Getty Imagesپنجاب میں مہاراجا رنجیت سنگھ ایک ہزار سال میں پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کے روایتی فاتحین، پشتونوں (افغانوں)، کی یلغارپسپا کی
یہ تحریر ابتدائی طور پر دسمبر 2021 میں شائع کی گئی جسے آج دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہندوستان میں مغل سلطنت بس نام ہی کو رہ گئی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے برطانوی توسیع کی سرخ لہر پنجاب کی سرحدوں تک تقریباً پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔
پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ گذشتہ ہزار سال میں پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کے روایتی فاتحین پشتونوں (افغانوں) کی یلغارپسپا کی۔
غیر ملکی حملہ آوروں کو شکست دیتے اور مقامی علاقوں کو زیرِ نگیں کرتے ان کا راج شمال مغرب میں درّہ خیبر سے مشرق میں دریائے سُتلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف (عظیم ہندوستانی) صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور صدر مقام تھا۔
جب 27 جون 1839 کو رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو لاہور ریاست کا رقبہ دو لاکھ مربع میل سے کچھ زیادہ تھا۔ دولت اور سکھوں، مسلمانوں اور ہندوؤں پر مشتمل تنخواہ دار، منظم اور بھاری معاوضے پر رکھے گئے یورپی جرنیلوں کی تربیت یافتہ فوج پاس تھی۔
تب تک انگریز اور مہاراجہ 25 اپریل 1809 کے معاہدہ امرتسر پر قائم تھے جس کے تحت انگریزوں نے ستمبر 1808 تک فتح کیے گئے علاقوں پر مہاراجہ کی حاکمیت تسلیم کی تھی اور مہاراجہ نے خود کو سُتلج دریا کے دائیں کنارے تک محدود رکھنے کا عہد کیا تھا۔
لیکن تاریخ دانوں کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب پر قبضہ تو چاہتی تھی مگر مناسب وقت کی منتظر تھی۔
مؤرخ ہری رام گپتا لکھتے ہیں، ’انیسویں صدی کی دوسری دَہائی میں ہندوستان کی برطانوی حکومت مشرق اور شمال مغرب دونوں طرف توسیع کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ شمال مغرب میں برطانوی مملکت کی توسیع کے لیے 1828 میں (کلکتہ کے بعد) شملہ میں دوسرا دارالحکومت قائم کیا گیا۔ اکتوبر 1831 میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک نے روپڑ میں رنجیت سنگھ سے ملاقات کی۔ ان کا عمومی تاثر یہ رہا کہ ایک دہائی میں رنجیت سنگھ کے بعد سکھوں کی ریاست پکے آم کی طرح ہلکے سے جھٹکے سے ان کے ہاتھ لگ جائے گی۔‘
تاریخ کے استاد کرنیل سنگھ لکھتے ہیں کہ ’روپڑ میں ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریزوں نے 1832 میں سندھ کے امیروں کے ساتھ جہاز رانی کا تجارتی معاہدہ کیا۔ یہ 1843 میں اس صوبے پر مستقبل کی فتح کا محض ایک بہانہ تھا۔ لاہور سے بمشکل 40 میل کے فاصلے پر واقع فیروز پور کا قصبہ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی حاکمیت میں تسلیم کیا تھا، لیکن تزویراتی اہمیت کی حامل اس جگہ پر انگریزوں نے 1835 میں سردارنی لچھمن کور کی موت پر قبضہ کر لیا اور اسے چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا۔‘
