BBC
انتباہ: یہ تحریر صارفین کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے
یہ 20 اگست سنہ 1989 کی بات ہے۔ شام کو ایرک اور لائلے مینینڈیز دونوں بھائی چلتے ہوئے امریکہ میں بیورلی ہلز میں اپنے گھر پہنچے جہاں ان کے والدین 'دی سپائی وھو لَوڈ می' فلم دیکھ رہے تھے۔
انھوں نے اپنے والدین کے نزدیک پہنچ کر انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ انھیں بغیر پرول کے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ایک عرصے تک اس واقعے کا چرچا رہا لیکن پھر یہ لوگوں کے ذہن سے محو ہو گیا۔
لیکن پھر رواں سال ستمبر میں وہ نیٹ فلکس کی ایک ڈرامہ سیریز کی ریلیز کے بعد خبروں میں ہیں کیونکہ اس دستاویزی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اب ان کا مقدمہ نئے شواہد کی وجہ سے از سر نو زیر غور ہے کیونکہ پہلے سماعت کے دوران بعض شواہد پیش نہیں کیے جا سکے تھے۔
گذشتہ پیر کو 28 سال کے بعد ان بھائیوں نے جیل سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے ایک سماعت میں حصہ لیا۔ اس سماعت کے دوران ان کی ایک چچی نے ان کی رہائی کی درخواست کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'میرے خیال میں اب ان کے گھر جانے کا وقت آگیا ہے۔'
جبکہ ان کے چچا نے دونوں بھائیوں کو 'بے رحم سفاک قاتل' کہا ہے اور ان کے خیال سے ان دونوں کا زندگی بھر سلاخوں کے پیچھے رہنا ہی بہتر ہے۔
میں نے جب یہ سب منظر عام پر آتے دیکھا تو جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ لوگوں کا باہم متخالف رویہ تھا اور یہ رویہ ان کے اپنے خاندان کے افراد نے بھی دیکھا۔
کیا نیٹ فلکس ڈرامے میں پیش کیے جانے والے مینینڈیز برادران واقعی ’شیطان‘ ہیں یا یہ ممکن ہے کہ وہ بدل گئے ہوں، جیسا کہ ان کی چچی کا دعویٰ ہے؟
بریڈمور سمیت برطانیہ بھر کے نفسیاتی ہسپتالوں اور جیلوں میں فرانزک سائیکاٹرسٹ اور سائیکو تھراپسٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنے 30 برسوں کے دوران میں نے ایسے سینکڑوں مجرموں سے بات کی ہے جنھوں نے خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ میں نے انھیں ذمہ داری لینے میں مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ناممکن عمل ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ ’ان کی یقیناً کوئی مدد نہیں کی جا سکتی؟ کیا وہ اسی طرح پیدا نہیں ہوئے؟‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف غیر معمولی درندہ صفت ہی کسی دوسرے شخص کو خوفناک نقصان پہنچا سکتا ہے، یعنی ٹیڈ بنڈی اور روز ویسٹ سے لے کر ہیرالڈ شپ مین اور مینینڈیز برادران جیسے قاتل ایک طرح سے انسان نہیں ہیں۔
اور جب میں نے پہلی بار اس شعبے میں کام کرنا شروع کیا تو میں نے بھی یہ فرض کر لیا تھا کہ جن لوگوں نے پرتشدد واقعات اور قاتلانہ کارروائیوں میں حصہ لیا ہے وہ ہم سے بہت مختلف ہیں۔
لیکن اب میں ایسا نہیں سوچتی۔
میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ پرتشدد ذہنوں کی اصل وجوہات کو حقیقی جرائم پر مبنی ڈراموں یا کورٹ روم ٹرانسکرپٹس میں نہیں دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مضمون جس پر میں نے ریتھ لیکچرز میں جائزہ پیش کیا ہے اور یہ ریڈیو 4 پر چار اقساط میں نشر کیا جا رہا ہے۔
میں نے اپنے طور پر دریافت کیا ہے کہ کسی پر محض ’شیطان صفت‘ ہونے کا لیبل لگانے سے حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے۔
Getty Imagesایرک اور لائلے مینینڈیز برادران جنھوں نے اپنے والدین کا قتل کیا اور اب عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں'کمزور' سیریئل کلر
