افغانستان کی پاکستان کو مبینہ فضائی کارروائی پر ’جواب دینے‘ کی دھمکی: طالبان حکومت کا ممکنہ جواب کیا ہو سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 25, 2024

Getty Imagesافغان طالبان کے رہنما خلیل الرحمان حقانی کے جنازے کے دوران طالبان اہلکار سکیورٹی پر مامور

بدھ کی صبح کا آغاز افغانستان کی جانب سے پاکستان پر مبینہ فضائی کارروائی پر جواب دینے کی دھمکی سے ہوا جس کے بعد سے دونوں ممالک میں پہلے سے موجود تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ’فضائی حدود‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

تاہم پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ 'آئی ایس پی آر' یا پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ایسے کسی بھی حملے کی فی الحال نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید۔

بدھ کی صبح افغانستان کی وزارت دفاع کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے اس مبینہ حملے سے متعلق تین ٹویٹس کی گئیں جنھیں ملک کی وزارت دفاع کے ترجمان عنایت الله خوارزمی اور طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ری ٹویٹ بھی کیا گیا۔

افغان وزارت دفاع کے بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں سے تھا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

بیان کے مطابق 'افغانستان اس حملے کی مذمت کرتا ہے اور اس کو صریحاً جارحیت اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی سمجھتا ہے۔ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے اقدام مسئلے کا حل نہیں۔'

وزارت دفاع نے مزید کہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کے دفاع کو ناقابل تنسیخ حق سمجھتا ہے اور اس 'بزدلانہ کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔'

جبکہ بدھ کی سہ پہر افغان وزارت خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی سفارتخانے کے ناظم الامور کو طلب کیا اور افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں پاکستانی فوجی طیاروں کی مبینہ بمباری پر اپنا شدید احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا۔

افغان وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے 'غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے یقیناً نتائج برآمد ہوں گے۔'

Getty Imagesپکتیکا کہاں واقع ہے اور ماضی میں پاکستان نے افغانستان میں فضائی حملے کیے ہیں؟

پکتیکا پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی ڈیورنڈ لائن کے ساتھ افغانستان کا مشرقی صوبہ ہے جو پاکستان کے تین اضلاع سے متصل ہے۔

ان میں صوبہ بلوچستان کا ضلع ژوب جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے دو اضلاع جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان شامل ہیں۔

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان ہی وہ ضلع ہے جہاں رواں ماہ 21 دسمبر کو ایک فوجی چوکی پر حملہ ہوا تھا جس میں 16 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان نے اس حملے کا الزام سرحد پار سے آنے والے شدت پسندوں پر عائد کیا تھا۔

پاکستان نے سرکاری سطح پر تاحال اس فضائی کارروائی کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے جبکہ افغان وزارتِ دفاع نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان ان حملوں کا بدلہ لینے کا حق رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر سرحدی حدود میں ’دراندازی‘ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

رواں برس مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گُل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔

اس حملے کے بعد افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے فضائی حملے میں پانچ خواتین اور تین بچے ہلاک ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند پاکستان کی سکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

جون 2024 میں بی بی سی اُردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ 'پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔'

ان کا کہنا تھا کہ اگر مستقبل میں 'آپریشن عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔'

افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان کو ’جواب دینے‘ کی بات کی گئی ہے جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے خلاف کیا جوابی کارروائی کر سکتا ہے؟

https://twitter.com/HafizZiaAhmad/status/1871904118375407672?s=19

پاکستان نے افغانستان میں ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیوں کیا؟افغانستان میں پاکستانی کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ، جو ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہوا’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کی وجہ کیا ہے؟

بی بی سی نے یہی سوال ایک سینیئر سیکورٹی اہلکار سے کیا جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان آخری آپشن کے طور پر افغان سرزمین میں کارروائی کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم اس سے پہلے بار بار افغان حکومت کو شواہد کے ساتھ یہ بتاتے رہے ہیں کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ ہم نے ہر بار ثبوت دیئے اور افغانستان کو ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا کہ ماضی کے تعاون کی بنیاد پر وہ ٹی ٹی پی کو ان کے ہاتھ باندھنے کی اجازت نہ دیں۔

’لیکن ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کے بس میں نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کو روک سکیں اور خود ان کے اندرونی حکومتی مسائل بھی بہت ہیں۔‘

تاہم انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’وجہ کوئی بھی ہو، پاکستان یہ برداشت نہیں کرے گا کہ وہاں سے دہشتگرد آئیں اور ہمارے فوجی جوانوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنائیں۔‘

