’دیا، دروازہ توڑ دو۔‘
انڈیا اور پاکستان کے باسیوں کو یہ ڈائیلاگ بہت آسانی سے یاد آ جائے گا جو مقبول جاسوسی ڈرامے سی آئی ڈی کے ہیں جو 1998 سے 2018 کے درمیان لگاتار ٹی وی سکرینز کی زینت بنا رہا۔
یہ انڈیا کے سب سے طویل عرصے تک چلنے والے ٹی وی شوز میں سے ایک ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو تو اس شو میں تین پولیس اہلکار اے سی پی پرادیومان، انسپیکٹر دیا اور انسپیکٹر ابھیجیت ایک کے بعد ایک پیچیدہ کیس کی گتھی سلجھاتے ہیں اور کوئی بھی مجرم ان سے بچنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔
اس کم بجٹ میں بنائے گئے ڈرامے کی کہانیاں کچھ زیادہ ہی سادہ اور کبھی کبھار مضحکہ خیز لگتی تھیں اور اس میں کی گئی اداکاری بھی غیر معمولی نہیں تھی۔ کبھی کبھار کسی ملزم کو اپنا جرم ماننے کے لیے صرف اے سی پی پرادیومان کا ایک تھپڑ ہی کافی ہوتا تھا۔
تاہم پھر گذشتہ کئی سالوں کے دوران رفتہ رفتہ یہ شو انڈیا میں میمز، مزاح اور ریلز کا حصہ بننے لگا۔
سی آئی ڈی ایک بار پھر رواں مہینے ٹی وی سکرین پر واپس آ رہا ہے اور اس بارے میں اس ڈرامے کے چاہنے والے مِلے جُلے تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے من پسند سی آئی ڈی کے اہلکاروں کو ایک بار پھر ٹی وی پر دیکھنے کے لیے بےقرار ہیں، جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب شاید سی آئی ڈی جدید دور کے کرائم شوز کا مقابلہ نہ کرپائے۔
گذشتہ کئی دنوں سےڈرامہ ساز اس ڈرامے کے ٹریلرز انسٹاگرام پر جاری کر رہے ہیں اور ان کی ہر ویڈیو پر ہزاروں لائکس اور کمنٹس ہوتے ہیں۔
ان ٹریلرز میں ڈرامے کے تین مرکزی کردار اے سی پی پرادیومان، انسپیکٹر ابھیجیت اور انسپیکٹر دیا اپنے مشہورِ زمانہ ڈائیلاگ بولتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ان ٹریلرز میں کہیں اے سی پی پرادیومان انسپیکٹر دیا کو 'دروازے ٹوڑنے' کا حکم دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں تو کہیں اپنا مشہورِ زمانہ ڈائیلاگ 'کچھ تو گڑبڑ ہے دیا' بولتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والی انسٹاگرامر تریشا شاہ کہتی ہیں کہ ان ٹریلرز کو دیکھ کر انھیں پرانا دور یاد آ گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'ماضی میں سی آئی ڈی ان چند ٹی وی شوز میں تھا جسے دیکھنے کی اجازت مجھے والدین نے دے رکھی تھی کیونکہ یہ ایک ایسا ڈرامہ تھا جسے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا تھا۔'
'ایک کرائم ڈرامہ ہونے کے باوجود اس میں تشدد نہیں دکھایا جاتا تھا، جنسی جرائم نہیں دکھائے جاتے تھے اور نہ ہی اس میں گندی زبان استعمال ہوتی تھی۔'
ایک انٹرویو کے دوران سی آئی ڈی بنانے والی ٹیم کے ایک رُکن نے کہا تھا کہ اس ڈرامے میں انھوں نے کسی کردار کو بھی سر نیم نہیں دیا تھا کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ اس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔
تاہم اس ڈرامے کی عجیب کہانیاں پھر بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کرجاتی تھیں۔ کبھی اے سی پی پرادیومان مر کر دوبارہ زندہ ہوجاتے تھے اور کبھی انسپیکٹر دیا تن تنہا گیس سے بھرے کسی ہوائی جہاز کو زمین پر اُتارنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔
’کے ڈرامہ‘ کیوں دیکھا۔۔۔؟ دو لڑکوں کو 12 سال قید بامشقت کی سزارومانس سے بھرپور کامیڈی ڈراموں کا رواج پاکستان میں کہاں سے آیا؟’پنچایت‘: گاؤں کی زندگی پر بننے والا ڈرامہ انڈیا میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ کیوں بنا رہا ہے؟شازیل شوکت: پہلا ڈرامہ سائن کر کے گھر آئی تو ابو نے کہا کہ اپنی حدوں کا خیال رکھنا
