بیرون ملک فراڈ کے شکار پاکستانی مزید ہم وطنوں کو فیس بک کے ذریعے پھنسانے لگے

اردو نیوز  |  Nov 26, 2024

’ہم سے موبائل اور دستاویزات چھین لیے گئے ہیں اور ایک الگ موبائل میں خوبصورت دوشیزہ کا جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنا کے دیا ہے، تاکہ ہم مزید لوگوں کو دھوکہ دے سکیں۔‘

نوشہرہ کے فیاض احمد (فرضی نام) اکتوبر کے اوائل میں ویتنام پہنچے تھے۔ شروع میں وہ نہایت خوش تھے اور فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ویتنام کے گن گاتے تھے لیکن اب ان کی زندگی نے ایک خطرناک موڑ لے لیا ہے۔ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے سوشل میڈیا پر خاموش ہیں، کیونکہ ویتنام کے قریب لاؤس میں ان سے موبائل فون چھین کر مزید پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے شہریوں کو پھنسانے پر مامور کیا جا چکا ہے۔

رواں سال کئی پاکستانی ملازمت کی تلاش میں بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو پُرکشش معاوضے کی لالچ میں قانونی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جس کے سبب یہ بیرون ملک جاتے ہی ’اغوا‘ کر دیے جاتے ہیں۔

ان میں سے کئی پاکستانی ویتنام، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کا انتخاب کرتے ہیں، جن کا ویزہ با آسانی ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم اب متعدد پاکستانی ان ممالک میں پھنسے ہیں جن میں فیاض احمد بھی شامل ہیں۔

فیاض احمد خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دنوں ویتنام کے قریب لاؤس نامی ملک میں ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی دیگر ساتھیوں کے ساتھ اردو نیوز سے رابطہ کیا اور لاؤس میں بوکیو نامی شہر میں ان پر ہونے والے مظالم کا احوال بیان کیا۔

انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ’اس حوالے سے کئی پاکستانی یہاں کے مقامی لوگوں کی مدد کر رہے ہیں اور میڈیا رپورٹس کے حوالے سے انہیں آگاہ رکھ رہے ہیں۔‘

اس وقت کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈ اور لاؤس میں کئی پاکستانیوں کو غیرقانونی سرگرمیوں میں دھکیلا جا چکا ہے، جبکہ ویتنام سے بھی کئی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں۔

لاؤس میں پاکستانی شہریوں سے ان کے قانونی دستاویزات بھی ضبط کیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)فیاض احمد کے بقول ’میں پاکستان میں پرائیویٹ نوکری کرتا تھا لیکن میرے بھائی نے ایک اشتہار کا حوالہ دیا جس میں تقریباً 2 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ، کھانا اور بونس کا ذکر تھا۔ اس کے علاوہ رہائش، میڈیکل اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کمپنی کے ذمہ تھی۔ ہم سے ٹائپنگ سپیڈ اور ایک ویڈیو مانگنے کے بعد ہمارے باقی کوائف مکمل کیے گئے‘۔

اس اشتہار کے مطابق پاکستانیوں کو ملائیشیا میں ایک سال کی نوکری کرنا لازمی ہے، تاہم مزید کام کرنے کا انتخاب آپ خود کر سکتے ہیں۔ فیاض نے جب تمام کوائف مکمل کیے تو ان کا ویزا آگیا اور انہیں ملائیشیا پہنچایا گیا لیکن ملائشیا جانے کے چند دنوں بعد انہیں لاؤس لایا گیا، جہاں ان کے ساتھ لاہور اور فیصل آباد کے کئی دیگر شہری بھی موجود تھے۔

ان کے مطابق پاکستان میں موجود ایجنٹس شہریوں کو لالچ دے کر کمبوڈیا یا ملائشیا کے سہانے خواب دکھاتے ہیں جس کے بعد انہیں وزٹ ویزا پر ویتنام یا لاؤس پہنچا دیا جاتا ہے۔

ان ممالک میں جعلی کمپنیاں ہیں، جو جعلی دستاویزات دکھا کر پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک کے شہریوں کو جھانسہ دیتی ہیں۔ فیاض اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

