فون پر فحش گفتگو کا جرم ثابت کرنے میں دو سال لگے: ’وہ پانچ منٹ تک شہوت انگیز آوازیں نکالتا اور مشت زنی کرتا رہا‘

بی بی سی اردو  |  Nov 17, 2024

Getty Images

نوٹ: اس مضمون میں جنسی عمل کی تفصیلات شامل ہیں جو بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں

’وہ میرا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ میرے عضو تناسل کو منہ میں لو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ میرے جنسی اعضا کے بارے میں فحش اور لغو تبصرے بھی کر رہا تھا۔‘

اس سارے واقعے کی شروعات ایک ’نامعلوم‘ نمبر کی فون کال سے ہوئیں۔

وہ اکتوبر2022 کی ایک رات تھی۔ جب رات گئے میرے موبائل فون کی سکرین پر کال موصول ہونے کی روشنی جگمگائی۔

اس کال کرنے والے نے اپنی شناحت مخفی رکھنے کی سیٹنگز استعمال کی ہوئی تھیں۔

فون کی دوسری جانب ایک مرد کی آواز تھی۔ یکلخت اس آواز میں لذّت آمیز سسکیوں کا شور سنائی دیا۔

بلاشبہ وہ اجنبی فون کے دوسری جانب مشت زنی کر رہا تھا، آوازیں بلند ہوتی گئیں۔

جو کچھ میں نے اس فون کال پر سنا تھا اس سمجھنے کے دوران میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے فون بند کر دیا۔ لیکن فون بار بار بجتا رہا۔

اور اس وقت میرے دماغ نے ایک صحافی کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔

میں جانتی تھی کہ اس کال کو ’رپورٹ‘ کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ پولیس اس کال کو ٹریس کر سکتی ہے لیکن انھیں ثبوت کی ضرورت ہوگی۔

میں اوپر کی طرف بھاگی اور اپنے دفتر کا فون اٹھایا۔ اس شخص کی تیسری یا چوتھی بار کال کرنے پر میں نے فون اٹھایا اور اسے سپیکر پر رکھ کر ریکارڈنگ پر ڈال دیا۔

پانچ منٹ تک میں نے اس کی وہ تمام لغو باتیں ریکارڈ کیں جو وہ مشت زنی کے دوران کرتا رہا تھا۔ مجھے حیرانی تھی وہ کب رکے گا اور کب میرے پاس کافی ثبوت اکھٹا ہوں گے۔

میں اپنے تحفظ کے بارے میں فکر مند تھی۔ اگر اس شخص کو میرا پہلا نام اور نمبر معلوم تھا تو کیا وہ مجھے جانتا تھا؟

کیا میں اس سے مل چکی تھی؟ کیا یہ کوئی ایسا شخص تھا جس کا میں نے انٹرویو کیا تھا؟ کیا اسے معلوم تھا کہ میں کہاں رہتی ہوں۔

BBC

اس شخص کا لب و لہجہ میرے لیے اجنبی تھا شاید وہ مڈ لینڈ کا تھا۔ میں نے فرض کیا کہ یہ کسی طرح سے اس حقیقت سے واقف ہے کہ میں بی بی سی کی ایک صحافی ہوں لیکن مجھے اس کا پکا یقین نہیں تھا۔ میں نے اس جرم کی اطلاع دینے کے لیے پولیس ہیلپ لائن نمبر 999 ڈائل کیا۔

اگلے دن میں بیان دینے کے لیے اپنے مقامی پولیس سٹیشن گئی اور مجھے میٹروپولیٹن پولیس کے سسٹم پر ٹیپ شدہ ریکارڈنگ اپ لوڈ کرنے کو کہا گیا۔

مجھے پوری امید تھی کہ وہ اس ریکارڈنگ سے فون کرنے والے کا سراغ لگانے اور اس کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

