انڈیا میں شادی سے قبل لڑکے لڑکی کی جاسوسی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

اردو نیوز  |  Dec 25, 2024

انڈیا میں رشتے کروانے کے لیے عموماً خاندان کے افراد روایتی انداز میں کردار ادا کرتے ہیں لیکن اب چند برسوں سے کچھ نئے طریقے بھی سامنے آ رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی روایات کے تحت اب نوجوان اپنے ہم سفر کی جانچ پھرول کے لیے نجومیوں یا پارٹی پیلنرز کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کی حامل نجی سراغ رساں کمپنیوں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔

بھاؤنا پلیوال دارالحکومت نئی دہلی میں ایسی ہی ایک جاسوسی کمپنی چلا رہی ہیں جو نوجوانوں کو ساتھی کی تلاش میں مدد فراہم کرتی ہے۔

نئی دہلی کے ایک دفتر میں کام کرنے والی شیلا (فرضی نام) نے بتایا کہ جب انہیں پتا چلا کہ ان کی بیٹی اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے بھاؤنا پلیوال کی خدمات حاصل کیں۔

انہوں نے بتایا ’میرا اپنا سامنا ایک بُری شادی سے رہا۔ جب میری بیٹی نے بتایا کہ اسے پیار ہو گیا ہے تو میں نے اس کی مدد کرنا چاہی۔‘

تاہم شیلا کی بیٹی اس بات سے بے خبر رہیں کہ ان کے منگیتر کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔

لگ بھگ دو دہائی قبل تیجاس ڈیٹیکٹو ایجنسی قائم کرنے والی 48 سالہ بھاؤنا پلیوال کا کہنا ہے یہ کاروبار اب پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق ان کی ٹیم ماہانہ آٹھ کیسز نمٹا رہی ہے۔

ایک سراغ رساں کی خدمات کا معاوضہ عام طور پر 100 سے 2000 ڈالر تک ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)بھاؤما پلیوال نے ایک تازہ کیس کے بارے میں بتایا جس میں ان کی کلائنٹ اپنے ممکنہ شوہر کی تنخواہ کے بارے میں پتا لگانا چاہتی تھیں۔ ’اس شخص نے خاتون کو بتایا تھا کہ وہ سالانہ 70 ہزار 700 ڈالر کما لیتا ہے لیکن ہمیں پتا چلا کہ وہ تو صرف سات ہزار 70 ڈالر کماتا ہے۔‘

سٹی مال میں موجود بھاؤنا پلیوال کے دفتر کے باہر ایک ماہر نجوم کا بورڈ لگا ہے جہاں شادی سے قبل مستقبل کا حال جاننے کے لیے مختلف خاندان آتے ہیں۔

بھاؤنا پلیوال کا کہنا ہے کہ ’بعض اوقات میرے کلائنٹ نہیں چاہتے کہ کسی کو پتا چلے کہ وہ سراغ رسانوں سے مل رہے ہیں۔‘

ایک سراغ رساں کی خدمات کا معاوضہ عام طور پر 100 سے 2000 ڈالر تک ہوتا ہے۔ سراغ رسانی کے معاوضے کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس سطح کی جاسوسی چاہتے ہیں۔

کچھ افراد تو اپنے ممکنہ ہم سفر کے خاندانی پس منظر اور کسی مشتبہ تعلق وغیرہ کے بارے میں بھی جانچ کروانا چاہتے ہیں۔

سراغ رساں ایجنٹس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مختلف قسم کی معلومات جمع کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)ایسی ہی ایک جاسوسی کمپنی سے وابستہ 51 سالہ سراغ رساں سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ ’یہ معاشرے کی خدمت ہے۔‘

ان کے مطابق انہوں نے صرف رواں برس میں شادی سے قبل جاسوسی کے ’سینکڑوں کیسز‘ نمٹائے ہیں۔

ایک اور سراغ رساں اکریتی کھتری نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسے بھی افراد ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کہیں ان کا ہم سفر ہم جنس پرست تو نہیں۔‘

سنجے سنگھ نے بتایا کہ اس قسم کی سراغ رسانی کے لیے کافی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی شخص کی معلومات تک رسائی کے لیے کسی نہ کسی فرضی کہانی کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ ہماری ٹیم کو قانونی اور غیرقانونی کے درمیان کہیں رہ کر اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کے افراد کو یہ ہدایت ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور کوئی غیراخلاقی اقدام نہ کریں۔

اکریتی کھتری نے ٹیک ڈویپلپر کی مدد سے ایک ایپ بنائی ہے جہاں ان کے ایجنٹس براہ راست معلومات اپلوڈ کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)دوسری جانب اکریتی کھتری نے ٹیک ڈویپلپر کی مدد سے ایک ایپ بنائی ہے جہاں ان کے ایجنٹس براہ راست معلومات اپلوڈ کرتے ہیں۔ اس میں لوکیشن، آڈیو ویڈیو سمیت مواد شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ زیادہ محفوظ طریقہ ہے۔

بھاؤنا پلیوال کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی نے رشتوں کو بہت زیادہ دباؤ کا شکار بنا دیا ہے۔ ’ہم جتنے زیادہ ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، اتنے ہی مسائل ہماری زندگیوں میں در آتے ہیں۔‘

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دھوکہ بازی کو آشکار کرنے میں ٹیکنالوجی یا سراغ رسانوں کو الزام نہیں دیا جانا چاہیے۔

’ایسے رشتے دیرپا نہیں ہوتے۔ کوئی بھی رشتہ جھوٹ کی بنیاد پر چل نہیں سکتا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More