سنہ 1996 میں بریڈمور میں سائیکو تھراپی کی تربیت مکمل کرنے کے فوراً بعد میں نے ٹونی نام کے ایک ذہنی مریض سے ملاقات کی۔ ٹونی نے تین آدمیوں کا قتل کیا تھا جن میں سے ایک کا تو اس نے سر قلم کر دیا تھا۔
میں نے سیریئل کلرز کے بارے میں بہت ساری وحشت ناک رپورٹیں پڑھی تھیں لیکن اُس وقت کسی ایسے فرد سے بات کرنے یا انھیں تھراپی دینے کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب تھیں۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ سوال بھی تھا کہ آیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہے۔ اور ہم یہ کیسے جانیں گے کہ کوئی 'بہتر' ہوا بھی ہے؟
وہ اپنی سزا کا 10واں سال کاٹ رہا تھا اور حال ہی میں تین دیگر قیدیوں نے اس پر تیز کیے گئے ٹوتھ برش سے وار کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
ہماری پہلی ملاقات کے دوران زیادہ تر خاموشی رہی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ رکھے تھے اور میری آنکھوں سے آنکھیں ملانے سے گریز کرتا رہا تھا۔ جب اس نے نظریں اوپر اٹھائیں تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں اتنی گہری تھیں کہ وہ تقریباً سیاہ دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ ڈپریشن اور ڈراؤنے خوابوں میں مبتلا تھا۔ پھر بالآخر خاموشی توڑتے ہوئے اس نے کہا: 'میں سوچ رہا تھا کہ یہاں امن و سکون ہوگا۔ میرے ساتھ والے کمرے میں ایک آدمی ہے جو رات بھر چیختا رہتا ہے۔'
اسے اپنے بار بار آنے والے ڈراؤنے خواب کے بارے میں بتانے میں مہینوں لگ گئے۔ اس خواب میں وہ ایک نوجوان کا گلا گھونٹ رہا ہوتا ہے جو اس کے باپ میں بدل جاتا ہے۔ اس بیان نے ہمیں اس کے جرائم اور اس کے خاندان کے بارے میں بات کرنے کا راستہ کھولا کہ اس کا بچپن کیسا تھا اور اسے کس طرح اپنے والد کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جس کے بعد اس نے دوسروں کو دھمکانا شروع کر دیا تھا۔
بعد میں مجھے پتا چلا کہ 'دوسرے کمرے میں' رات کو چیخنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ خود ٹونی ہی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ شاید وہ رات میں چیخ چیخ کر ایسی باتیں کرنا چاہتا ہے جس کا وہ اظہار نہیں کر سکتا۔ اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپا لیا جس سے اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’نہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتا۔۔۔ میں اتنا کمزور نہیں ہو سکتا۔'
میں نے ٹونی کے ساتھ 18 مہینوں تک کام کیا اور اس کی ایمانداری پر مجھے اس کے ساتھ ہمدردی ہے اور احترام کا جذبہ ہے۔ لیکن میرے ذہن میں وہ سب خوفناک چیزیں بھی ہیں جو اس نے کی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے خود اس تھراپی کی درخواست کی تھی یہ بھی اس بات کی علامت تھی کہ اس کا ایک حصہ کمزور ہونے کے لیے تیار تھا۔
اس ابتدائی تجربے نے مجھے سکھایا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنا برا تھا، جن میں سیریئل کلرز بھی شامل ہیں، اگر وہ اپنے ذہنوں کے بارے میں متجسس ہیں تو ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ انتشار میں معنی تلاش کر سکیں اور ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
Getty Imagesایرک اور لائلے مینینڈیز برادران از سر نو فیصلے کے منتظر ہیںبُرے لوگ بمقابلہ بُرا ذہن
جب سیریئل کلرز کی بات آتی ہے تو عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ سائیکوپیتھ یا ذہنی مریض ہوتے ہیں، لیکن مجھے یقین نہیں کہ ٹونی پر یہ تعریف لاگو ہوتی ہے۔ سائیکو پیتھس سے مدد کی درخواست کا امکان نہیں ہے کیونکہ وہ ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتے جسے وہ توہین آمیز سمجھتے ہوں، اس لیے اس بنیاد پر بھی ٹونی اس کی تعریف پر پورا نہیں اترتا کیونکہ اس نے علاج کے لیے کہا تھا۔