میں خواتین کے خلاف تشدد کی بہت سی کہانیوں پر کام کر چکی ہوں بشمول سارہ ایورارڈ جس کو اغوا کے بعد ریپ اور قتل کر دیا گیا تھا۔

سارہ ایورارڈ کو قتل کرنے سے پہلے پولیس مجرم وین کوزینس سے کم از کم تین غیر اخلاقی جرائم کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہی تھی۔

ماہرین کے مطابق ایسے جرائم کسی کے لیے بھی اس کے بعد زیادہ سنگین جرم کے ارتکاب کی وارننگ ہو سکتے ہیں۔

اس تناظر میں مجھے دو خدشات کا سامنا تھا۔ ایک خود اپنی حفاظت اور اس بات کو یقینی بنانا کہ یہ آدمی مزید سنگین جنسی جرائم کا ارتکاب نہ کر پائے۔

تاہم پولیس نے درحقیقت میرا مقدمہ خارج کر دیا اور متاثرین کے جائزے کے حق کے بعد ہی اسے دوبارہ کھولا گیا۔

آخر کار فحش گفتگو کرنے والے شخص پر فرد جرم عائد کی گئی لیکن اگر میں اس کے لیے مسلسل بھاگ دوڑ نہ کرتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔

معاملات کی سنگینی اس وقت بڑھ گئی جب مجھے پتہ چلا کہ اسے 2015 میں مختلف نمبروں پر15,000 فون کالز کرنے پر سزا سنائی گئی تھی تو پھر آخر اس پر فرد جرم عائد کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔

پولیس نے اعتراف کیا کہ اس کیس کو نمٹانے میں واضح طور پر کوتاہی کی گئی۔ لنکاشائر پولیس نے کہا کہ ان کی ابتدائی تفتیش متوقع معیار پر پورا نہیں اتری۔

میرے لیے یہ پوری آزمائش ایک آنکھیں کھول دینے والا تجربہ ثابت ہوئی کہ کیوں اتنے سارے جنسی جرائم یا تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا مجرم کو سزا نہیں ہو پاتی۔

اور ساتھ ہی یہ کہ پولیس اور انصاف کا نظام کس قدر سست روی کا شکار ہے اور کس طرح آوازیں اٹھنے کے باوجود محض پولیس کی نااہلی کی وجہ سے خواتین اب بھی ناکام ہو رہی ہیں۔

یہاں اس جرم کو سامنے لانے کی روداد پیش کی جا رہی ہے۔

تاخیر کی پہلی وجہ پولیس کی قوائد سے ناواقفیت بنی

اپنا بیان دینے کے دو روز بعد ایک پولیس افسر نے مجھے کہا کہ میں اپنے فون کی سروس فراہم کرنے والی کمپنی (سروس پروائیڈر) سے کہوں کہ وہ اس نامعلوم نمبر کی چھان بین کرے۔

لیکن کمپنی کے رولزمیں واضح تھا کہ نمبر ٹریس کرنے کی یہ درخواست متاثرہ شخص کے بجائے پولیس کی طرف سے آنی چاہیے۔

چُھٹی سے واپس آنے کے بعد پولیس افسر نے معذرت کرتے ہوئے جواب دیا کہ میں نامعلوم نمبروں سے متعلق پرانی معلومات پر کام کر رہا تھا اور اس پر اپنا وقت ضائع کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘

تاہم پولیس کی درخواست پر عملدرآمد سے پہلے چند مجاز حکام کی اجازت درکار ہوتی ہے جو اس پر عمل درآمد میں مزید تاخیر کا سببب بن سکتا ہے کیونکہ تمام ایسی درخواستوں کو خطرے اور جرم کے مطابق ترجیح دی جاتی ہے۔

اس دوران میں یہ سوچنے کی کوشش کر رہی تھی کہ میرا نمبر کس کو مل سکتا ہے۔ اس نے مجھے سب پر شک کرنے پر مجبور کر دیا۔

