کراچی کے رہائشی محمد عمیر (فرضی نام) ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ گذشتہ کئی برسوں سے ضلع شرقی کے علاقے سچل میں رہائش پذیر ہیں۔عمیر کم گو تو ہیں ہی بلکہ اُن کے دوست بھی بہت زیادہ نہیں ہیں۔ وہ ایک روز صبح سویرے معمول کے مطابق تیار ہوئے اور دفتر جانے کے لیے گھر سے باہر نکلے تو گاڑی کو اپنی جگہ پر نہ دیکھ کر چونک گئے۔عمیر اپنا سامان لے کر واپس گھر لوٹے، سامان گھر میں رکھا اور پریشانی میں کسی کو فون ملانے لگے۔
عمیر کے گھر والوں نے جب اُن کو پریشان دیکھا تو اُن سے اُن کی پریشانی کی وجہ جاننا چاہی اور یہ کہ وہ دفتر کیوں نہیں گئے اور گھر واپس کیوں آ گئے ہیں؟
عمیر نے پریشانی کے انداز میں فون ملاتے ہوئے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ گھر کے باہر گاڑی موجود نہیں ہے، چابی تو گھر میں ہے لیکن گاڑی نہیں ہے، شاید چوری ہو گئی ہے۔وہ فون ملاتے ہوئے گھر سے باہر نکلے اور اردگرد موجود لوگوں سے اپنی گاڑی کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔اسی اثنا میں گلی میں موجود ایک شخص نے انہیں مشورہ دیا کہ ان کی گاڑی جہاں کھڑی تھی اس کے سامنے سکیورٹی کیمرے نصب ہیں، اس کی فوٹیجز سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ گاڑی کہاں گئی۔عمیر نے اپنے پڑوسی کو بتایا کہ ان کی گاڑی چوری ہو گئی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیجز دکھانے کا کہا تاکہ تلاش میں مدد مل سکے۔محمد عمیر کے پڑوسی نے انہیں سی سی ٹی وی فوٹیجز دکھائیں جن میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد عمیر کے گھر کی گلی میں داخل ہوتے ہیں، موٹر سائیکل عمیر کی گاڑی کے قریب لا کر کھڑی کرتے ہیں اور موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھا شخص جس نے اپنا چہرہ چھپا رکھا ہے، تیزی سے بائیک سے اترتا ہے اور عمیر کی گاڑی کی ڈرائیونگ سائیڈ کا دروازہ کھولنے کے بعد چند ہی سیکنڈز میں گاڑی لے اُڑاتا ہے۔عمیر اس واقعے کے بارے میں اپنے قریبی دوست عباس کو اطلاع دیتے ہیں۔ دونوں دوست مشورہ کرنے کے بعد گاڑی چوری کی شکایت سچل تھانے میں درج کروانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔پولیس جائے وقوعہ کا دورہ کرتی ہے اور ابتدائی تفتیش کے بعد یہ مقدمہ اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل (اے وی ایل سی) کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔محمد عمیر نے اپنے پڑوسی کو بتایا کہ ان کی گاڑی چوری ہو گئی ہے انہیں سی سی ٹی وی فوٹیجز دکھائی جائیں تاکہ وہ چوروں کو تلاش کر سکیں۔ (فائل فوٹو: سکیورٹیز ٹیکنالوجی)اے وی ایل سی کی ٹیم جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے بعد گاڑی کے مالک محمد عمیر سے کچھ سوال جواب کرتی ہے۔ اس دوران پولیس کو کسی قریبی فرد کے ملوث ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔پولیس سی سی ٹی وی کی مدد سے واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے۔ عمیر نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ اس کی گاڑی کی واپسی کے لیے اُن کا ایک دوست بھی کوششیں کر رہا ہے، اور یہ کہ اُن کے دوست عباس نے انہیں بتایا ہے کہ اُن کی گاڑی سندھ کے علاقے جیکب آباد میں ہے، اور ساڑھے 5 لاکھ روپے میں واپس مل سکتی ہے۔ عمیر نے یہ پیسے اپنے دوست کو ادا بھی کر دیے ہیں لیکن پھر بھی گاڑی نہیں ملی ہے۔پولیس نے عمیر کے اس بیان کی روشنی میں تفتیش کا دائزہ کار مزید وسیع کر دیا اور تکنیکی بنیادوں پر کیس کو دیکھا جانے لگے۔ اسی دوران پولیس کو ایک بریک تھرو ملا جب فون کال کے ریکارڈ میں عمیر کے دوست عباس کے نمبر سے سندھ کے مختلف علاقوں میں بات چیت کی گئی تھی۔پولیس نے عباس سے پوچھ گچھ کی تو وہ پولیس کو مطمئن نہ کر سکے۔پولیس نے عمیر کو اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی بلکہ اپنی تفتیش جاری رکھتے ہوئے عباس کو حراست میں لے لیا۔ اور اس نے دورانِ حراست یہ انکشاف کیا کہ کہ اس نے ہی اپنے دوست عمیر کی گاڑی چوری کی ہے اور سندھ کے شہر جیک آباد میں کسی مقام پر چھپا رکھی ہے۔پولیس نے عباس کی نشاندہی پر گاڑی برآمد کی اور گاڑی کے مالک عمیر کو اطلاع دی کہ ان کی گاڑی مل گئی ہے۔پولیس نے عمیر کو بتایا کہ ’ان کی گاڑی کسی غیر نے نہیں بلکہ اُن کے اپنے ہی دوست عباس نے چوری کی تھی۔‘عباس نے دھوکے سے عمیر کی گاڑی کی ایک اور چابی بنوا رکھی تھی اور کئی روز ریکی کرنے کے بعد 29 اکتوبر کو موقع پا کر عمیر کی گاڑی چوری کر لی تھی۔پولیس نے اپنی تفتیش جاری رکھتے ہوئے عباس کو حراست میں لے لیا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)ایس ایس پی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس نے ملزم عباس کو گرفتار کر لیا ہے اور اُس کے قبضے سے چوری ہونے والی کار برآمد کر لی گئی ہے۔‘ترجمان کے مطابق ’ملزم نے چالاکی سے نہ صرف دوست کی گاڑی چرائی، بلکہ اُسی دوست سے اُسی گاڑی کو واپس دلانے کے لیے ساڑھے پانچ لاکھ روپے بھی وصول کیے۔ یہ واقعہ 29 اکتوبر کا ہے، جب مدعی مقدمہ نے تھانہ سچل میں اپنی گاڑی جس کا نمبر اے ایم جے 665 تھا، چوری ہونے کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔‘’تفتیش کرنے کی ذمہ داری اے وی ایل سی گڈاپ ڈویژن کو سونپی گئی تھی، جس کے بعد پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج، خفیہ معلومات اور تکنیکی ذرائع کی مدد سے ملزم عباس کا سراغ لگایا۔‘ملزم عباس نے گاڑی جیکب آباد بھیج کر اپنے ذرائع سے واپس دلانے کے لیے اپنے دوست سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے وصول کیے، لیکن پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے گاڑی برآمد کر لی اور عباس کو گرفتار کر لیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