19 سال کے مصطفٰی خان کا بچپن خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند کے گاؤں داؤد کور کی گلیوں میں کھیلتے کُودتے گزرا۔ گھر سے تیار ہو کر سکول جانا اور واپس آکر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔مصطفٰی خان کی زندگی بہت خوب صورت تھی، دوست یار، جانور، مرغیاں، گاؤں کی گلیاں، سکول، بازار، کھلیان اور پہاڑ، موسم بہار کا ہو، گرمی کا یا سردی کا، انہیں اپنے گاؤں کے شب و روز ہمیشہ اچھے لگتے تھے، لیکن ان کا یہ اچھا وقت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہا۔
ان کے علاقے میں عسکریت پسند تو ان کی پیدائش سے قبل ہی آچکے تھے لیکن مصطفٰی کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان عسکریت پسندوں کی پُرتشدد کارروائیوں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔کبھی کہیں بم دھماکہ ہوتا تو کبھی کہیں فائرنگ، ان کے آس پاس کھیلنے والے کئی بچے، ان کے بڑے اور بوڑھے ان واقعات میں مارے گئے۔جب دہشت گردی کے یہ واقعات بڑھے تو مصطفٰی خان کے والد انہیں داؤد کور سے سینکڑوں میل دُور جنوبی پنجاب کے شہر لیاقت پور لے گئے جہاں اُن کے رشتہ دار رہتے تھے۔اگلے کئی سال مصطفٰی خان نے وہیں گزارے۔ ان کے والد پاکستان کی پیراملٹری فورس فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) میں ملازمت کرتے تھے اور ان سے الگ ضلع بنوں میں رہتے تھے۔جب پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن کے بعد ضلع مہمند کو عسکریت پسندوں سے خالی کروایا گیا اور مصطفٰی خان واپس لوٹے تو وہ ایک کھلنڈرے بچے سے ذہین طالب علم بن چکے تھے۔وہ اعلٰی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی زندگی میں امتحان ابھی ختم نہیں ہوئے تھے۔ مصطفٰی کے والد ایف سی سے ریٹائر ہو کر گھر آئے اور ساتھ ہی مصطفیٰ کے دادا کی طبیعت بگڑ گئی۔ ان کے علاج پر نہ صرف والد کی جمع پونجی خرچ ہو گئی بلکہ انہیں قرض بھی لینا پڑا۔قرض کی ادائیگی اور مصطفٰی اور ان کے آٹھ بہن بھائیوں اور والدین کے گزر بسر کے لیے ان کے والد کی 25 ہزار روپے ماہانہ پنشن کبھی کافی ثابت نہیں ہوئی۔ مجبوراً مصطفٰی کو دسویں جماعت کے بعد والد کا ہاتھ بٹانے اور چھوٹے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پڑھائی چھوڑنا پڑی۔وہ گھر سے مزدوری کے لیے نکلے لیکن انہیں کام نہیں ملا کیونکہ امن و امان کی خراب صورت حال نے ان کے علاقے میں روزگار کے مواقع مسدود کر دیے تھے۔ وہ پشاور تک گئے مگر چھوٹی موٹی مزدوری سے زیادہ انہیں کچھ نہیں ملا۔
دہشت گردی کم ہونے اور سنگِ مرمر کی صنعت سے باجوڑ اور مہمند میں خوش حالی آرہی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
پھر جب ضلع مہمند اور اس کے اطراف کے علاقوں میں استحکام بڑھا تو رفتہ رفتہ لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہونا شروع ہو گیا اور علاقے میں دیگر کاروبار کے ساتھ سنگ مرمر کی کانیں اور کارخانے کھلنا شروع ہو گئے۔ حالات میں بہتری آئی تو کئی نئے کارخانے بھی کھل گئے۔’ماربل کے 90 فیصد سے زائد ذخائر صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیں‘ضلع مہمند کا سنگ مرمر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی مشہور ہے اور اس کی ایک خاص وارئٹی ’زیارت ماربل‘ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق ’ملک میں ماربل کے 160 ملین ٹن سے زائد کے ذخائر ہیں اور اس کا 90 فیصد صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع (ضم شُدہ اضلاع) اور دیگر علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اگر ماربل کی صنعت پر بہتر توجہ دی جائے تو اگلے دو تین سال میں اس کی برآمد 40 لاکھ ڈالر سے ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ انہی مواقعوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضلع مہمند کے کئی افراد نے مصطفٰی خان کے گاؤں کے قریب ماربل کی ٹائلیں بنانے کے کئی کارخانے لگا لیے اور ان ہی میں سے ایک میں انہیں بھی کام مل گیا۔مصطفٰی خان نے ماربل کاٹنے والی مشین چلانے میں مہارت حاصل کر لی اور اس وقت ان کا شمار فیکٹری کے اہم کارکنوں میں ہوتا ہے۔ماربل انڈسٹری میں کام کے آغاز کے ساتھ ہی مصطفٰی کے چھوٹے بھائی کو کسی نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے قریب آرمی پبلک سکول والے ذہین بچوں کے داخلے کے لیے ٹیسٹ لے رہے ہیں۔