مؤرخ ڈاکٹر گنڈا سنگھ اپنی کتاب ’پنجاب میں تحریک آزادی کی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں: اس طرح کی سازشوں اور دوغلے پن نے رنجیت سنگھ کے انگریزوں پر اعتماد کو متزلزل کر دیا تھا۔ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں اپنی نفرت کا اظہارکرتے ہوئے ایک مسیحی مبلغ ریورنڈ ڈاکٹر جوزف وولف سے کہا، ’آپ کہتے ہیں کہ آپ مذہب کی خاطر سفر کرتے ہیں؛ پھر آپ ہندوستان میں ان انگریزوں کو تبلیغ کیوں نہیں کرتے جن کا کوئی مذہب نہیں۔ جب مبلغ نے موضوع کو سیاست سے مذہب کی طرف موڑنے کی کوشش کی اور دریافت کیا کہ ’کوئی خدا کے قریب کیسے آ سکتا ہے؟‘ تو مہاراجہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا، ’برطانوی حکومت کے ساتھ ایسا اتحاد کر کے جیسا کہ میں نے حال ہی میں روپڑ میں لارڈ نواب صاحب (گورنر جنرل) کے ساتھ کیا تھا۔‘
Getty Imagesمہاراجہ رنجیت سنگھ نے انگریزوں سے معاہدہ کر رکھا تھا مگر بعد میں اُن کا اعتبار اٹھ گیا تھا
رنجیت سنگھ جب تک زندہ رہے، ریاست متحد رہی۔ مؤرخ امرپال سنگھ لکھتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد ان کے ورثا اس قابل نہ تھے کہ ریاست چلا سکیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد مہارانی دتار کور سے ان کے پہلے بیٹے اور وارث کھڑک سنگھ نے تخت سنبھالا۔
سنہ 1812 سے جموں کا علاقہ ان کی جاگیر تھا۔ 20 جون 1839 کو انھیں ولی عہد نامزد کیا گیا تھا مگر ان میں اپنے باپ جیسی کوئی صلاحیت نہیں تھی۔ وہ افیون کے رسیا تھے۔ دن کا بڑا حصہ افیون کے نشے میں گزرتا تھا۔ کمپنی کے ایک مشہور افسر الیگزینڈر برنس نے تحریری طور پر انھیں ’بے وقوف‘ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ لیکن کلاڈ مارٹن ویڈ جنھوں نے لاہور دربار کے ساتھ 16 سال سے زائد عرصہ تک کام کیا، نے کھڑک سنگھ کا ذکر ایک ’نرم خو‘ شخص کے طور کیا، جنھیں ’ان کے زیر کفالت افراد پیار کرتے تھے۔‘
رنجیت سنگھ نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ وزارت عظمیٰ دھیان سنگھ ڈوگرا کو دی جائے گی، مگر کھڑک سنگھ نے اپنے ایک قریبی دوست چیت سنگھ کو اپنا مقرب خاص بنا لیا اور ڈوگرا سرداروں دھیان سنگھ، سوچیت سنگھ اور گلاب سنگھ کو نظرانداز کر دیا۔ قلعہ لاہور میں ان کی آمد و رفت محدود کر دی گئی۔ ڈوگرا جوڑ توڑ کے ماہر تھے، خالصہ فوج ان کے ہاتھ میں تھی سو انھوں نے سازشوں کا جال بچھا دیا۔
لاہور میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ مہاراجہ کھڑک سنگھ نے انگریزوں سے معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت انگریز خالصہ علاقہ جات سے مالیہ و آبیانہ اور دیگر واجبات وصول کریں گے، جس کے عوض انگریزوں کو ایک روپے میں سے 6 آنے معاوضہ دیا جائے گا۔
سکھ اُمرا ان ریاستوں کا انجام دیکھ چکے تھے جو انگریزوں سے معاہدوں کے باعث ان کی غلامی میں چلے گئے تھے۔ انھوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ چیت سنگھ نے اس خبر کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ یہ افواہ ڈوگروں نے اڑائی ہے اور اُنھیں اس کی سزا ملے گی۔
گلاب سنگھ ڈوگرا اور دیگر سرداروں نے کھڑک سنگھ کی بیوی چاند کور اور ان کے بیٹے نونہال سنگھ کو باور کروایا کہ سکھ حکومت کی بقا کے لیے لازم ہے کہ کھڑک سنگھ کو معزول کیا جائے اور نونہال سنگھ کو راجا کی گدی پر بٹھایا جائے۔
