90 سال قبل قتل ہونے والی خواتین کے لواحقین کی تلاش: سائنسی بنیادوں پر ہونے والی وہ تفتیش جس کی مدد سے قاتل شوہر پکڑا گیا

بی بی سی اردو  |  Nov 21, 2024

برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے سٹور روم سے 90 سال قبل قتل ہونے والی دو خواتین کی کھوپڑیوں کی دریافت کے بعد مقتول خواتین کے لواحقین کی تلاش کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔

ازابیلا رکسٹن اور میری راجرسن نامی خواتین کو سنہ 1935 میں قتل کیا گیا تھا اور اُن کے جسم کے مختلف حصے برطانیہ کے موفاٹ، ڈمفریز اور گیلووے نامی علاقوں سے ملے تھے۔ اُس زمانے میں اِس واقعے کو کافی شہرت ملی تھی اور اس ضمن میں شہ سرخیاں اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔

گذشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں سامنے آنے والے اس کیس نے برطانیہ میں فرانزک سائنس کے شعبے کو اُس وقت ایک نئی بنیاد فراہم کی تھی جب ایڈنبرگ یونیورسٹی نے خواتین کے جسموں کے ٹکڑوں پر کی گئی تفتیش کی مدد سے ڈاکٹر بک رکسٹن کے خلاف ناقابل تردید شواہد حاصل کیے جن کی بنیاد پر انھیں پھانسی دی گئی تھی۔

ڈاکٹر بک رکسٹن دراصلقتل ہونے والی ایک خاتون ازابیلا رکسٹن کے شوہر تھے جنھیں شبہ تھا کہ اُن کی اہلیہ کے دیگر مردوں کے ساتھ تعلقات تھے۔

90 سال قبل پیش آنے والے اس واقعے میں اب پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایڈنبرگ یونیورسٹی نے اپنے آرکائیوز سے ان قتل ہونے والی دونوں خواتین کی کھوپڑیاں اور باقی ہڈیاں دریافت کی ہیں جس کے بعد اب وہ ان خواتین کے رشتہ داروں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں ہیں تاکہ ان سے پوچھا جا سکے کہ آیا وہ ان خواتین کی باقیات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

یونیورسٹی سے منسلک اناٹومی کے پروفیسر ٹام گلنگ واٹر نے کہا ہے کہ ’اگر مناسب ہوا تو ہم (باقیات) اُن کے اہل خانہ کو واپس کر دیں گے تاکہ انھیں سپرد خاک کیا جا سکے۔‘

یونیورسٹی نے قتل ہونے والی خواتین کے اہلخانہ سے نجی طور پر رابطہ کرنے کے بجائے بی بی سی کے ذریعے عوامی سطح پر اپیل جاری کی ہے، کیونکہ حکام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ازابیلا کے تین یتیم بچوں کو کبھی بتایا گیا تھا کہ اُن کے والد (ڈاکٹر بک رکسٹن) کو اُن کی ماں کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔

ستمبر 1935 میں پیش آنے والے اس واقعے کو ’جکسا مرڈرز ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی تفصیلات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئیں جب موفات نامی علاقے کے قریب واقع ایک پُل کے نیچے سے مسخ شدہ انسانی لاشیں دریافت ہوئی تھیں، یہ خبر پھیلتے ہی اس علاقے میں اخباری رپورٹرز کا ہجوم لگ گیا تھا۔

جسم کی باقیات کو ایڈنبرگ یونیورسٹی بھیجا گیا جہاں فرانزک سائنس دانوں اور گلاسگو یونیورسٹی سے منسلک اہلکاروں نے قتل ہونے والی خواتین کے جسموں کے اعضا کو اکٹھا کیا۔ اور جب وہ یہ کام سرانجام دے رہے تھے، عین اُسی وقت لنکاسٹر میں ایک اور تفتیش جاری تھی۔

ڈاکٹر بک رکسٹن کی اہلیہ ازابیلا اور اُن کی نرس میری راجرسن گم ہو چکے تھے اور ڈاکٹر حکام کو اُن کی گمشدگی کی مختلف وضاحتیں دے رہے تھے۔

ڈاکٹر کو شک تھا کہ ان کی اہلیہ ازابیلا کی دوسرے مردوں کے ساتھ دوستی ہے۔

ازابیلا نے غائب ہونے سے قبل اپنے شوہر یعنی ڈاکٹر بک پر گھریلو تشدد کے الزامات عائد کیے تھے تاہم مقامی پولیس نے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔

ڈاکٹر رکسٹن کے بجائے میری اور ازابیلا کی گمشدگی کی اطلاع مریم کے خاندان نے دی تھی۔بعدازاں ہونے والی تفتیش کے دوران سکاٹ لینڈ میں تفتیش کاروں نے دونوں خواتین اور موفات کے قریب سے ملنے والی انسانی باقیات کے درمیان تعلق قائم کیا۔

تاہم اب بھی لاشوں کو شک و شبہ سے بالاتر شناخت کرنا باقی تھی جبکہ دوسری جانب ان دونوں خواتین کے قاتل ایک پیشہ ور ڈاکٹر تھے جو سرجری کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے تھے، چنانچہ انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ ان کے ہاتھوں قتل ہونے والی ان کی اہلیہ اور دوسری خاتون کی شناخت ممکن نہ رہے۔

تاہم قتل کی اس واردات میں تفتیش کاروں نے فرانزک تکنیکوں کا سہارا لیا اور ڈاکٹر رکسٹن کی پولیس سے بچنے اور حکام کو چکمہ دینے کی کوششوں کو شکست ہوئی اور بلآخر تصدیق ہو گئی کہ انسانی باقیات درحقیقت ازابیلا اور میری کی ہیں۔

اس دور کے اخباروں میں اس ضمن میں چلنے والے عدالتی کیس کو ’صدی کا سب سے بڑا ٹرائل‘ قرار دیا گیا۔

لاشوں کے ملنے کے پانچ ماہ بعد ڈاکٹر رکسٹن کو مانچسٹر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

Getty Imagesڈاکٹر رکسٹن کو اس کیس میں سزائے موت سنائی گئی تھی

عدالت میں موجود جیوری کو ازابیلا کی کھوپڑی کی ایکس رے تصاویر دکھائی گئیں، اس نوعیت کے شواہد پہلی مرتبہ عدالت کے سامنے بطور ثبوت پیش کیے جا رہے تھے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے یہ بھی بتایا کہ میری کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹس کا تجزیہ کرنے کی ایک نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس کیس پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے لاشوں پر پائے جانے والے کیڑوں کا بھی مطالعہ کیا تاکہ موت واقع ہونے کی اصل تاریخ معلوم کی جا سکے۔

بلآخر ڈاکٹر رکسٹن کو دونوں خواتین کے قتل کا قصوروار پایا گیا اور اس کے دو ماہ بعد انھیں پھانسی دے دی گئی۔ جب جیل میں انھیں پھانسی دی جا رہی تھی تو جیل سے باہر عوام کا جم غفیر اکھٹا تھا۔

Getty Imagesپھانسی کے روز جیل کے باہر عوام کا جم غفیر

سابق اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ٹام ووڈ نے اس کیس پر ایک کتاب ’دی فرسٹ ماڈرن مرڈر‘ لکھی ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’یہ 20 ویں صدی میں ہونے والی اہم مجرمانہ تحقیقات میں سے ایک تحقیق تھی۔ اور یہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ لاشیں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھیں بلکہ اس کیس کو حل کرنے میں فرانزک سائنس استعمال ہوئی تھی۔‘

’سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو اس کیس سے قبل تفتیش کی تاریخ قدیم تھی، مگر رکسٹن کیس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ جدید، مربوط، فرانزک سائنس کی زیر قیادت ہونے والی تحقیق ہے۔‘

اس کے بعد کی دہائیوں میں، اِن خواتین کی ہڈیوں کو ایڈنبرگ یونیورسٹی میں رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ شاید ان ہڈیوں اور باقیات کو مزید طبی تحقیق کے لیے یہاں رکھا گیا تھا۔

پروفیسر گلنگ واٹر اور ٹام ووڈ دونوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو اس وقت کے اخلاقی معیارات کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ پروفیسر گلنگ واٹر نے کہا کہ ’اگر آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں اپنے 21ویں صدی کے نظریے کے ساتھ ایسا ہی کرتا تو بالکل نہیں۔ لیکن اس وقت ان سائنسدانوں نے اس تحقیق میں جو کیا وہ قابل ذکر اور انقلابی تھا۔‘

ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘لُنڈ گینگ کے سربراہ کی ہلاکت: ’صاحب، میں نے آپ کے کہنے پر شاہد لُنڈ کو قتل کر دیا ہے!‘سارہ شریف قتل کیس: پاکستانی نژاد والد کا اپنی 10 سالہ بیٹی کو کرکٹ بیٹ سے پیٹنے کا اعتراف’شوہر جس بستر پر دو دن سے سو رہا تھا، اسی کے نیچے سے بیوی کی لاش ملی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More