میں نے اپنے کیریئر میں جن سائیکوپیتھس کا سامنا کیا وہ نہ تو غیر معمولی طور پر ذہین اور نہ ہی سماجی طور پر قابل اور نہ ہی دلکش تھے۔ ان میں عام طور پر ہمدردی کی اتنی کمی تھی کہ وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے کہ ان کی حرکتوں سے دوسروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔
اور عام خیال کے برعکس بہت کم قاتل درحقیقت سائیکوپیتھ ہوتے ہیں، خاص طور پر گھریلو قتل کے مرتکب مینینڈیز برادران پر یہ بات صادق آتی ہے۔
ٹونی کی کہانی سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ جو بچپن میں نا مساعد حالات سے گزرتے ہیں وہ پرتشدد جرائم کر سکتے ہیں۔ مینینڈیز بھائیوں نے عدالت میں استدلال کیا تھا کہ وہ اپنے والد کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی استحصال کا شکار ہوئے تھے جسے عمر قید کی سزا سنائے جانے سے پہلے مسترد کر دیا گيا تھا۔
اس کے باوجود آبادی میں ایک نمایاں تناسب کو بچپن میں شدید صدموں کا سامنا ہوتا ہے۔ کچھ مطالعات کے مطابق برطانیہ میں 10سے 12 فیصد لوگ اس سے گزرتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم تعداد ایسی ہے جو مجرمانہ پر تشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرتی ہے۔
جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ بچپن کے صدمے کا جواب تشدد کے ساتھ کیوں دیتے ہیں جبکہ بہت سے دوسرے ایسا نہیں کرتے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ واقعی 'عفریت' ہوں؟ یا، جیسا کہ میرے کچھ مریضوں نے پہلے کہا تھا: 'میں نے برے کام کیے ہیں، لیکن کیا یہ مجھے برا بناتا ہے؟'
اس بات کے سائنسی شواہد نہیں ملتے کہ بعض لوگ 'برے' ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اور میرے تجربے میں، برے شخص جیسی کوئی چیز نہیں ہے، اس کے بجائے دماغ کی بری حالتیں ہوتی ہیں۔
اس لیے، عام طور پر، میں اس قسم کے سوال کے جواب میں یہ کہتی ہوں کہ کسی کے لیے بھی اس قسم کی ذہنی کیفیت میں آنا ممکن ہے، جس میں نفرت، حسد، لالچ اور غصے کے عام جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے پاس ظلم کرنے کی صلاحیت ہے لیکن خطرے کے عوامل ہیں جو لوگوں کو روکتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو انتہائی تشدد کے ساتھ ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور وہ مخصوص ہیں۔ وہ سائیکل کے تالے کے نمبروں کی طرح ہیں۔ جس طرح سائیکل کا تالا کھولنے کے لیے تمام نمبروں کو ایک قطار میں لانا پڑتا ہے، اسی طرح تشدد کے پھوٹنے سے پہلے عام طور پر خطرے کے متعدد عوامل موجود ہوتے ہیں۔
سب سے زیادہ عام خطرے کے عوامل نوجوان اور مرد (جارحیت اور جذبات کی اعلی شرح کے ساتھ) ہونا ہے؛ منشیات اور شراب کے نشے میں ہونا؛ خاندانی تنازعات اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ کی تاریخ ہونا؛ اور قواعد توڑنے کی مجرمانہ تاریخ ہونا وغیرہ ہیں۔ دماغی بیماری کی وجہ سے خلل دماغ میں ہونا بھی رسک ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ بہت نایاب ہے۔
ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘بالاج ٹیپو ٹرکاں والا: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستاناسلام آباد میں بینک کیش وین لوٹنے کے الزام میں گرفتار ملزم فائرنگ سے ہلاک: ’پولیس برآمدگی کے لیے لے جا رہی تھی‘انڈیا کا تین دہائی پرانا سیکس سکینڈل، جس میں لڑکیوں کو’شادی کا لالچ‘ دے کر ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیں
بہر حال قتل کے لیے سب سے اہم خطرے کا عنصر شکار کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہے، خاص طور پر تعلقات کے تنازع کی تاریخ۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خواتین کو عام طور پر مرد پارٹنرز یا کنبہ کے افراد قتل کرتے ہیں اور زیادہ تر بچے ان کے والدین یا سوتیلے والدین کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ اجنبیوں کا قتل شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایسے معاملات ہوتے ہیں جہاں مجرم شدید طور پر ذہنی بیمار ہوتے ہیں۔
اس لیے سائیکل کے تالے کے سیدھ میں آنے والے پہلے دو نمبر سماجی و سیاسی ہو سکتے ہیں، اور اگلے دو مجرم کے لیے مخصوص ہو سکتے ہیں۔
حتمی نمبر جو تالے کے کھلنے کا سبب بنتا ہے وہ کچھ ایسا ہو سکتا ہے جو شکار اور مجرم کے درمیان ہوتا ہے، اب یہ چاہے کوئی اوچھا تبصرہ ہو، کوئی کارروائی جسے رسک کے طور پر سمجھا جاتا ہو، یا فٹبال کے خراب نتیجے جیسی آسان چیز۔ (لنکاسٹر یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جب انگلینڈ کی ٹیم ہار جاتی ہے تو گھریلو بدسلوکی میں 38 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔)
جب سائیکل کے تالے کے چاروں نمبر ایک سیدھ میں آ جاتے ہیں تو جو چیز کھل کر سامنے آتی ہے وہ اکثر جذبات کی ایک لہر ہوتی ہے جو انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کر دیتی۔
اچھی خبر یہ ہے کہ پچھلے 20 سالوں کے دوران برطانیہ اور دیگر جگہوں پر قتل کی شرح میں کمی آئی ہے، جو کہ زیادہ تر بائیسکل لاک کے کھلنے کے عوامل میں سے کچھ میں تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف کرمینالوجی کے ڈائریکٹر پروفیسر مینوئل آئزنر کہتے ہیں: 'برطانیہ میں 2004 کے بعد سے قتل کی شرح میں کمی آئی اور یہ کمی امریکہ، سپین، اٹلی اور جرمنی میں بھی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ جزوی طور پر طرز زندگی میں تبدیلیاں ہیں جیسے کہ نوعمروں میں شراب نوشی اور بھنگ کے استعمال میں کمی۔
'جزوی طور پر موبائل فونز اور سی سی ٹی وی کیمروں جیسی ٹیکنالوجیز کا اثر بھی ہے، جو خطرے کے حالات میں امداد تلاش کرنے کے لیے نگرانی کے مواقع میں اضافہ کرتے ہیں۔'
اس کے علاوہ وہ اس کمی کو سماج میں آنے والی وسیع تر تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں جس میں بلیئنگ کی مخالفت کرنے والے ثقافتی اصولوں کا فروغ اور خواتین، لڑکیوں اور بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام شامل ہیں۔
بہر حال ایسے لوگ بہت ہی زیادہ اقلیت میں ہیں جن کے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہمیشہ خطرہ رہیں گے۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں مسخ شدہ بیانیے پر توجہ دے کر ہم ان متشدد ذہنوں کو اچھا بنانے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔
BBCگذشتہ دس برسوں کے دوران سب سے کم قتل کی شرحانتہائی ہمدردی کے اظہار سے تشدد کو روکنا
سنہ 2004 میں میری ملاقات جیک نامی ایک شخص سے ہوئی جس نے اپنی ماں کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ 20 سال کا تھا۔ اس وقت وہ پیرانوئے شیزوفرینیا میں مبتلا پایا گیا تھا اور اسے اس کے علاج کے لیے ہسپتال بھیجا گیا تھا۔
بعد میں اس نے ایک تھراپی گروپ میں شمولیت اختیار کی جسے میں بریڈمور ہسپتال میں چلا رہی تھی۔ ایک گھنٹہ کے طویل سیشن میں گروپ کے اراکین، جنھوں نے خاندان کے افراد کو ذہنی طور پر بیمار ہونے کی حالت میں قتل کر دیا تھا، سے کہا گيا تھا کہ وہ اس بارے میں بات کریں گے کہ وہ مستقبل میں تشدد کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ جیک کی عام طور پر اس میں دلچسپی نظر نہیں آتی تھی لیکن کوئي ایک سال بعد وہ اس وقت اچانک بول پڑا جب کسی دوسرے شخص نے ماضی کے عمل پر پچھتاوے کے بارے میں بات کی۔