چاند کور اور نونہال سنگھ نے اس تجویز کو مان لیا، مگر انھوں نے کھڑک سنگھ کی زندگی کی شرط عائد کر دی۔ پانچ اکتوبر 1839 کی رات دھیان سنگھ، اپنے بھائیوں سوچیت سنگھ اور گلاب سنگھ، اپنے بیٹوں ہیرا سنگھ اور لال سنگھ سمیت دیگر رفقا کے ہمراہ شیش محل کے ساتھ کھڑک سنگھ کی خواب گاہ میں داخل ہوئے۔
Getty Imagesمہارانی جند کور یا جندن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کم عمر ترین اہلیہ جن کے بیٹے دلیپ سنگھ سکھ سلطنت کے آخری حکمران بنے
کھڑک سنگھ نے مزاحمت کی مگر مہارانی چاند کور اور نونہال سنگھ نے کنیزوں کے ساتھ مل کر انھیں بے بس کر دیا اور گرفتار کر لیا گیا، جبکہ ان کے مقرب خاص چیت سنگھ کو ان کے اہل و عیال اور دوستوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اگلے دن نونہال سنگھ کی حکومت کا اعلان کیا گیا۔ مہاراجا نونہال سنگھ نے دربار میں نجومی اور جوتشی بلوائے۔ انھوں نے خوشخبری دی کہ وہ اپنے دادا رنجیت سنگھ کی طرح عظیم الشان حکمران ثابت ہوں گے اور ان کی سلطنت کی حدود میں دہلی اور بنارس بھی شامل ہوں گے۔
مہاراجہ نے ان نجومیوں اور جوتشیوں کو انعام و اکرام سے نوازا۔ حکومت کے اصل اختیارات وزیر اعظم دھیان سنگھ کے ہاتھ میں تھے نونہال صرف ایک کٹھ پتلی کی طرح تھے۔ اُن میں سیاسی تدبر اور صلاحیت کا فقدان تھا اور سیر و شکار کے علاوہ کسی کام میں دلچسپی نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیے
رنجیت سنگھ کی زندگی میں آنے والی اہم خواتین
وہ مسلمان لڑکی جس کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو کوڑے کھانے پڑے
’مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور مذہبی مساوات کا نمونہ‘
کھڑک سنگھ معزول ہونے کے بعد 10 ماہ تک زندہ مگر اندرون لاہور کی ایک حویلی میں نظربند رہے۔ نومبر 1840ء کے ابتدائی ایام میں کھڑک سنگھ کے بار بار بلانے پر نونہال سنگھ صرف ایک بار انھیں ملنے آئے مگر بدتمیزی سے اپنے باپ سے گفتگو کی، انھیں سکھ قوم کا غدار اور انگریزوں کا وفادار کہا۔
وہاں جوالا سنگھ نام کا ایک حکیم مقرر کیا گیا جو دھیان سنگھ کا ایک خاص آدمی تھا۔ اُس نے معزول مہاراجہ کو زہر دیا جس کے نتیجے میں وہ پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر پانچ نومبر 1840 کو وفات پا گئے۔
مہاراجہ کی وفات کا اعلان قلعہ لاہور میں توپیں چلا کر کیا گیا۔ مہاراجہ کھڑک سنگھ کی چتا میں دو بیواؤں اور سات کنیزوں نے ستی ہونا قبول کیا۔ جب یہ عورتیں چتا میں بٹھائی گئیں تو وزیر اعظم دھیان سنگھ نے ان سے کہا کہ نوجوان راجہ (نونہال سنگھ) کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کریں، مگر وہ چپ رہیں۔
کھڑک سنگھ کی چتا جلانے کے روز ہی نونہال سنگھ قلعہ لاہور کی دیوار گر جانے کے باعث زخمی ہوئے اور جانبر نہ ہو سکے۔
مشہور سکھ مصنف ہربنس سنگھ نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ابھی کھڑک سنگھ کی لاش کو جلے ہوئے تھوڑا سا وقت ہوا تو مہاراجہ نونہال سنگھ نے امرا کے ہمراہ قلعے واپسی کا قصد کیا کیونکہ وہ چتا کی سخت گرمی برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔
انھوں نے دریائے راوی کے کنارے بنائے گئے تالاب میں غسل کیا اور قلعے کی جانب چل پڑے۔ وہ اپنے دوستوں اور رفقا کے ہمراہ چل رہے تھے کہ روشنائی دروازے کی پرانی اور بوسیدہ عمارت ان پر آن گری جس کے نیچے دب کر نونہال سنگھ اور اُدھم سنگھ (گلاب سنگھ کا بیٹا) دونوں زخمی ہو گئے۔ اُدھم سنگھ موقع پر ہلاک ہو گئے مگر نونہال سنگھ زندہ تھے۔ وہ نیم بے ہوش تھے۔ وزیر اعظم دھیان سنگھ نے پالکی میں مہاراجہ کو قلعہ منتقل کیا۔ حکیموں اور ویدوں نے سرتوڑ علاج کیا مگر اہالیان لاہور نے تیسرے دن ان کی موت کی خبر سنی۔
مؤرخین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا یہ موت وزیر اعظم دھیان سنگھ کی سازش سے ہوئی یا یہ اتفاقی حادثہ تھا۔
البتہ جن پالکی برداروں نے مہاراجہ نونہال سنگھ کو روشنائی دروازے سے زخمی حالت میں اٹھا کر ان کی خواب گاہ تک پہنچایا تھا ان میں سے دو پالکی بردار وحشیانہ انداز میں قتل کر دیے گئے۔ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر گلے کاٹے گئے تھے جبکہ دو پالکی بردار منظر سے غائب ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئے، اُنھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
مؤرخ پریا اٹوال کہتی ہیں ’بہرحال، نومبر 1840 کے وسط تک کھڑک سنگھ مبینہ طورپر زہر دیے جانے سے اور نونہال سنگھ پتھر گرنے سے مر چکے تھے۔ ان واقعات نے ایک ایسی سلطنت کو دو مزید جھٹکے لگائے جو پہلے ہی اپنے توازن کو بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔‘
نونہال سنگھ لاولد تھے۔ ان کی ماں چاند کور نے افواہ پھیلا دی کہ ان کی بہو صاحب کور عرف بی بی نانکی امید سے ہیں اور اس آنے والے بچے کے نام پر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی اور ملکہ مقدس کا خطاب اختیار کیا۔
Getty Imagesمہاراجہ رنجیت سنگھ کے کم عمر ترین بیٹے اور سکھ سلطنت کے آخری حکمران دلیپ سنگھ
اس دور میں سندھیانوالہ سرداروں اجیت سنگھ اور اوتار سنگھ کو عروج حاصل ہوا۔ ان کی ترقی سے دھیان سنگھ ڈوگرا کو اپنی وزارت عظمیٰ خطرے میں دکھائی دی۔ اس لیے انھوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ تیرہ جنوری 1840 کو شیر سنگھ نے اپنی فوج اور 45 توپوں کے ہمراہ قلعہ لاہور کا محاصرہ کر لیا۔
چاند کور کی حمایت سندھیانوالہ سردار اور دھیان سنگھ کے بھائی گلاب سنگھ (حاکم جموں و کشمیر) کر رہے تھے۔ چاند کور کے پانچ ہزار فوجی شیر سنگھ سے جا ملے۔ جنگ تقریباَ چار دن جاری رہی، لاتعداد سپاہی اور معصوم و نہتے شہری قتل و غارت کا نشانہ بنے۔ توپوں کے گولوں سے قلعہ لاہور کو نقصان پہنچا۔ لاہور میں کئی دکانیں اور مکانات جلا دیے گئے، شہریوں کو لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا اور لاتعداد افراد زندہ جلا دیے گئے۔
سترہ جنوری 1840 کو وزیر اعظم دھیان سنگھ منظر عام پر آئے، جنگ بندی کا حکم نامہ جاری کیا اور فریقین میں ایک معاہدہ طے پایا۔
اس کے تحت مہارانی چاند کور کو شیرسنگھ کے حق میں حکومت کے اُمور سے بے دخل کیا گیا۔ اس قتل و غارت سے نہ تو چاند کور کو کچھ ملا نہ شیر سنگھ کو، کیونکہ بقول مؤرخ قیمتی سامان ڈوگرے لے گئے، شیر سنگھ کو کیا ملا؟ جلا، کٹا، پھٹا اور اجڑا ہوا لاہور۔