ماربل کی صنعت سے وابستہ افراد کہتے ہیں کہ ’ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز)
انہوں نے یہ ٹیسٹ پاس کر لیا جس کے بعد انہیں مردان کے آرمی پبلک سکول بھیج دیا گیا۔ مصطفٰی خان اس وقت ماہانہ 32 ہزار روپے کماتے ہیں، جن میں سے 20 ہزار روپے وہ گھر کے اخراجات کے لیے دیتے ہیں۔وہ پانچ ہزار روپے اپنے اس بھائی کو بھیجتے ہیں جو اس وقت آٹھویں کلاس کا طالب علم ہے اور مردان کے ہاسٹل میں رہتا ہے۔ باقی رقم وہ اپنے اخراجات کے لیے پاس رکھتے ہیں۔ ’سعودی عرب سے پیسہ کما کر پاکستان میں ماربل فیکٹری لگائیں گے‘
مصطفٰی خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہنر کا فائدہ اٹھانے کے لیے سعودی عرب جا کر ماربل کی کٹائی کا کام کریں گے اور وہاں پر کچھ سال کام کر کے زیادہ پیسے کمانے کے بعد وطن واپس آکر ذاتی کارخانہ لگائیں گے جس میں وہ اپنے جیسے دیگر افراد کو روزگار فراہم کریں گے۔مہمند کے پڑوسی ضلع باجوڑ میں ناواگئی شہر کے باسی ظفر خان نے زندگی پہاڑوں سے ماربل نکالنے، اسے توڑنے اور بیچنے میں گزاری ہے۔ ان کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے اور وہ ہمیشہ ایک ہی ڈگر پر چلتے رہے ہیں۔انہوں نے ان پتھروں سے اپنا روزگار کما کر ایک مطمئن زندگی گزاری ہے، تاہم ایک وقت آیا تھا جب وہ زندگی سے مایوس ہو گئے تھے اور انہیں کھانے پینے کے لالے پڑ گئے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب 2004 کے بعد باجوڑ میں شدت پسندی بڑھ گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ظفر خان کا کام کم ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اہلیہ بیماری کا شکار ہو گئیں اور کچھ عرصے بعد چل بسیں۔حالات دن بند خراب ہو رہے تھے۔ بم دھماکے، خود کش حملے اور فائرنگ کے واقعات بڑھ رہے تھے اور کام ختم ہو رہا تھا۔
مقامی افراد کے مطابق ’مہمند میں ماربل کے بے پناہ ذخائر ہیں اور یہاں 70 فیصد پہاڑ سنگِ مرمر کے ہیں‘ (فوٹو: اردو نیوز)
ان حالات میں پاکستانی فوج نے یہاں پر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جس سے قبل ہی یہاں کے عام افراد مہاجرین بن کر پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ظفر خان کو بھی پشاور میں پناہ لینا پڑی۔ ان کی عمر ڈھل رہی تھی اور بچے جوان ہو رہے تھے۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ تو رُکا ہی، ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنا بھی محال تھا۔نئے شہر میں ظفر خان کو نہ کوئی ڈھنگ کا کام مل رہا تھا اور نہ ہی ان کے بچوں کو۔ آنے والے برسوں میں ان کی عمریں شادی کی ہوگئیں۔ظفر خان نے ان کے اخراجات کے لیے ادھار لینا شروع کر دیا۔ پہلے ان کا پیٹ پالنے اور پھر چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی کے لیے انہیں 40 لاکھ روپے تک قرض لینا پڑا۔وہ اپنے مسائل سے پریشان تھے جب انہیں اچھی خبر ملی کہ کامیاب فوجی آپریشن کے بعد نواگئی میں زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ وہ واپس آئے تو ماربل کی کان پر ان کا کام بھی دوبارہ شروع ہو گیا۔ماربل کی فروخت سے آمدن بڑھی تو کان کے مالک نے کچھ عرصے کے بعد ظفر خان کا معاوضہ بھی بڑھا دیا۔ اِس وقت وہ ایک لاکھ روپے سے زائد رقم کما رہے ہیں اور قرض کا ایک بڑا حصہ لوٹا بھی چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی ہم خوش حال ہیں۔ ابھی اپنا کام چل رہا ہے، ہزاروں کے حساب سے بیوپاری ماربل خریدنے آتے ہیں۔ ہمیں 60 ہزار روپے تک تنخواہ ملتی ہے، ساتھ فی گاڑی 100 روپے اضافی ملتے ہیں۔‘’ہمیں کمیشن بھی دیا جاتا ہے تو ہمارا معاوضہ سوا لاکھ روپے تک بن جاتا ہے۔ میں نے 40 لاکھ روپے میں سے 15 لاکھ روپے تک قرض واپس کر دیا ہے۔‘
