پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل اور خاص طور پر سست روی کے مسائل کو دور کرنے کے لیے ایک پارلیمانی عہدیدار نے مشورہ دیا ہے کہ لوگوں کو ’انٹرنیٹ کا کم استعمال‘ کرنا چاہیے اور صرف ’اہم معاملات‘ کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔
کابینہ ڈویژن کے پارلیمانی سیکریٹری سید ساجد مہدی حال ہی میں قومی اسمبلی میں انٹرنیٹ کی سست روی، واٹس ایپ پر میڈیا ڈاؤن لوڈ کرنے میں دشواری اور ملک بھر میں وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی تعطلی پر قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کے جوابات دینے کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ساجد مہدی نے انٹرنیٹ سے متعلق سوالات کا جواب دیا کیونکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بجائے کابینہ ڈویژن کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
اتوار کو ڈان نیوز ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پارلیمانی سیکریٹری نے پاکستان میں انٹرنیٹ کو ایک سڑک سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جتنا زیادہ لوگ اسے استعمال کریں گے، اتنا ہی زیادہ بھیڑ بھاڑ ہوگی اور لوگ اتنی ہی سست روی سے آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’بالکل ایک مصروف سڑک کی طرح ہمارے انٹرنیٹ پر بھی بہت زیادہ دباؤ ہے‘، اگر رکاوٹیں زیادہ ہوں تو گاڑی آہستہ چلتی ہے اور اگر 5 لوگوں کے لیے بنائی گئی سڑک کو 10 لوگ استعمال کرتے ہیں تو ایسے میں سب کچھ سست ہوجاتا ہے۔’
پارلیمانی سیکریٹری کے دلائل سے پتا چلتا ہے کہ ان کی انٹرنیٹ کے اصل کام کے بارے میں تکنیکی معلومات انتہائی محدود ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام جاری ہے اور ’بہت جلد‘ مکمل ہوجائے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق، ساجد مہدی نے نشاندہی کی کہ کچھ مقامات اب بھی انفرااسٹرکچر پر انحصار کرتے ہیں جو ایک دہائیوں سے زیادہ پرانا ہے اور موجودہ طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فرسودہ انفرااسٹرکچر، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور طلب انٹرنیٹ کی سست روی کے اہم وجوہات ہیں تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ ان نظاموں کو جدید بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ساجد مہدی نے انٹرنیٹ کے ’غیر ضروری‘ استعمال کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے رفتار میں بہتری آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اس کا استعمال بند کردیں بلکہ اسے غیر ضروری مقاصد کے بجائے صرف روزگار جیسے اہم مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
انٹرنیٹ کے مسائل پر قابو پانے کے لیے پارلیمانی سیکریٹری کا یہ مشورہ ’اپنے لیے اور قوم کے لیے بجلی بچائیں‘ جیسے نعرے کی یاد دلاتا ہے جو 1990 اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں عوامی مہم کا بنیادی نعرہ ہوا کرتا تھا جب پاکستان کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان میں لوگ غیر ضروری طور پر انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں، تو عہدیدار نے جواب دیا کہ لوگوں کو زیادہ تر کام کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر لوگ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال نہ کریں یا منفی سوچ کے لیے استعمال نہ کریں تو یہ سود مند ہوگا۔‘
پارلیمانی سیکریٹری نے اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا کہ انٹرنیٹ کی سست روی آئی ٹی سیکٹر کو مالی نقصان پہنچا رہی ہے۔
جب انہیں بتایا گیا کہ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) نے مالی نقصان کے بارے میں پارلیمنٹ کو آگاہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’ہمیں سرکاری طور پر نہیں بتایا گیا ہے کہ شٹ ڈاؤن سے مالی نقصان ہوا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی نے بھی مالی نقصانات کے بارے میں کوئی درخواست یا شکایت درج نہیں کرائی ہے اگر کسی کو ذاتی نقصان اٹھانا پڑا ہے تو یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