش میں شدید اضافہ ہو گیا۔ عملے کے ایک رکن کی ماں نے صدر کارٹر سے کہا کہ وہ ایک ماں کی حیثیت سے ایک باپ سے کہتی ہیں کہ ’خدارا کچھ کریں۔‘
اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اس مسئلے کا کوئی سفارتی حل جلد ممکن نہیں ہے۔ ان سفارت کاروں کو وطن واپس لانے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے صدر کارٹر شدید عوامی دباؤ میں تھے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔
آخر کار کسی سفارتی حل کی کوئی امید نہ ہونے کی وجہ سے صدر کارٹر نے 66 امریکی شہریوں کی بازیابی کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ اور خطرناک آپریشن کی اجازت دے دی۔ لیکن یہ مشن ناکام رہا جس میں آٹھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد جمی کارٹر کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بھی ختم ہو گئے اور 1980 میں کارٹر رونلڈ ریگن کے ہاتھوں شکست کھا بیٹھے۔
صدارت کے آخری دن کارٹر نے اعلان کیا کہ ایران میں مغوی سفارت کاروں کی رہائی کے لیے مزاکرات کامیاب ہو چکے ہیں تاہم ایران نے صدر ریگن کی تقریب حلف برداری تک رہائی کا عمل روکے رکھا۔
نوبل انعامGetty Images
2002 میں جمی کارٹر وہ تیسرے امریکی صدر بنے، جنھیں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ ان سے پہلے تھیوڈور روزویلٹ اور وڈرو ولسن بھی امن کا نوبل انعام حاصل کر چکے تھے۔
اپنے خطاب میں کارٹر نے کہا تھا کہ ’سب سے سنجیدہ اور عالمی مسئلہ زمین پر سب سے امیر اور سب سے غریب افراد میں بڑھتے ہوئی خلیج ہے۔‘
کارٹر نے اپنی باقی ماندہ زندگی سادگی سے گزاری۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرا کبھی بھی بہت زیادہ امیر ہونے کا خواب نہیں تھا۔‘
وہ دور جدید کے واحد امریکی صدر تھے جو عہدہ چھوڑنے کے بعد اسی مکان میں منتقل ہوئے جس میں وہ سیاست میں آنے سے قبل رہائش پذیر تھے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ان کے مکان کی قیمت کا تخمینہ ایک لاکھ 67 ہزار ڈالر لگایا گیا تھا یعنی ان کے مکان کے باہر تعینات سیکرٹ سروس اہلکاروں کی گاڑیوں سے بھی کم قیمت۔
2015 میں جمی کارٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ سرطان کا علاج کروا رہے ہیں۔ تاہم وہ سیاسی اعتبار سے پھر متحرک ہوئے اور رواں سال نومبر میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں کوشش کر رہا ہوں کہ کملا ہیرس کو ووٹ دے سکوں۔‘ انھوں نے کملا کو ووٹ دیا بھی لیکن ان کی آبائی ریاست جیورجیا میں بھی ٹرمپ ہی جیتے۔
’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہجب امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کیامریکی صدر کارٹر کے طنزیہ الفاظ 'ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا!'جب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہےتہران میں یرغمال امریکیوں کی بازیابی کا امریکی مشن کیسے ناکام ہواجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہے