آبادی میں تیز رفتار اضافے میں کمی اور اس کو پائیدار سطح تک لانے کیلئے کونسل آف کامن انٹرسٹ کے فیصلوں کے تحت بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
اگر آبادی میں اضافے کی موجود صورتحال برقرار رہی تو 2050 تک پاکستان کو معیشت، تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کے شعبوں میں بہت سے مشکلات درپیش آئیں گی۔
یہ بات یو این ایف پی اے کے تعاون سے پاپولیشن کونسل کے زیر اہتمام میڈیا کولیشن میٹنگ میں کہی گئی اس قومی نشست میں پاکستان بھر سے میڈیا سے وابستہ صحافیوں نے شرکت کی۔
اپنے خیر مقدمی کلمات میں پاپولیشن کونسل کے سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ اگر پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہے تو ہمیں اپنی آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا جس کیلئے سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
دوسری صورت میں پاکستان کے موجودہ مسائل میں ابتری آنے کا خدشہ ہے، اس حوالے سے میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرناہوگا اور خبروں کے ذریعے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہو نے والے مسائل پر توجہ دلا کر حکومتوں کو خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات کی فراہمی میں بہتری لانے پر قائل کرنا ہوگا۔
اس موقع پر پاپولیشن کونسل کی تازہ ترین رپورٹ ”پاکستان @2050” کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کی مینیجر ریسرچ ڈاکٹر صائمہ بشیر کا کہنا تھا کہ اس تحقیق میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے دو مختلف تخمینے پیش کیے گئے ہیں۔
پہلا تخمینے میں اگرپاکستان کی آبادی اس طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان آبادی تقریباً386 ملین ہو جائے گی لیکن پاکستان اگر سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرتا ہے اور آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی لاتا ہے تو آبادی 338ملین تک محدود رہے گی۔
اسی طرح موجود ہ صورتحال رہی تو 2050 تک 115 ملین نئی ملازمتوں کی ضرورت ہوگی جبکہ سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد سے یہ تعداد 97 ملین تک محدود رہے گی۔
معیشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل کرکے شرحِ بارآوری کو 2.2 فیصد کی سطح پر لا کر جی ڈی پی گروتھ کو5.1 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے جو کہ موجودہ صورتحال کے تسلسل کے نتیجے میں صرف 3.4 فیصد تک محدود رہے گی۔ دوسری جانب موجود صورتحال کے تسلسل سے فی کس ماہانہ آمدنی 27ہزار رہے گی جس کو سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد سے 36ہزار تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
قومی میڈیا کولیشن کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے پاپولیشن کونسل کے ڈپٹی مینیجر کمیونیکیشن اکرام الاحد نے کہا کہ آبادی میں تیزی سے بڑھتا ہوا اضافہ معیشت، صحت، ماحولیات اور تعلیم، کو متاثر کر رہا ہے جس کیلئے فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
آبادی میں تیزی سے اضافے سے خواتین کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جو نہ صرف ان کی زندگیوں بلکہ معاشرے کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات میں اضافہ کر رہا ہے جس سے معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
میٹنگ میں شریک صحافیوں نے آبادی کی رفتار کو پائیدار سطح پر لانے کیلئے اعدادوشمار کی بنیاد پر رپورٹنگ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