اتفاق سے میں اگلے دن پولیس کمشنر مارک رولی سے سارہ ایورارڈ کے قتل کی عبوری رپورٹ کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ مارک رولی اس کیس میں ادارہ جاتی مسائل سے نمٹنے میں مجاز افسر رہے تھے۔

جیسے جیسے ہر دن گزر رہے تھے مجھے ڈر تھا کہ میرا مجرم کسی اور کے ساتھ جنسی جرم کر سکتا ہے۔ میں اس خدشے کے پیش نظر ایسے کسی بھی عمل کو اپنے اختیارات میں رہتے ہوئے ناممکن بنانا چاہتی تھی۔

دو دن بعد مقامی افسر نے مجھے ای میل کی کہ فون نمبر کا پتہ لگانا بہت وقت طلب ثابت ہو رہا ہے۔ اب کرمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) اس پر کام شروع کرنے والا تھا۔

سی آئی ڈی نے مجھے بتایا کہ ’اس کال میں استعمال ہونے والے نمبر کی شناخت کو مخفی رکھنے کے طریقے کار کے باعث تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے مشکلات ہیں۔‘

مجھ سے ریکارڈنگ لینے کے باوجود سی آئی ڈی اسے اپنے سسٹم پر ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ متعلقہ افسر سے چیک کریں گے کہ کیا انھوں نے نامعلوم نمبر کی شناخت کے لیے متعلقہ فون کمپنی سے رابطہ کیا۔ تاہم انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

شناخت کے باوجود تفتیش میں سست روی

واقعے کے دو ماہ بعد یعنی دسمبر میں ایک مثبت خبر ملی کہ وہ اس نامعلوم نمبر کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب دیکھ رہے ہیں کہ کیا وہ اس سے منسلک شخص کا سراغ لگا سکتے ہیں۔

اور پھرمزید ایک پیش رفت سامنے آئی جب افسر نے پولیس نیشنل کمپیوٹر کے ذریعے مشتبہ شخص کی شناخت کی ۔

وہ شخص لنکاشائر کے علاقے میں مقیم تھا اس لیے معاملہ وہاں پولیس کے پاس چلا گیا۔

تاہم جنوری 2023 میں جب میں نے لنکاشائر پولیس کو استغاثے میں شامل ہونے کے لیے ای میل کی توانھوں نے فوری جواب نہیں دیا۔

آخر کار ایک افسر نے جواب دیا کہ اسے کرائم ریفرنس نمبر اور بنیادی معلومات کے علاوہ کیس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

میٹ پولیس نے یہ معلومات کیوں نہیں دیں؟ اس حوالے سے انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کی درخواست کرنا لنکاشائر افسر کا کام ہے۔ میں نے انھیں یہ معلومات فراہم کر دیں۔

ایک ہفتے بعد ایسا لگتا تھا کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ پولیس افسر مشتبہ شخص کے گھر گیا تھا جس نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔

اس پولیس افسر نے شام میں دوبارہ جانے کی یقین دہانی کروائی تاہم پھر مجھے بتایا گیا کہ اس وقت اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کے پاس اسے حراست میں لینے کے لیے وجوہات ناکافی تھیں۔

شیخوپورہ: ڈکیتی کی وارداتوں میں خواتین کا مبینہ ریپ کرنے والا گینگ جو متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیامیریٹل ریپ: ’وہ پورن فلمیں دیکھ کر وہی سب میرے ساتھ دہرانے کی کوشش کرتا‘نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘ٹوبہ ٹیک سنگھ: ’مقتولہ خاتون کا ریپ ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے،‘ پولیسملزم کا صحت جرم سے انکارGetty Images

فروری 2023 کا آغاز تھا جب عدالت میں نے دیکھا کہ وین کوزنز نے اپنے جسم کی نازیبا انداز میں نمائش کرنے کے تین جرائم کا اعتراف کیا اور ان میں سے ایک واقعہ سارہ ایورارڈ کے ریپ کے بعد قتل سے صرف ایک روز پہلے کا تھا۔

