Getty Imagesسب صحارا افریقہ میں کامیابی کی وجہ سے عالمی سطح پر ایچ آئی وی کے نئے انفیکشن میں کمی آئی ہے
ایچ آئی وی کے نئے کیسز اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے حوالے سے اعداد و شمار ایک جانب جہاں بڑے پیمانے پر کمی کا اشارہ دے رہے ہیں تو وہیں اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ایچ آئی وی ایڈز (یو این ایڈز) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا اب بھی ایڈز کو ختم کرنے کے لیے درست سمت کی جانب گامزن نہیں۔
ادارے کے مطابق اس وقت تقریباً چار کروڑ (39.9 ملین) افراد اب بھی ایڈز کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں سے نصف کا تعلق جنوبی اور مشرقی افریقہ سے ہے۔
2010 سے اب تک ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں 39 فیصد کمی آئی اور ایڈز سے ہونے والی اموات تقریباً نصف رہ گئی ہیں۔
تاہم افغانستان، مصر، فجی، فلپائن، پاپوا نیوگنی اور سعودی عرب میں 2010 اور 2023 کے درمیان ایچ آئی وی کے کیسز میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
نیپال، کینیا، ملاوی اور زمبابوے نے کامیابی کے ساتھ 2010 سے اب تک ایچ آئی وی انفیکشن کی شرح میں 75 فیصد کمی کی تو وہیں افریقہ میں اب ایڈز کے کیسز میں قابل تشویش اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹس کےمطابق مزید 18 ممالک نے 2010 سے اب تک نئے ایچ آئی وی انفیکشنز کی تعداد میں سالانہ 60 فیصد سے زیادہ کمی کی۔
ان میں لیسوتھو، ایسواتینی، بینن، ایتھوپیا، روانڈا، بوٹسوانا، اریٹیریا، لائبیریا، برکینا فاسو، ٹوگو، زیمبیا، ، برونڈی، گنی بساؤ اور یوگنڈا سمیت زیادہ تر سب صحارا کے ممالک ہیں جبکہ تاجکستان، پرتگال، بیلاروس اور اٹلی کا شمار بھی ان ہی ممالک میں ہوتا ہے۔
ایچ آئی وی کے ساتھ یہاں زندگی گزارنے والوں میں 77 فیصد اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی سے علاج کر رہے ہیں جبکہ سب صحارا افریقہ میں 82 فیصد اس طریقہ علاج کو آزما رہے ہیں۔
ایچ آئی وی کے بحران سے نمٹنے میں ہونے والی پیشرفت کی وجہ سے وہاں اوسط عمرمیں پانچ سال تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 2010 میں اوسط عمر 56 سال تھی جو 2023 میں 61 سال تک ہو گئی۔
'ہم مسلمان ہیں، ہمیں ایڈز کیسے ہو سکتا ہے؟'دنیا کی پہلی خاتون جنھوں نے ایچ آئی وی کو ’شکست‘ دی’وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا جب شوہر، بچوں اور مجھے ایڈز تشخیص ہوئی‘پاکستان: ایڈز پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا؟
اقوام متحدہ کے مطابق افریقہ میں علاج تک رسائی کی سہولت نے ایچ آئی وی پازیٹیو افراد سے دوسرے لوگوں میں اس کی منتقلی کے خطرات کو کم کرنے میں کسی حد تک مدد دی۔
بہت سے ممالک میں ہم جنس پرستوں اور منشیات کے استعمال کے خلاف قوانین بھی کمزور لوگوں کو روک تھام کی خدمات تک رسائی سے روکتے ہیں۔
سب صحارا افریقہ میں کیسز کی کمیGetty Imagesعلاج تک رسائی ایچ آئی وی کی تعداد کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے
یو این ایڈز کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹین سٹیگلنگ کہتی ہیں کہ خاص طور پر سب صحارا افریقہ میں جو پیشرفت ہوئی، اس نے اس خیال کو تقویت دی کہ کمیونٹیز کی شمولیت، ملکی قیادت اور بین الاقوامی یکجہتی سب مل کر بہت کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے کی گئی ایک ای میل کے جواب میں انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت قیادت اور رہنماؤں کو ایچ آئی وی کی روک تھام کے لیے وسیع پیمانے پر توجہ مرکوز کرنے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو صحت کی خدمات تک رسائی سے محروم رکھتی ہیں۔
’دنیا اب بھی صحت عامہ کے خطرے کے طور پر ایڈز کو ختم کرنے کے راستے پر نہیں اور اس کی بڑی وجہ سب سے زیادہ پسماندہ کمیونٹیز کا خدمات تک رسائی میں بہت بڑا خلا ہونا ہے۔ یہاں ایچ آئی وی کی روک تھام میں بحران بدستور موجود ہے۔‘
Getty Images
تاہم سب صحارا افریقہ کے باہر اس کی کمی میں تیزی نہ آ سکی۔ پاپوا نیو گنی، افغانستان، فجی، فلپائن، مصر اور سعودی عرب میں 2010 اور 2023 کے درمیان ایچ آئی وی کیسز میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
تاہم اقوام متحدہ کو امید ہے کہ اگر صحت عامہ کے خطرے کے درپیش سیاسی حمایت اوردرست فنڈنگ کی جائے تو ایڈز کو عالمی سطح پر چھ سال کے اندر ختم کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کی پہلی خاتون جنھوں نے ایچ آئی وی کو ’شکست‘ دی'ہم مسلمان ہیں، ہمیں ایڈز کیسے ہو سکتا ہے؟'پاکستان: ایڈز پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا؟’وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا جب شوہر، بچوں اور مجھے ایڈز تشخیص ہوئی‘’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا خون اور سپرم زہریلے ہیں‘’لوگ ہیپاٹائٹس کو گندی چیز سمجھتے ہیں اور اسے ایڈز کے ساتھ جوڑتے ہیں‘