وہ پکار اٹھا: 'کاش میں اپنی ماں سے اپنے کیے کے لیے معافی مانگ سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ میں ذہنی طور پر بیمار تھا، لیکن کاش میں یہ کہہ سکتا کہ مجھے کتنا افسوس ہوا اور وہ مجھے معاف کر سکتی۔ مجھے امید ہے کہ وہ سمجھ گئی ہوں گی کہ مجھے اس کا کتنا افسوس ہے۔'
اپنے آپ کو دوسرے مجرموں کے درمیان دیکھ کر گروپ کے کچھ اراکین یہ سیکھنے کے قابل ہوئے کہ ان کے عمل کے نتیجے میں کسی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اور انھوں نے یہ سمجھا کہ کس طرح غصے، شرم اور خوف کی لہریں انھیں غلط فعل اور الفاظ کی غلط تشریح و تعبیر کی جانب لے جا سکتے ہیں۔
اس دن کے بعد جیک سیشن میں زیادہ دلچسپی لیتا نظر آیا اور اس کی دماغی صحت کافی بہتر ہوئی کہ وہ مزید بحالی کے لیے کم محفوظ ہسپتال میں منتقل ہو سکے۔
گروپ تھراپی میں وقت لگتا ہے لیکن اس کے بعد بہت سے دوسرے افراد کو کم محفوظ علاج کی سہولیات میں جانے کے لیے کافی محفوظ سمجھا گیا، جو کہ بہتری کی علامت ہے۔ اور کچھ کو ہم صرف اس صورت میں منتقل کرتے ہیں جب ہم اس بات کا تعین کر لیتے ہیں کہ ان کی جانب سے دوبارہ جرم کے ارتکاب کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ذمہ داری لینا بھی سیکھا ہے۔
جیک نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد کی کہ قاتل محض بے عقل عفریت نہیں ہوتے جو اور یہ کہ وہ اس ذہنیت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ وہ ایک عام آدمی تھا جس نے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ایک غیر معمولی کام کیا تھا۔
بہر حال کسی بھی وجہ کو تشدد کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ اور ہر پرتشدد جرم ان تمام لوگوں کے لیے المیہ ہے جو اس میں ملوث ہیں۔ لیکن لوگوں کو شیطان گردان دینا ان کے لیے مددگار نہیں ہے۔
یہ غصے اور خوف سے نمٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ اور ہم تشدد کو کم کرنے اور روکنے کا ایک موقع گنوا دیتے ہیں جب ہم ہر اس شخص کو کالعدم قرار دیتے ہیں جس نے اس طرح قتل یا زیادتی کی ہو۔
کسی ایسے آدمی، جس نے اپنے ساتھی کا سر قلم کیا ہو یا ایسی عورت جس نے اپنے دوست کو چھرا گھونپ دیا ہو، کے ساتھ بیٹھنے کے لیے ایک بنیادی چیز ہمدردی ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ اور ان کو سمجھنے اور اپنے بارے میں انھیں نئی بصیرت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے جہاں وہ جاتے ہیں وہاں جانا اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں اسے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہی چیز بالآخر تبدیلی کی طرف لے جاتی ہے۔
سیکس کے دوران ’جنسی تسکین کے لیے گلا دبانے‘ جیسے خطرناک عمل کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟انڈیا کا تین دہائی پرانا سیکس سکینڈل، جس میں لڑکیوں کو’شادی کا لالچ‘ دے کر ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیںاسلام آباد میں بینک کیش وین لوٹنے کے الزام میں گرفتار ملزم فائرنگ سے ہلاک: ’پولیس برآمدگی کے لیے لے جا رہی تھی‘بالاج ٹیپو ٹرکاں والا: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستانڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘سیریئل کلر بہنیں، جنھیں چھ بچوں کے قتل میں سزائے موت تو ہوئی مگر پھر بھی وہ بچ گئیں