ان کے ساتھی سکندر خواجہ (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ انہیں ایک جعلی لیٹر دے کر لاؤس لایا گیا۔ ’میں کسی صورت یہاں نہیں رہنا چاہتا۔ میں روز روتا ہوں کیونکہ ہمیں جو کہا گیا تھا ایسا یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم سے یہ غیر قانونی کام کرواتے ہیں۔ ہمارے موبائل اور دستاویزات ان کے پاس ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ لاؤس پہنچ کر ان کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کروا کر جعلی اکاؤنٹس چلانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ ’یہ ہمیں لڑکیوں کے ناموں سے جعلی اکاؤنٹس بنانے کو کہتے ہیں۔ اکثر اکاؤنٹس انہوں نے پہلے سے بنائے ہوتے ہیں۔ جن میں کسی لڑکی کی ڈھیر ساری تصویریں اپلوڈ کر کے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ حقیقت میں کسی لڑکی کا ہے۔ پھر یہ ہمیں اس اکاؤنٹ کے ذریعے شہریوں کو بلیک میل کرنے اور انہیں لاؤس کے شہر بوکیو بلانے کا کام سونپا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق بوکیو میں انہیں زیادہ تر پاکستانی اور انڈین شہریوں کو جال میں پھنسانے کا کہا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے اکاؤنٹس پر یہ اپنا تعلق امیر گھرانے سے بتاتے ہیں، جس کے لیے یہ فیس بک، انسٹا گرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر گاڑیوں اور بنگلوں کی تصاویر اپلوڈ کرتے رہتے ہیں۔

’یہ کسی بھی لڑکی کا اکاؤنٹ ٹارگٹ کر کے وہاں سے تمام تصاویر ڈاؤن لوڈ کر دیتے ہیں، جنہیں بعد میں غیرقانونی کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی فون پر بات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کے لیے یہاں لڑکیاں موجود ہیں جو ان سے بات کر کے انہیں مزید ورغلاتی ہیں۔‘

پاکستانی شہری نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھوکہ دہی کے اس کام پر انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے۔ (فوٹو: پکس ہیئر)یہ غیر قانونی کمپنیز پاکستانی شہریوں کو رہائش اور کھانا فراہم کرتے ہیں، لیکن ان سے تمام دستاویزات ضبط کر لیے جاتے ہیں جبکہ ایجنٹس کو ان کے بدلے لاکھوں روپے دیے جاتے ہیں۔

 فیصل آباد کے خرم اعوان (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا ’ہمیں ایک مخصوص علاقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور ہمارا کام صرف سوشل میڈیا پر لوگوں کو دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ یہ ہمارے ایجنٹس کو 8 سے 20 لاکھ پاکستانی روپے دیتے ہیں اور جب آپ واپسی کا کہیں تو یہ آپ سے دگنی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں خود قرض لے کر یہاں آیا ہوں اب ان کو اپنی آزادی کی رقم کیسے دوں؟‘

ان کے بقول لاؤس میں چائنہ کی کرنسی چلتی ہے جبکہ ان سے بغیر معاوضہ یا انتہائی کم معاوضے کے عوض 15 گھنٹوں تک کام لیا جاتا ہے۔

’پاکستانی وقت کے مطابق شام 7 بجے سے صبح 10 بجے تک ہم سے کام لیا جاتا ہے۔ واپسی پر ہمیں چند منٹوں کے لیے آپس میں ملاقات کا وقت دیا جاتا ہے، لیکن ہم ملاقات میں کسی سے کام سے متعلق کوئی بات نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمارے ارد گرد کمپنی کے کئی لوگ موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی مشکوک سرگرمی پر ہم پر تشدد کرتے ہیں۔‘

ایک اور پاکستانی شہری نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھوکہ دہی کے اس کام پر انہیں معاوضہ بھی ملتا ہے۔

’ہمیں بونس بھی دیا جاتا ہے۔ پہلے دھوکہ دہی کا یہ کام امریکہ تک محدود تھا لیکن اب وہاں کے شہری محتاط ہو گئے ہیں اس لیے اب مڈل ایسٹ، انڈیا، پاکستان اور ایسے دیگر ممالک کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ہم زیادہ لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوں تو ہمیں پیسے بھی زیادہ دیے جاتے ہیں لیکن کام غیر قانونی ہے۔‘

پھنسے ہوئے شہریوں کے مطابق بوکیو میں انہیں پاکستانی اور انڈین شہریوں کو جال میں پھنسانے کا کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: پکسلز)ان کے مطابق انہوں نے پاکستان میں اپنے ایجنٹس سے بھی رابطے کیے لیکن اب وہ بھی تعاون نہیں کر رہے۔ وہ بتاتے ہیں ’ابھی اس سال کے آخر میں چکوال، فیصل آباد اور لاہور سے کئی لوگوں کو لایا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ محتاط ہوجائیں۔ یہاں صرف دھوکہ دہی پر مبنی کام لیا جاتا ہے۔‘

 اس حوالے سے گزشتہ ماہ وزارت خارجہ نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ شہری کسی بھی ملک جانے سے قبل قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیں۔

اردو نیوز کے سوالوں پر دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ’کمبوڈیا میں موجود ہمارے سفارتی مشن نے ان مشکل حالات سے دوچار پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں اور اُن کی جلد از جلد پاکستان واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’جنوری 2023 سے لے کر اب تک ایسے 90 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا جا چکا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More