جنسی جرم کے ان واقعات میں مجرم کی بروقت شناخت میں ناکامی پر پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی بات نے مجھے اپنے مقدمے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی تحریک دی۔

اس مشتبہ شخص کی شناخت ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے لیکن لنکاشائر پولیس نے مجھے اس حوالے سے مزید کچھ نہیں بتایا تھا اس لیے میں نے انھیں دوبارہ جھنجوڑا۔

کچھ دن بعد متعلقہ افسر نے تاخیر پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ چھٹی پر تھے اور پھرانھیں کووڈ ہو گیا تھا ۔

اس نے کہا کہ ’مشتبہ شخص سے رابطہ کرنے کی ایک اور کوشش ناکام رہی ہے اور تاحال اس کو گرفتار کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں مل سکی البتہ رضاکارانہ پوچھ گچھ کا اصل منصوبہ ابھی موجود ہے۔‘

میں نے پوچھا کہ گرفتاری کی ضرورت کیوں نہیں خاص طور پر جب مجھے خدشہ تھا کہ اس قسم کا جرم زیادہ سنگین جرائمکی راہ ہموار کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ اس بات کا ان پر کچھ اثر ہوا۔

دو دن بعد مجھے بتایا گیا کہ عدم پیشی کی بنیاد پر اب اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایک دن بعد ایک اہم پیغام مجھے ملا کہ ’ہم وہاں زبردستی داخل ہوئے اور اب اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

آخر کار اب وہ اس سے تفتیش کرتے اور اس کے فون ریکارڈ کا جائزہ لیتے لیکن یہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔

پولیس نے کہا کہ اگرچہ گرفتار شخص کی آواز بالکل اسی کی طرح ہے جسے میں نے فون پر ریکارڈ کیا تھا تاہم اس نے ایسی کسی بھی فون کال سے کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا فون گم ہو گیا ہے۔

افسر کا خیال تھا کہ مشتبہ شخص جھوٹ بول رہا ہے لیکن اس کے دفاع سے اس پر الزام عائد کرنا مشکل ہو جائے گا۔

اسے مجھ سے رابطہ نہ کرنے کی شرط پر ضمانت دی گئی تھی۔

شدید مایوس ہو کر میں نے ایک سینیئر افسر سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے پر پیش رفت کی ہدایات دیں۔

مجھے خدشہ تھا کہ پولیس جتنی بار اس کے گھرگئی تھی انھوں نے پڑوسیوں کو بتایا ہو گا کہ وہ اسے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں اوراس سے اسے اپنے پاس موجود فون سے چھٹکارا پانے کا وقت مل گیا۔

سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ اصل فون کے بغیر وہ کامیابی آسانی سے حاصل نہیں کر سکیں گے۔

پولیس کا مزید کارروائی کے بغیر تحقیقات بند کرنے کا فیصلہ

مارچ 2023 میں پولیس نے مجھے بتایا کہ وہ مشتبہ شخص کے پاس موجود فون کی جانچ کر رہے ہیں جو کہ اس شخص دعوے کے مطابق گمشدہ فون سے الگ تھا۔

اور توقع کے مطابق ان کواس فون سے کچھ نہیں مل سکا۔

پولیس نے کہا کہ وہ اس شخص پر فرد جرم عائد نہیں کر سکتے اور وہ مزید کارروائی کے بغیر اپنی تحقیقات بند کرنے جا رہے ہیں۔

میں غصے میں تھی۔ ان کے پاس آڈیو ریکارڈنگ تھی اور انھوں نے فون نمبر سے مشتبہ شخص کو ڈھونڈا تھا۔

میں نے محسوس کیا کہ ان کی کارروائیوں نے اسے فون سے چھٹکارا پانے کا موقع فراہم کیا ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ میں اس فیصلے کو قبول نہیں کرتی اور اس کے خلاف اپیل کروں گی لیکن درحقیقت میں ایسا کرنے کے لیے پُراعتماد نہیں تھی۔

کیس کے ازسرنو جائزے کے حق کی اپیل

اس ماہ کے آخر میں ایک سراغ رساں سارجنٹ نے فون کیا اور کہا کہ انھوں نے میری جانب سے بطور متاثرہ کیس کے ازسرنو جائزے کے حق کو فائل کیا ہے جیسا کہ میں نے اپیل کا ذکر کیا تھا۔

یاد رہے کہ متاثرہ افراد کو تب از سر نو جائزے کا حق ملتا دیتا ہے جب وہ پولیس کے الزام نہ لگانے کے فیصلے سے ناخوش ہوں یا جب کسی مشتبہ شخص سے احتیاط کے ساتھ پوچھ گچھ کی گئی ہو۔

لیکن میں حیران ہوئی کہ انھوں نے شروع میں ہی مشتبہ شخص کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ کیا ملزم کو فون سے چھٹکارا پانے کا موقع نہیں دیا گیا تھا؟

جاسوس سارجنٹ نے اعتراف کیا کہ بلا شبہ گرفتاری کی جا سکتی تھی۔ تاہم اس نے مجھے یقین دلایا کہ اب بھی اس شخص پر الزام لگانے کا امکان برقرار ہے۔

میں نے اسے اپنے اب تک کے غیر تسلی بخش تجربے کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

انھوں نے کہا میں اچھی پوری طرح سمجھ سکتا ہوں اوراس حوالے سے ہمدردی ہی کر سکتا ہوں۔ میں صرف لنکاشائر کانسٹیبلری کی جانب سے معافی مانگ سکتا ہوں۔

چلیں یہاں کچھ تو ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا۔

جیسا کہ میں جرائم کے متاثرین کو ان کے مقدمات کے بارے میں آگاہ رکھنے اور فیصلوں کو چیلنج کرنے کی اجازت دینے کے منصوبوں پر رپورٹنگ کر رہی تھی۔

ستم ظریفی کا اختتام نہیں ہوا تھا کیونکہ اب اس واقعے کو اب لگ بھگ چھ ماہ کا عرصہ بیت گیا تھا اور اسے ٹریک پر رکھنے کے لیے مجھے ہر لمحے لڑنا پڑتا تھا۔

’مشتبہ شخص جھوٹ بول رہا تھا‘

اپریل 2023 میں کہانی کچھ آگے بڑھی۔

لنکا شائر کانسٹیبل نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’مشتبہ شخص جھوٹ بول رہا تھا۔‘

ملزم کے فون ٹریک کے ریکارڈ سے ثابت ہوا کہ یہ واقعی کالز کرنے کے لیے استعمال ہوا تھا تاہم ایسا ایک مختلف سم کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا اور اس پر میرا نمبر موجود تھا۔ یہ کالز اس کے ایڈریس کے قریب موبائل فون ٹاور سے ٹریس کی گئیں۔

انھوں نے یقین دہانی کروائی کہ ملزم کو دوبارہ گرفتار کیا جائے گا کیونکہ اس نے اس سم سے متعدد مشتبہ نازیبا فون کالز کی تھیں۔

تاہم انھیں یقین نہیں آیا کہ اس نے مجھے خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ اس کے بجائے وہ سوچتے رہے کہ وہ مختلف نمبروں پر کوشش کر رہا تھا اور اسے میری وائس میل سننے کے بعد میرا پہلا نام معلوم ہوا تھا۔

لیکن اس کے بعد بھی مئی اور جون تک مجھے کیس کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ملی۔