چاند کور اندرون لاہور میں نونہال سنگھ کی حویلی میں منتقل ہو گئی تھیں۔ جولائی 1841ء کو نونہال سنگھ کی بیوہ صاحب کور نے ایک مردہ بیٹے کو جنم دیا جس کا چاند کور کو سخت صدمہ ہوا۔ انھوں نے اپنی تمام تر بدقسمتی کا ذمہ دار دھیان سنگھ کو قرار دیا جس کی وجہ سے دھیان سنگھ ان کے دشمن بن گئے۔
Getty Imagesسنہ 1846 میں علی وال کے مقام پر انگریزوں اور سکھوں کی جنگ کا منظر
چاند کور کو ان کی نوکرانیوں نے پتھر مار کر ہلاک کر دیا اور فرار ہو گئیں۔ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار نوکرانیوں نے سرِ دربار یہ کہا کہ مہارانی کا قتل شیر سنگھ کے حکم پر کیا گیا ہے مگر دھیان سنگھ نے ان کی بات نہ سنی اور نوکرانیوں کے ناک اور کان کاٹ کر دریائے راوی میں پھنکوا دیا۔
شیر سنگھ اپنا دربار لاہور سے کچھ دور شاہ بلاول کے مقام پر منعقد کرتے تھے۔ ایک روز سندھیانوالہ سردار شیر سنگھ کے پاس گئے اور اُن سے وعدہ لیا کہ ان کی معلومات کو راز رکھا جائے گا۔ اُنھوں نے مہاراجہ کو فرضی واقعہ سنایا کہ دھیان سنگھ یہ چاہتے ہیں کہ سندھیانوالہ سردار مہاراجہ شیر سنگھ کو قتل کر دیں اور دلیپ سنگھ کو تخت نشین کروایا جائے۔ اس پر مہاراجہ نے بغیر تصدیق کیے سندھیانوالہ سرداروں کواجازت دی کہ وہ موقع ملتے ہی دھیان سنگھ کو قتل کر دیں۔ سندھیانوالہ سرداروں نے دھیان سنگھ سے ملاقات کی اور انھیں یہی پروانہ دکھا کر دوستی کا اظہار کیا۔
ایک روز دربار لگا ہوا تھا۔ مہاراجہ نے پہلوانوں کی کُشتیاں دیکھیں اور اُنھیں انعامات دیے۔ اُن کے بیٹے پرتاب سنگھ ساتھ تھے جو متوقع ولی عہد تھے۔ دھیان سنگھ نے مُلکی اُمور کے سلسلہ میں مہاراجہ سے لاہور جانے کی اجازت مانگی جو انھیں دے دی گئی۔
دھیان سنگھ کے جانے کے بعد سندھیانوالہ سردار اپنے فوجی دستوں کے ہمراہ پہنچ گئے۔ اُنھوں نے مہاراجہ سے فوج کے معائنہ کی درخواست کی اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جدید قسم کی بندوق دکھائی۔ جب مہاراجہ بندوق دیکھنے میں مصروف تھے تو سردار نے بندوق کا گھوڑا دبا دیا۔ بندوق چل گئی اور مہاراجہ یہ کہہ کر ڈھیر ہو گئے کہ ’تُو نے دغا کیا۔‘
سندھیانوالہ سرداروں نے ان کا سر کاٹ لیا اور بیٹے پرتاب سنگھ کو بھی ذبح کر دیا۔ یہ کٹے ہوئے سر لے کر وہ لاہور میں داخل ہوئے۔ دھیان سنگھ ڈوگرا کو کٹے ہوئے سر دکھائے اور قلعے چلنے کو کہا۔ جوں ہی وہ قلعہ لاہور میں داخل ہوئے، اُن کے اشارے پر دھیان سنگھ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور ان کا سر کاٹ کر قلعے کے ملازمین کو دکھا دیا۔
مہاراجہ، راج کمار اور وزیر اعظم کے کٹے ہوئے سر دیکھ کر لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ سندھیانوالہ سرداروں نے نو عمر دلیپ سنگھ کے راجہ ہونے اعلان کر دیا۔
محقق حامد رضا وٹو کہتے ہیں کہ دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ نے رنجیت سنگھ اور مہارانی جند کور کے سب سے چھوٹے بیٹے جن کی عمر پانچ سال تھی کو پنجاب کے سنگھاسن پر بٹھا دیا اورخود ان کے وزیر بن گئے۔
دلیپ سنگھ سکھ سلطنت کے آخری مہاراجہ تھے۔ تب تک خالصہ (سکھ فوج) طاقتور ہو چکی تھی اور ان افسروں اور جرنیلوں کے سامنے کوئی بھی مخالف بات کہنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
Getty Imagesہینری ہارڈنج جو پہلی اینگلو سکھ جنگ کے دوران انڈیا کے گورنر جنرل تھے
وٹو، جن کی کتاب ’چراگاہوں سے چاہوں تک‘ شائع ہونے کو ہے، کہتے ہیں: رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سازش اور افراتفری کے ماحول میں ان کی خالصہ فوج نے کافی طاقت پکڑ لی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی جس کے لیے اُس نے پانچ افراد پر مشتمل ایک پنچایت بنائی۔ پنچایت کی مخالفت پر دلیپ سنگھ کے وزیر ہیرا سنگھ کو بھی مروا دیا گیا اور ان کی جگہ جواہر سنگھ کو وزیر بنا دیا گیا۔
امر پال سنگھ لکھتے ہیں: ’رنجیت سنگھ کی موت کے بعد انتشار کے ساتھ ساتھ فوج کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور اقتدارایک شخص سے دوسرے کو پرتشدد طریقے سے منتقل ہوتا رہا۔ ہر حکمران فوج کی حمایت کے لیے اسے رشوت دیتا مگر دوسرا خواہش مند زیادہ مراعات کا وعدہ کرتا تو پہلے کی چھٹی ہو جاتی۔
صاحب اقتدار فوج سے ڈرتا اور پنچایت پر منحصر رہتا۔ یہ سازشیں ستمبر 1845 تک یوں ہی چلتی رہیں جب مہارانی جند کور کے بھائی جواہر سنگھ کو لاہور میں فوج کے سامنے طلب کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ان کے قتل کے بعد وہ شخصیات سامنے آئیں جنھیں انگریزوں کے ساتھ جنگ میں ریاست کو چلانا تھا۔‘
نومبر میں لال سنگھ دلیپ سنگھ کے وزیر اعظم بنا دیے گئے جن کے مہارانی سے قریبی تعلقات تھے۔ جنرل تیج سنگھ کو سکھ فوج کی کمان ملی۔ کشمیر میں طاقت گلاب سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔
وٹو کا کہنا ہے کہ لاہور دربار میں ہونے والی تبدیلیوں اور خاص طور پر خالصہ فوج کی من مانیوں کی بنا پر ستلج کے پار انگریزوں کا ماتھا ٹھنکا اور انھوں نے کسی بھی خطرہ سے نمٹنے کے لیے فیروزپور کے علاقے میں اپنی فوجی طاقت بڑھانی شروع کر دی۔
لیکن مؤرخ گنڈا سنگھ کا مؤقف تھوڑا مختلف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ تیاری پہلے سے چل رہی تھی۔
Getty Imagesدوسری اینگلو سکھ جنگ کے دوران برطانوی فوجی ملتان میں داخل ہو رہے ہیں
گنڈا سنگھ کا کہنا ہے کہ لارڈ ایلنبرو جنھیں 1842 میں گورنر جنرل کے طور پر ہندوستان بھیجا گیا تھا ابھی برطانیہ ہی میں تھے جب انھوں نے 15 اکتوبر 1841 کو ڈیوک آف ویلنگٹن کو لکھا، ’میں ان عام اصولوں کے بارے میں آپ کی رائے جاننے کے لیے بے چین ہوں، جن کی بنیاد پر پنجاب کے خلاف مہم جوئی کی جائے۔‘
سنہ 1844 میں بہت سی جنگوں کا تجربہ لیے سر ہنری ہارڈنج کو گورنر جنرل بنایا گیا۔ جنگ سے پہلے اگلے 16 ماہ کے دوران سر ہنری نے پنجاب کی سرحد پر پہلے سے جمع افواج اور اسلحے میں مسلسل اضافہ کیا۔ ہارڈنج کے کمانڈر ان چیف سرہیوگف تھے۔
امر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ سنہ 1843 میں برطانوی حکومت نے بمبئی میں ساٹھ لوہے کی کشتیاں بنانے کا آرڈر دیا تاکہ جب ضرورت پڑے انھیں پل بنا کر ستلج پر لاہور ریاست کی سرحد عبور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ گیارہ کشتیوں پر توپیں نصب تھیں۔ چوالیس کشتیاں 1845 کے موسم گرما میں ستلج پر پہنچ چکی تھیں، چھ راستے میں کہیں کھو گئیں۔ اس سے ایک سال پہلے ستلج کے درمیان ایک جزیرے پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سکھوں کا اس پر احتجاج بے اثر رہا تھا۔