علاقے کی بڑی آبادی ماربل کی کان کنی اور اس کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ ہے (فوٹو: اردو نیوز)
’پاکستانی ماربل کو دنیا میں بطور برانڈ رجسٹر کروانے کی ضرورت ہے‘خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مرکز سے نکلنے والی ورسک روڈ پر گنجان آبادی کے بیچوں بیچ سفر کیا جائے تو یہ سڑک بل کھاتی تہہ در تہہ پہاڑیوں کی طرف لے جاتی ہے جو ضلع مہمند کا آغاز ہے۔مہمند میں سڑک کا ایک حصہ اگرچہ خراب ہے اور کئی جگہوں پر ایسے گڑھے پڑے ہوئے ہیں جو یہاں سے گزرتی گاریوں کا ڈھانچہ تک ہلا دیتے ہیں۔گرد گاڑیوں کے شیشوں اور کھڑکیوں سے اندر مسافروں کے نتھنوں تک آتی محسوس ہوتی ہے اور کئی مقامات پر ادھورا چھوڑا ہوا تعمیراتی کام ظاہر کرتا ہے کہ سڑک بنانے والا ٹھیکیدار غالباً بھاگ چکا ہے۔تاہم یہاں پہاڑوں کی طرف سے آنے والے بڑے بڑے پتھروں سے لدے ٹرک اشارہ کرتے ہیں کہ یہ علاقہ سنگِ مرمر کی صورت بڑی دولت سے مالامال ہے اور یہی دولت نکالنے اور اس کو مزید چمکانے کے لیے علاقے کے کان کن اور کارخانہ دار شب و روز محنت کر رہے ہیں۔ نوجوان قانون دان عبدالرحمان بھی ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے ویسے تو قانون کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہ اپنے والد کے ماربل کی کان کنی، کٹائی اور فروخت کا کام سنبھال رہے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ پاکستانی ماربل کی بین الاقوامی سطح پر پہچان بنائی جائے اور وہ اس کی بڑے پیمانے پر برآمد کے لیے کوشاں ہیں۔عبدالرحمان بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ماربل کا کام بڑھ رہا ہے اور آئے روز نئی کانیں اور کارخانے کُھل رہے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر ’زیارت ماربل‘ کو بطور برانڈ متعارف کروانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
مقامی فیکٹری کے مالک کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ہاں غیرملکی سرمایہ کار بھی آرہے ہیں‘ (فوٹو: اردو نیوز)
وہ اس مقصد کے لیے اپنا کاروبار جلد قطر تک پھیلا رہے ہیں۔ وہ قطر میں ’زیارت ماربل‘ کی بطور برانڈ رجسٹریشن کروائیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ چیز دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے، ہم اس کے ذریعے پاکستان کی نمائندگی کر سکتے ہیں، یہ ایسی چیز ہے کہ پورے پاکستان کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘سب سے اچھا ماربل زیارت وائٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ اگر آپ کے پاس اچھی مشینری ہو تو آپ اس کو اربوں ڈالر میں بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ اس کا ایک مربع بلاک تین سے چار لاکھ روپے تک چلا جاتا ہے۔‘’مہمند میں 70 فیصد پہاڑ ماربل کے ہیں‘عبدالرحمان کہتے ہیں کہ ’مہمند میں ماربل کے بے پناہ ذخائر ہیں اور یہاں 70 فیصد پہاڑ سنگِ مرمر کے ہیں، لیکن جدید لیزر کٹنگ مشینری نہ ہونے اور بارود کے ذریعے پہاڑوں میں دھماکے کر کے ماربل نکالنے سے 20 سے 30 فیصد تک قیمتی پتھر ضائع ہو جاتا ہے۔‘’مہمند میں اس وقت 70 سے 80 کانوں میں کام ہو رہا ہے اور ہر کان میں 6 ہزار افراد کام کر رہے ہیں۔ تقریباً پورے مہمند میں اس وقت 500 جبکہ شب قدر میں 1500 تک فیکٹریاں ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’شیر برج میں 1500 تک جبکہ پیر بالا میں 2000 فیکٹریز ہیں، انڈسٹریل اسٹیٹ میں 15 سے 20 فیکٹریاں ہیں، مردان میں ڈھائی ہزار اور اٹک میں 600 تک فیکٹریاں موجود ہیں، ان سب میں مہمند کا ماربل کاٹ کر تیار کیا جاتا ہے۔‘
سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن کے بعد ضلع مہمند کو عسکریت پسندوں سے خالی کروایا گیا (فوٹو: اردو نیوز)
عبدالرحمان نے مزید بتایا کہ ’ضلع مہمند میں ہر دوسرے ماہ دو تین نئی کانیں کھل رہی ہیں اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ماربل کو مزید بڑے سائز میں نکالنے اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی وائرسا کٹنگ لے کر آئیں لیکن اس کے لیے انہیں حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔‘ مہمند کی ہی ایم نذیر ماربل فیکٹری کے مالک معشوق علی بتاتے ہیں کہ انہیں بیرونِ ملک سے بڑے سائز میں ماربل کی فراہمی کے آرڈر موصول ہو رہے ہیں لیکن جدید مشینری نہ ہونے کی وجہ سے ماربل کے بڑے بلاک بنانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ’ہمارے ہاں سرمایہ کار آرہے ہیں غیر ملکی سرمایہ کار بھی آرہے ہیں، ابھی کورین سرمایہ کار یہاں آئے ہوئے تھے جو یہاں سے ماربل کے نمونے لے کر گئے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جلد ماربل کی خریداری کے لیے آرڈر دیں گے۔ کچھ چینی یہاں سے بٹرفلائی ماربل کے بلاک لے کر جانا چاہ رہے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں کہ اتنے بڑے بلاکس بنائے جائیں۔‘ماہرین اور ماربل کی صنعت کے سٹیک ہولڈرز کے مطابق علاقے کی بڑی آبادی ماربل کی کان کنی اور فروخت سے جُڑی ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے سابق گورنر انجینیئر شوکت علی جو خود بھی باجوڑ کی ایک بڑی کان کے مالک ہیں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جو ٹرک والا ماربل لے کر جاتا ہے وہ بھی اس کان سے جُڑا ہے، رستے میں آنے والے پیٹرول پمپ کے مالک اور ملازمین بھی اس تجارت سے وابستہ ہیں۔‘
’باجوڑ میں اگر انڈسٹریل زون بن گیا تو مقامی سطح پر تقریباً ایک لاکھ افراد کو روزگار ملے گا‘ (فوٹو: اردو نیوز)
ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں کی مشینری کے مالک اور ڈرائیور اس سے منسلک ہیں اور ماربل کاٹنے والے کاریگروں کے خاندان بھی اس خزانے سے جُڑے ہوئے ہیں۔‘مقامی سماجی رہنما وفاقی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر باجوڑ اور مہمند کے علاقے میں ماربل ڈیویلپمنٹ انڈسٹریل زون بنا دیا جائے تو اس سے نہ صرف یہ کہ مقامی افراد کو روزگار ملے گا بلکہ حکومت کو بھی فائدہ حاصل ہو گا۔باجوڑ کے مشر ملک شاہین خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’اگر یہ انڈسٹریل زون بن گیا تو مقامی سطح پر تقریباً ایک لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔‘پاکستان میں ماربل کی کتنی اقسام ہیں؟عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ’صرف ضلع مہمند میں ماربل کی 20 اقسام ہیں جن میں سے سب سے اچھا زیارت وائٹ ماربل ہے۔‘معشوق علی نے بتایا کہ ’زیارت وائٹ کے علاوہ زیارت گرے، زیارت سپریم، ریڈ اینڈ وائٹ، زیارت سپر وائٹ اور زیارت بادل کی اقسام زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔‘حکام معدنیات ڈیپارٹمنٹ باجوڑ کے مطابق ’یہاں ماربل کے علاوہ 14 اقسام کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں جن میں ماربل کے بعد سب سے زیادہ گرینائٹ کی پیداوار ہوتی ہے۔‘ماربل کی پہچان کا طریقہ کیا ہے؟عبدالرحمان نے بتایا کہ ’ماربل کے پہاڑوں کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے اوپر سے گِر کر نیچے آنے والے پتھروں کو جانچا جائے۔ ماربل کا پتھر دیکھنے پر خود بخود بتا دیتا ہے کہ وہ خاص پتھر ہے کیونکہ اس کی چمک دمک الگ ہوتی ہے۔‘مصطفٰی خان جیسے نوجوان انہی پتھروں میں اپنے مستقبل کے خوابوں کو جگمگاتا دیکھ رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں اس سے نہ صرف ان کی زندگیاں بدلیں گی بلکہ ان کے خطے اور ملک کی تقدیر بھی بدلے گی۔