تاہم جون 2023 تک ایسا محسوس ہوا کہ اس کیس میں پھر سے سست روی غالب ہے۔

دو ماہ گزر چکے تھے اور پولیس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ میں نے پولیس کانسٹیبل کو میسج کیا۔

’یہ اب قدرے مضحکہ خیز ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کو کوئی جلدی ہی نہیں۔‘

اس نے اصرار کیا کہ وہ اس پر کام کر رہا ہے اور اس کی مزید فون چیک میں وقت لگ رہا ہے۔

میں نے جاسوس سارجنٹ کے ساتھ بات کر کے درخواست کی کہ آپ کے پاس یہ نیا ثبوت دو مہینے پہلے آیا تھا، آپ نے سوچا کہ یہ اہم ہے اور ابھی تک مشتبہ شخص پھر سے نہیں پکڑا گیا۔

انھوں نے کہا ’میں صرف معذرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ اتنی جلدی نہیں ہو رہا ہے جتنا ہونا چاہیے،

میں نے کہا کہ ’میں اب مایوس ہوں۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ پیش رفت دوبارہ رک گئی ہے۔‘

گرفتاری کے بعد ملزم کا ’نو کمنٹس‘ کہنا

جولائی 2023 میں مشتبہ شخص کو دوبارہ گرفتار کر کے اس سے تفتیش کی گئی تاہم انھوں نے پھر وہی دعویٰ دہرایا کہ اس کا فون کھو گیا تھا اور جب اس کے سامنے نئے ثبوت پیش کیے گئے تو اس نے ’نو کمنٹس‘ کہہ کر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

کانسٹیبل نے کہا کہ ثبوت اب استغاثہ کے پاس جائیں گے لیکن یہ امید افزا لگ رہا ہے۔

اور آخر میں انھوں نے اسے استغاثہ کو بھیجنے میں نومبر تک کا وقت لگا دیا۔ تاہم دسمبر 2023 میں جرم کی رپورٹ کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد کانسٹیبل نے مجھے بتایا کہ مشتبہ شخص پر جارحانہ، ناشائستہ یا دھمکی آمیز پیغام بھیج کر بدنیتی پر مبنی گفتگو کے جرم کا الزام عائد کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ معذرت کے ساتھ یہ معاملہ اتنا طول پکڑ گیا تاہم ہم اب اس تک پہنچ گئے ہیں۔

Getty Imagesفائل فوٹو

فروری 2024 میں بلیک برن سے تعلق رکھنے والے ملزم امجد خان نے مقامی عدالت میں پیش ہوئے اور الزامات سے انکار کیا۔

اس سے قبل نومبر سےملزم امجد خان لنکاسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمے کا سامنا کر رہے تھے۔

تاہم بدقسمتی سے عدالتیں بھی پولیس کی طرح نا اہل دکھائی دے رہی تھیں۔ تقریباً نو ماہ کے انتظار کے بعد بالآخر رواں ماہ امجد خان کا کیس صبح ساڑھے نو بجے سماعت کے لیے مقرر ہوا تاہم اسے سننے کی باری شام پانچ بجے آئی۔

لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔

امجد خان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے یقینی طور پر دو ہفتے قبل بھیجے گئے ثمن کو نہیں دیکھا ہو گا جس میں نئی تاریخ سے آگاہ کیا گیا تھا۔

مجسٹریٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ڈاک کے نظام کی حالت کو دیکھتے ہوئے وہ امجد خان کو شک کا فائدہ دیں گے اور مقدمے کی ایک اور تاریخ مقرر کی جائے گی۔

پانچ منٹ سے زیادہ شہوت انگیز گفتگو کی ریکارڈنگ سے جرم ثابت

مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مقدمہ 11 نومبر کے لیے برنلے مجسٹریٹس کورٹ میں درج ہے۔