اب یہ کشتیاں لاہور سے صرف 60 کلومیٹر دور فیروز پور کے کھنڈا گھاٹ پر سکھ فوج کو دعوت اشتعال دے رہی تھیں۔ گو کہ کشتیوں کا مسلح ہونا واضح تھا، فیروزپور کے مقامی ایجنٹ میجر جارج براڈفٹ سے خفیہ طور پر کہا گیا کہ وہ سکھ عمال کو یقین دلائیں کہ کشتیاں صرف فیروزپور سے سکھر اناج لے جانے کے لیے ہیں۔
وٹو کہتے ہیں کہ خالصہ فوج کو انگریزوں کا یہ جارحانہ اقدام پسند نہ آیا اور اس نے 11 دسمبر 1845 کو ستلج دریا عبور کر کے انگریزی فوج کو زیر کرنے کی کوشش کی۔
سید محمد لطیف تاریخ پنجاب میں لکھتے ہیں 18 دسمبر 1845 کو فیروزپور سے 20 میل جنوب مشرق کی جانب مدکی کے مقام پر پہلی جنگ میں جب لڑائی جاری تھی تو لال سنگھ نے اپنے اصل منصوبے کے مطابق سکھوں کو اپنی بہادری پر بھروسہ کرتے لڑتے چھوڑ کر اچانک میدان چھوڑ دیا۔ یہ لڑائی گرد و غبار کے بادلوں کے درمیان، تاروں کی نیم شبی میں ڈیڑھ گھنٹا جاری رہی۔
حامد وٹو کے مطابق دسمبر 1845 اور جنوری 1846 میں مدکی، فیروز شاہ، بدووال اورعلی وال میں خوں ریز جھڑپیں ہوئیں۔
ان کا اختتام سوبراؤں گاؤں کے قریب سکھ فوج کی شکست سے ہوا۔
Getty Imagesبرٹش انڈین آرمی پہلی اینگلو سکھ جنگ کے دوران دریائے ستلج عبور کرتے ہوئے
سوبراؤں کی لڑائی (10 فروری 1846) میں سکھ دریائے ستلج کے مشرقی انگریزوں کے زیر قبضہ کنارے پر جمے ہوئے تھے، ان کی پسپائی کو کشتیوں کے ایک پل سے ممکن بنایا گیا۔ توپ خانے سے سکھوں کی فوجوں پر حملہ کر دیا گیا۔ کشتیوں کا پل ٹوٹ گیا۔
دس ہزار سے زیادہ سکھ دریا عبور کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔ انگریزوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، 2,383 ہلاک یا زخمی ہوئے۔ مزید مزاحمت ناممکن تھی اور شمال مغربی ہندوستان میں پنجاب کی سکھ ریاست برطانوی تسلط میں آ گئی۔
فیروز شاہ کی جنگ میں برطانوی فوج نے خود کو پھنس کر تباہی کے قریب پایا۔ پیچھے ہٹنے سے انکار کرتے ہوئے برطانوی کمانڈر ان چیف سر ہیو گف نے اپنے سیکنڈ ان کمانڈ سے کہا: ’میرا ذہن تیار ہے۔ اگر ہمیں فنا ہونا ہی ہے تو ہماری ہڈیاں فیروز پور میں سڑنے سے بہتر ہے کہ فیروز شاہ میں باعزت طریقے سے ٹھکانے لگیں۔‘ مؤرخ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی قسمت کا فیصلہ اسی دن ہو گیا تھا۔
تاریخ دانبل وائٹ برن اپنی کتاب ’خطرے کی روشن آنکھیں: اینگلو-سکھ جنگوں کا حساب کتاب 1845-1849‘ میں لکھتے ہیں کہ کمان میں غداروں کے باوجود سکھوں نے ناقابل تسخیر برطانوی فوج کو ناکوں چنے چبوائے۔ فیروز شاہ کی جنگ واٹر لو کے مقابلے میں زیادہ قریب تھی کیونکہ برطانوی ہندوستانی سلطنت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔
Getty Imagesسوبراؤں کی لڑائی
تاہم یہاں تیج سنگھ نے بقول سید محمد لطیف کے اپنے ساتھیوں کے مشورہ کے برعکس انگریزوں پر صبح کے وقت حملے میں جان بوجھ کر تاخیر کی اور اس وقت تک میدان میں نہیں آیا جب تک سکھ فوج کو مکمل طور پر شکست نہیں ہو گئی۔ اس کا مقصد سرکش خالصہ فوج کو منتشر اور مرعوب کرنا تھا، اس نے انگریزوں کی فتح کو مکمل کر دیا۔
