پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں نےنو مئی کو تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث مزید 60 ملزمان پر جرم ثابت ہونے کے بعد انھیں دو سے 10 سال تک قید با مشقت کی سزائیں سنا دی ہیں۔
سزا پانے والوں میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی ایڈووکیٹ اور تحریکِ انصاف کے رہنما میاں عباد فاروق کے علاوہ دو سابق فوجی افسران بریگیڈئر (ر) جاوید اکرماورگروپ کیپٹن (ر) وقاص احمد محسن بھی شامل ہیں۔
حسان نیازی کو دس برس، بریگیڈیئر(ر) جاوید اکرم کو چھ برس جبکہ عباد فاروق اور وقاص احمد محسن کو دو، دو برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
جمعرات کو فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ان سزاؤں کے بعد نو مئی 2023 کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے شہریوں کی تعداد 85 ہو گئی ہے اور آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ فوجی حراست میں لیے جانے والے نو مئی کے ملزمان پر چلنے والے تمام مقدمات کی سماعت اب متعلقہ قوانین کے تحت مکمل کر لی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 13 دسمبر کو پاکستان کی عدالت عظمی نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں سے 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی تھی جس کے بعد 21 دسمبر کو پہلے مرحلے میں 25 مجرمان کو مختلف مدت کے لیے قید بامشقت کی سزاسنائی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جن 60 ملزمان کو دوسرے مرحلے میں سزائیں سنائی گئی ہیں، ان میں سے 17 پر لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس، نو پر بنوں چھاؤنی، چھ پر فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر، چھ پر ہی گوجرانوالہ کینٹ میں راہوالی گیٹ، پانچ پر تیمر گرہ میں دیر سکاؤٹس کے ہیڈکوارٹر، چار پر چکدرہ قلعے، تین پر جی ایچ کیو، تین پر ملتان کینٹ، تین پر ہی میانوالی ایئر بیس، دو پر اے آئی ایم ایچ راولپنڈی اور ایک، ایک ملزم پر پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان اور گیٹ ایف سی کینٹ پشاور پر حملے اور توڑ پھوڑ کے الزامات تھے۔
پہلے مرحلے میں جن مجرمان کو سزائیں سنائی گئی تھیں ان میں سے 11 پر لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس، دو پر جی ایچ کیو، دو پر میانوالی ایئر بیس اور ایک پر فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر میں توڑ پھوڑ کا الزام تھا جبکہ دو پر ملتان کینٹ چیک پوسٹ اور پانچ پر پنجاب رجمنٹل سنٹر مردان پر حملے کا الزام تھا۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام شواہد کی جانچ پڑتال، مجرموں کو قانونی حق کی یقینی فراہمی اور قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے سزائیں سنائیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق تمام مجرموں کے پاس اپیل کا حق اور دیگر قانونی حقوق برقرار ہیں، جن کی آئین اور قانون میں ضمانت دی گئی ہے۔
بیان میں پاکستانی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ ' پاکستانی قوم، حکومت اور مسلح افواج انصاف اور ریاست کی ناقابل تسخیر رٹ کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم میں ثابت قدم ہیں'۔
Getty Images
خیال رہے کہ نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔
نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق پارلیمان نے قرارداد منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی تھی۔
گذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے خلاف مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی حکومتی اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انھیں سزا سنا کر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
’مکمل انصاف ماسٹر مائنڈ، منصوبہ سازوں کو سزا ملنے پر ہو گا‘
پہلے مرحلے میں جب 25 مجرمان کو سزا سنائی گئی تھی تو ایک بیان میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا تھا کہ یہ سزائیں ’تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں کبھی قانون کو ہاتھ میں نہ لیں‘ اور یہ ’ان تمام لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہیں جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’صحیح معنوں میں مکمل انصاف اُس وقت ہو گا جب نو مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی اور نو مئی کے مقدمے میں انصاف فراہم کر کے تشدد کی بنیاد پر کی جانے والی گمراہ اور تباہ کُن سیاست کو دفن کیا جائے گا۔‘
’گھر میں سوتے ہوئے بھی ایسا لگتا تھا کہ جیل میں ہوں‘: نو مئی واقعات پر فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے اور ان کے اہلخانہ کیا سوچتے ہیں؟نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانیپاکستان کی فوج میں اختلاف رائے کا تاثر: ’ذہن سازی‘ اور پالیسی میں ’تبدیلی‘ کا ٹکراؤ کیسے ہوا؟عمران خان اور فوج کا ’افیئر‘ کیسے اختتام پذیر ہوا؟’نو مئی والوں کو سزا نہ دی گئی تو کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہے گی‘
گذشتہ سال نو مئی کے بعد آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوج کے متعلقہ قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور اس کے بعد سے فوج کی جانب سے فوجی عدالتوں کے بارے میں دیے گئے بیانات میں کہا جاتا رہا ہے کہ آرمی سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار افراد کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق ہی نمٹا جا رہا ہے۔
رواں برس سات مئی کو ایک پریس کانفرنس میں مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا تھا کہ ’اگر نو مئی کرنے اور کروانے والوں کو سزا نہ دی گئی تو کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہیں گے۔‘
اس کے علاوہ نو مئی کے واقعات کا ایک برس پورا ہونے پر ایک بیان میں بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ ’وہ عناصر جو اس مجرمانہ عمل کے پس پردہ اصل مقصد کو نہیں سمجھ سکے اور منصوبہ سازوں کے سیاسی عزائم کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہوئے، سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر انھیں پہلے ہی شک کا فائدہ دیا جا چکا تاہم اس عمل کے اصل ذمہ داران جو اب خود کو متاثرین کے طور پر پیش کرتے ہیں، اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے، خاص طور پر جب منظم تشدد اور تخریب کاری میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔‘
ملٹری کورٹس پر بین الاقوامی ردِ عمل کیا رہا اور اس پر پاکستان کا کیا کہنا ہے؟
پاکستان میں فوجی عدالتوں کی جانب سے سزا سنائے جانے پر یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل میں شفافیت کا فقدان ہوتا ہے۔
برطانیہ کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق برطانوی حکومت ملک میں ہونے والی قانونی کارروائیوں پر پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرتی ہے تاہم فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل میں شفافیت اور آزادانہ جانچ پڑتال کا فقدان ہوتا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں کارروائی سے منصفانہ ٹرائل کے حق کو نقصان پہنچاتا ہے۔
'ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں نبھائے۔'
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عدالتی آزادی اور شفافیت کی ضمانت کا فقدان ہوتا ہے۔
'امریکہ پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتا ہے پاکستان کے آئین میں درج منصفانہ ٹرائل کے حق کا احترام کیا جائے۔'
یورپی یونین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کا دستخط کنندہ ہے اور فوجی عدالتوں کے فیصلے اس معاہدے کے تحت پاکستان پر لاگو ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔
بیان کے مطابق آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شخص کو آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں منصفانہ اور عوامی مقدمے کی سماعت کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملزم کو مناسب اور موثر قانونی نمائندگی کا حق بھی حاصل ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے یورپی یونین کی جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) سٹیٹس سے مستفیذ ہونے والے تمام ممالک بشمول پاکستان نے رضاکارانہ طور پر آئی سی سی پی آر سمیت 27 بین الاقوامی بنیادی کنونشنز کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں عدالتی نظرثانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے تمام بین الاقوامی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے۔'
انھوں نے کہا کہ پاکستان کا قانونی نظام انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے جس میں شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی معاہدے بھی شامل ہیں۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ملک کا قانونی نظام 'اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے عدالتی نظرثانی کا طریقہ کار فراہم کرتا ہے اور پاکستان جمہوریت، انسانی حقوق کے اصولوں کو فروغ دینے کے لیے مثبت بات چیت پر یقین رکھتا ہے۔'
'پاکستان جی ایس پی پلس سکیم اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ذمہ داریوں کے لیے پُرعزم ہے۔
'(ہم) بلا امتیاز اور دہرے معیار کے بغیر بین الاقوامی شراکت داروں بشمول یورپی یونین کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔'
9 مئی کا واقعہ: فوجی عدالتوں میں ملزمان کے ساتھ اب تک کیا ہوا؟BBC
اکتوبر 2023: فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے سے متعلق جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چھ صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالت میں نہ چلانے سے متعلق فیصلہ متفقہ ہے۔
سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ میں موجود شق ٹو ون ڈی ہی کالعدم قرار دے دی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے نو اور دس مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 گرفتار افراد کی فہرست یا اس کے علاوہ بھی اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے چلائے جائیں گے۔
دسمبر 2023: سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا اور بعدازاں چھ ججز کے بینچ نے 13 دسمبر کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔
اپریل 2024: نو مئی کے واقعات میں جن 103 افراد کے مقدمات قانونی طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے تھے ان میں سے 20 افراد کو سزا مکمل ہونے کے بعد رہا کیا گیا۔
اپریل میں اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے سپریم کورٹ میں جمع تحریری جواب میں بتایا تھا کہ 9 اور10 مئی کے واقعات میں سزا پانے والے 20 افراد کو رہا کیا گیا۔
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رہا کیے گئے افراد فوج کی حراست میں تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو کم درجے کی قانونی خلاف ورزی اور جرم میں ملوث تھے۔
رپورٹ کے مطابق ان مجرموں کو ملٹری کورٹ سے ایک ایک سال کی قید بامشقت سنائی گئی تھی، یہ افراد نو سے دس ماہ کی سزا کاٹ چکے تھے اور ان کو سزا مکمل ہونے سے قبل رہا کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے عید سے قبل ان افراد کو سزاؤں میں خصوصی رعایت دی تھی، جس پر انھیں رہا کیا گیا تھا۔
دسمبر 2024: پاکستان کی عدالت عظمی نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں سے 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی تھی۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات سے انکار: ’فوج نے ماضی کی غلطیاں دہرانے کی بجائے سدھارنے کا سبق سیکھ لیا‘عمران خان اور فوج کا ’افیئر‘ کیسے اختتام پذیر ہوا؟آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کو کیا سزائیں دی جا سکتی ہیں اور اس کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟’گھر میں سوتے ہوئے بھی ایسا لگتا تھا کہ جیل میں ہوں‘: نو مئی واقعات پر فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے اور ان کے اہلخانہ کیا سوچتے ہیں؟نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانیعدالتی ریلیف کے بعد فوج کی حراست میں دیے جانے کا خدشہ: ’یہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے فوجی عدالت بھیجنا چاہتے ہیں‘