مجھے اس وقت اس کا علم ہوا جب میں نے 11 تاریخ کو وٹنس کیئر یونٹ سے اپڈیٹس لینے کے لیے فون کیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ اسی دوپہر کو مقرر ہے اور میں وہاں ( اتنے شارٹ نوٹس کے باعث) بروقت وہاں اپنی موجودگی کو یقینی نہیں بنا سکتی تھی اور اس لیے انصاف اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔

سیلفورڈ میں مقیم میرے ایک ساتھی نک گارنیٹ وہاں چلے گئے۔

مقدمے کی سماعت کے آغاز میں استغاثہ اور دفاع نے اس بارے میں بحث کی کہ آیا کیس کی سماعت کی جا سکتی ہے کیونکہ اصل جرم کے بعد کافی وقت گزر چکا ہے۔

اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ مقدمہ آگے بڑھ سکتا ہے اور پھر انھوں نے امجد خان کی پانچ منٹ اور 41 سیکنڈز مشت زنی اور شہوت انگیز تبصروں سے بھری گفتگو کی ریکارڈنگ چلائی جسے میں نے ثبوت کے لیے ریکارڈ کیا تھا۔

تاہم امجد خان نے عدالت کو بتایا کہ اس نے کال نہیں کی تھی۔

’میرے فون سے کسی نے کال کی مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون تھے۔ بہت سے لوگ وہاں ہوتے تھے اور میں کبھی کبھی فون بھول جاتا تھا اور کسی نے میرے فون کے ساتھ گڑبڑ کی ہے۔‘

عدالت نے کہا کہ موبائل فون کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ کال ان کے ایڈریس کے آس پاس سے کی گئی تھی اور اس نے میرے نمبر پر نو بار کال کی تھی۔

مجسٹریٹس نے اس سے کہا: ’ہم نے تضادات کی نشاندہی کی اور ہمیں معلوم ہوا کہ یہ آپ کا فون تھا۔ کال فحش، غیر مہذب اور جارحانہ تھی۔ ہم اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ کال آپ کے علاوہ کسی کی طرف سے تھی۔ اس لیے ہم آپ کو اس جرم کا مجرم سمجھتے ہیں۔‘

اسے سزا سنائے جانے میں مزید دو ماہ لگیں گے۔

میٹ پولیس نے کہا کہ ’اس کیس کو ہینڈل کرنے میں واضح طور پر ہماری طرف سے کمی رہی اور ہم محترمہ لوسی میننگ پر ہونے والے خوفناک اثرات کو کم نہیں سمجھتے۔ اس طرح کے سنگین جرائم متاثرین کے لیے حقیقی خوف کا باعث بنتے ہیں اور پیشہ ورانہ اور فوری ردعمل کے مستحق ہیں۔

لنکاشائر پولیس نے کہا کہ ’اس کیس کی ابتدائی ہینڈلنگ توقع کے مطابق نہیں تھی لیکن جائزہ لینے اور متاثرہ کے ساتھ مزید رابطے کے بعد ایک شخص کو گرفتار کیا گیا، الزام لگایا گیا اور اسے سزا سنائی گئی۔‘

’ہم امید کرتے ہیں کہ کامیاب سزا سے انھیں کچھ تسلی کا احساس ملا ہو گا کہ انصاف ہو گیا ہے، حالانکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی امید سے زیادہ وقت لگا ہے۔‘

شیخوپورہ: ڈکیتی کی وارداتوں میں خواتین کا مبینہ ریپ کرنے والا گینگ جو متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیامیریٹل ریپ: ’وہ پورن فلمیں دیکھ کر وہی سب میرے ساتھ دہرانے کی کوشش کرتا‘نوعمر لڑکیوں کے ’گھناؤنے استحصال‘ پر برطانوی گرومنگ گینگ کو سزائیں: ’وہ میرے ساتھ سیکس کرتا اور پھر مجھے دوسرے مردوں کے پاس بھیجا جاتا‘ٹوبہ ٹیک سنگھ: ’مقتولہ خاتون کا ریپ ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے،‘ پولیس
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More