وٹو کہتے ہیں کہ پہلی سکھ جنگ کے خاتمے کے بعد انگریزوں نے سکھ دربار سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈ ہرجانہ طلب کیا۔
دربار نے جرمانہ ادا کرنے کی سکت نہ پاتے ہوئے سُتلج اور بیاس کے درمیان واقع جالندھر دوآب اور بیاس اور سندھ کے درمیان واقع پہاڑی علاقے بشمول کشمیر انگریزوں کے حوالے کر دیے۔ انگریزوں نے 16 مارچ 1846 کو امرتسر میں ایک معاہدے کے تحت کشمیر کا علاقہ 75 لاکھ نانک شاہی روپوں کے عوض جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا۔
بل وائٹ برن کا کہنا ہے کہ پہلی جنگ کے اختتام پر بہت سے لوگوں کو پنجاب پر انگریزوں کے الحاق کی توقع تھی، لیکن گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنج نے اس کے بجائے ایک نیم خود مُختار سکھ ریاست کا انتخاب کیا، سب سے زیادہ پیداواری صوبے جالندھر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور کشمیر کو ’ہندوستان کے سب سے بڑے بدمعاش‘ کو بیچ دیا۔
انگریزوں نے ہنری لارنس کی قیادت میں لاہورمیں ایک ریجنسی قائم کر دی جسے اُمور چلانے کے مکمل اختیارات سونپ دیے۔ رانی جند کور نے اس کے خلاف عوامی سطح پر سکھ خالصہ لہر بیدار کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ اپریل 1848 میں ملتان میں دیوان مول راج کی بغاوت اور دو انگریز افسروں کے قتل کی صورت میں نکلا۔
انگریزوں نے رانی کو لاہور بدر کر کے ستلج پار بھجوا دیا۔ مئی 1848 میں مہارانی جند کور کی پنجاب سے بے دخلی کے بعد جسے لارڈ ڈلہوزی نے 31 جنوری 1849 کو بریگیڈیئر ماؤنٹین کو لکھتے ہوئے کہا تھا، ’وہ واحد شخص ہے جس میں مردانہ صلاحیت موجود ہے' پنجاب کے الحاق کا مرحلہ بالآخر انگریزوں نے طے کر لیا۔
Getty Images
سنہ 1849 کے شروع میں جہلم اور گجرات کے بیچ چناب کے کنارے واقع رام نگر، سعداللہ پور، چیلیاں والا اور بعد میں گجرات کے مقام پر سکھوں اور انگریزوں کے مابین خوں ریز معرکے ہوئے جن میں ابتدا میں انگریزوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، تاہم سکھ فوج نے 12 مارچ کو ہتھیار ڈال دیے اور پنجاب بھر میں سکھ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
غداری، المیہ اور دونوں طرف کی ناقابل یقین بہادری ان جنگوں کی خصوصیات تھیں مگر ہندوستان کے لیے چھ لڑائیاں: اینگلو سکھ جنگیں میں جارج بروس لکھتے ہیں کہ برطانوی افواج تباہ ہونے کے کس حد تک قریب تھیں اور سکھوں کی صفوں میں غداری کے ذریعے اُنھیں کیسے بچایا گیا۔
گنڈا سنگھ کا کہنا ہے کہ گلاب سنگھ ڈوگرا، تیج سنگھ، لال سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی خدمات انگریزوں نے پہلے ہی حاصل کر رکھی تھیں۔ پہلے کو جموں اور کشمیر کے صوبوں کی حکم رانی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی اور بعد الذکردونوں جو اتر پردیش اور روہتاس کے کرائے کے فوجی تھے کو بالترتیب کمانڈر ان چیف اور وزیر اعظم بنانے کی ضمانت دی گئی تھی۔
بالآخر 31 مارچ 1849 کو ایک حکم نامہ کے تحت خطہ پنجاب باقاعدہ طور پر انگریزوں کی تحویل میں چلا گیا۔