فوربز میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سی آئی ڈی کے پروڈیوسر بی پی سنگھ نے کہا تھا کہ ان کے ڈراموں کی کہانیاں دراصل 'قابلِ یقین' مغالبہ آرائی پر مبنی ہوتی تھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'آپ ان کہانیوں پر بعد میں ہنس سکتے ہیں لیکن جب آپ یہ ڈرامے دیکھ رہے ہو تے ہیں تو پانچ منٹ کے لیے آپ اس کی کہانی میں بالکل ڈوب جاتے ہیں۔'
ان ڈراموں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کے کردار ہر جرم اور اس کو حل کرنے کے طریقوں کو انتہائی آسان طریقے سے ڈائیلاگ کے ذریعے سمجھاتے تھے۔
تریشا شاہ کہتی ہیں کہ 'اس ڈرامے میں سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہوتی تھی کہ بُرے لوگ ہمیشہ پکڑے جاتے تھے۔'
'مجھے نہیں لگتا کہ اب میں اس ڈرامے سے لُطف اندوز ہوں گی لیکن ماضی میں یہ ڈرامہ مجھے بہت پسند تھا۔'
1990 کی دہائی میں یہ ڈرامہ تفریح کا واحد ذریعہ ہوا کرتا تھا اس لیے انڈیا میں متعدد ٹی وی چینلز کو سی آئی ڈی نشر کرنے کے حقوق حاصل تھے۔
یونیوسٹی آف الینوئے کے میڈیا ڈپارٹمنٹ سے منسلک پروفیسر ہرش تنیجا کہتے ہیں کہ 'ابتدائی طور پر سٹار جیسے ٹی وی چینلز بے واچ، بولڈ اور دا بیوٹی فُل جیسے امریکی پروگرام نشر کر رہے تھے، پھر ذی ٹی وی اور سونی جیسے نئے چینلز نے انڈین ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے شوز بنانا شروع کر دیے۔'
وہ کہتے ہیں ان شوز کے کہانی سازوں نے مغربی طرز کی کہانیوں کو انڈین انداز میں پیش کیا اور سی آئی ڈی بھی امریکی ڈرامہ 'کرائم سین انویسٹگیشن' کی طرز پر بنایا گیا تھا۔
ہرش تنیجا کہتے ہیں کہ 1990 اور 2000 کی دہائی میں جب لوگوں کی قوتِ خرید بڑھی تو ٹی وی پروگرام مزید مشہور ہوگئے اور کچھ گھروں میں تو دو، دو ٹی وی موجود رہنے لگے۔
1990 کی دہائی میں ابتدائی طور پر سی آئی ڈی چھ سے 14 برس کی عمر کے بچوں کے لیے بنایا جاتا تھا۔ سی آئی ڈی کے بعد کرائم پیٹرول اور ساودھان اںڈیا جیسے پروگرام بھی چینلز پر نشر ہونے لگے لیکن تب تک سی آئی ڈی نے انڈین ناظرین کی نگاہوں میں وہ حیثیت حاصل کرلی تھی جسے کم کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
چالیس سالہ پریا روی کہتی ہیں کہ وہ بچپن میں سی آئی ڈی کی ہر قسط کا انھِیں انتہائی بےچینی سے انتظار رہتا تھا۔ وہ کہتی ہیں اسی ڈرامے کی وجہ سے انھوں نے اپنے والدین کو ٹی وی خریدنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ 'ایک ہفتے میں سی آئی ڈی کی دو اقساط نشر ہوا کرتی تھیں اور میں ڈرامہ دیکھنے اپنی دوست کے گھر جایا کرتی تھی۔ لیکن پھر میں نے اپنے والدین کو ٹی وی خریدنے پر قائل کرلیا تاکہ میں اپنے گھر میں سی آئی ڈی دیکھ سکوں۔ جب ہمارے گھر ٹی وی آیا تو میں بہت خوش ہوئی تھی۔'
تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ خود سی آئی ڈی کی نئی اقساط نہیں دیکھیں گی لیکن اپنےسات اور نو سالہ بچوں کو ضرور یہ ڈرامہ دکھائیں گی۔
پریا روی کہتی ہیں کہ 'اگر ماضی کی طرح اب بھی سی آئی ڈی صاف و شفاف ڈرامہ رہتا ہے تو وہ اپنا بچوں کو اس ڈرامے سے متعارف کروائیں گی تاکہ وہ جرائم سے آگاہ ہو سکیں اور اپنی حفاظت کو لے کر زیادہ محتاط رہ سکیں۔'
کرائم پٹرول سے دلی کرائم تک، حقیقت پر مبنی کرائم شوز کی لت کیوں لگتی ہے؟کرائم شو کی شوقین خاتون جس نے ’تجسّس کے مارے‘ ایک اجنبی پر چاقو سے 100 وار کر دیےبہار میں سائبر کرائم کا گڑھ: جہاں جعلی سِم و بینک اکاؤنٹ کے استعمال پر کمیشن ملتا ہےکراچی میں وارداتوں کے لیے کرائے پر اسلحہ دینے والے گروہ کیسے کام کرتے ہیں؟’بسمل‘ کی معصومہ: ’خواتین کہتی ہیں ڈرامہ دیکھنے کے بعد ہم نے اپنے شوہروں کی تعریف شروع کر دی‘ڈرامہ سیریل ’جفا‘: مردوں کی ذہنی صحت پر خاص طور پر بات ہی نہیں ہوتی، محب مرزا