واضح رہے کہ پاکستان ماضی میں بھی الزام لگاتا رہا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانے ہیں اور افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں اور ملک میں حملوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

پاکستان کی توقعات کے برعکس، کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان سینٹر فار کانفلیکٹ اور سکیورٹی کے مطابق رواں برس اب تک سب سے زیادہ حملے نومبر میں ہوئے ہیں جن میں 240 افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریباً 70 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔

Getty Imagesکیا افغانستان پاکستان کی مبینہ ’دراندازی‘ کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

افغانستان کی مسلح افواج سے متعلق آزاد معلومات تو میسر نہیں تاہم گذشتہ برس ستمبر میں افغان وزارتِ دفاع کے انسپیکٹر جنرل لطیف اللہ حکیمی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ افغان بری اور فضائی فوجی دستوں میں ایک لاکھ ستر ہزار فوجی شامل ہیں۔

اس سے پہلے فروی2022 میں انھوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان افغانستان کے لیے ایک ’گرینڈ آرمی‘ تشکیل دے رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان ان 81 ہیلی کاپٹروں اور طیاروں میں سے نصف کی مرمت کر چکے ہیں ہے جنھیں امریکی افواج 2021میں انخلا کے دوران ناقابلِ استعمال حالت میں چھوڑ گئے تھے۔

ان کے مطابق امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان نے تین لاکھ سے زائد ہلکے ہتھیار، 26 ہزار بھاری ہتھیار اور تقریباً 61 ہزار فوجی گاڑیوں کا کنٹرول حاصل کیا، تاہم ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اس سے قبل نومبر 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان حکومت نے ایک مراسلہ جاری کرتے ہوئے افغان آرمی کی مختلف کورز کے نام تبدیل کر کے اسلامی نام رکھے تھے۔ انہی میں سے ایک 313 بدری یونٹ کے نام سے جانی جاتی ہے جس کی ویڈیوز بھی اُس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔

ان ویڈیوز میں افغان طالبان کے اہلکار اس یونٹ کی یونیفارم پہنے دیکھے جا سکتے تھے جنھوں نے جدید اسحلہ اٹھایا ہوا تھا۔ اسی یونٹ کو افغان مسلح افواج کی اسپیشل یونٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے اچانک انخلا کے بعد ان فورسز کے زیرِ استعمال اسلحے کی ایک بڑی مقدار پیچھے رہ گئی تھی۔ متعدد بین الاقوامی جریدوں کے مطابق یہ عسکری سازو سامان طالبان جنگجوؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

ان میں جدید رائفلز سے لے کر متعدد ’ہم ویز‘ اور چند ہیلی کاپٹرز تک شامل تھے۔ اس کے علاوہ باڈی آرمر سوٹ، کمیونکیشن کا سامان، شولڈرماونٹڈ گرینیڈ لانچرز اور رات کے وقت دیکھنے والے آلات بھی شامل تھے۔

Getty Images

تاہم اس سب کے باوجود پاکستان میں تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ کابل میں افغان حکومت پاکستان کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی عقیل یوسفزئی کہتے ہیں کہ سنہ 2021 کے بعد سے افغانستان کی حکومت کے دو طرح کے موقف سامنے آ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک تو وہ اس بات سے ہی انکاری ہیں کہ ٹی ٹی پی ان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے، حالانکہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے دور میں جب پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے تو وہ تو کابل میں ہی ہوئے۔

’ایک طرف تو یہ بیانیہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں رہا لیکن نجی ملاقاتوں میں یہی افغان طالبان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی ان کے لیے بھی خطرہ ہے اور ان کے خلاف وہ کچھ نہیں کر سکتے۔'

عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کے پاس اس وقت اتنی صلاحیت نہیں کہ پاکستان کے اندر کوئی فوجی کارروائی کریں جس سے سرحد پر کشیدہ یا جنگی صورتحال پیدا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دوسرایہ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو مزید، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے ذریعے مضبوط کریں۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وہ بھی تبھی ممکن ہو گا کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ یہ اب ایک کھلی حقیقت ہے کہ طالبان حکومت کا حقانی نیٹ ورک ٹی ٹی پی کو ایک پراکسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔'

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں میں مذاکراتی عمل کا بھی آغاز ہوا ہے اور امکان ہے کہ آئندہ ایک دو روز میں 'سرحد پار اس کشیدگی پر بات چیت ہو گی جس کے بعد ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت آخر کن آپشنز پر غور کر رہی ہے۔'

پاکستان نے افغانستان میں ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیوں کیا؟’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزمافغانستان میں پاکستانی کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ، جو ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہوا’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے: کیا یہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More