Getty Images
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حکومت کے نئے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈی او جی ای) کی ذمہ داری ٹیکنالوجی کی صنعت کی ارب پتی شخصیت ایلون مسک کو سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں نومنتخب امریکی صدر نے کہا ہے کہ مسک سابق رپبلکن صدارتی امیدوار وویک رامسوامی کے ساتھ مل کر سرکاری بیوروکریسی کو ختم کریں گے، اضافی قواعد و ضوابط میں کمی کریں گے، فضول خرچی میں کمی کریں گے اور وفاقی اداروں کی تنظیم نو کریں گے۔
اکتوبر میں ایک ریلی کے دوران مسک نے ٹرمپ کو کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت اپنے بجٹ کو چھ اعشاریہ پانچ ٹریلین سے کم ازکم دو ٹریلن امریکی ڈالر تک لا سکتے ہیں۔ایلون نے بارہا یہ مشورہ دیا ہے کہ حکومتی ملازمین کی تعداد میں نمایاں طور پر کمی آ سکتی ہے۔
رامسوامی نے بھی بہت سے وفاقی اداروں بشمول محکمۂ تعلیم، نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن، انٹرنل ریونیو سروس اور ایف بی آئی کو ختم کرنے کےمنصوبے پیش کیے ہیں۔
تحزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایلون مسک کو یہ عہدہ دینے کا بنیادی مقصد حکومتی اخراجات میں کمی لانا، بیوروکریسیمیں ریڈ ٹیپ کو ختم کرنا اور بیوروکریسی کے اختیارات میں کمی لانا شامل ہیں۔
ٹوئٹر سے ایکس تک کا سفر
جس طرح مسک اپنی کمپنیوں کو چلاتے ہیں یہ بات شاید اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ امریکی ان سے سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے لیے ان سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔
مسک نے اکتوبر 2022 میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو خریدا اور اس کا نیا نام ایکس دیا اور یہ معاہدہ 44 ارب امریکی ڈالر میں طے کیا گیا۔
اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے اس ویب سائٹ کو خریدنے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ مواد میں اعتدال کی پالیسی اور ان صارفین پر پابندی عائد کرنے کی پالیسی کو ختم کیا جائے جو نفرت انگیز اور گمراہ کن خبروں سے متعلق ہے اور اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
انھوں نے جن صارفین کے اکاؤنٹس کو دوبارہ بحال کیا ان میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ جن پر جنوری 2021 میں کیپیٹل ہل فسادات کے بعد پابندی عائد کر دی گئی تھی کیونکہ وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ان کے خلاف 2020 کے صدارتی انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ 2.0: دنیا کا سب سے امیر شخص، سابق فوجی اور فاکس نیوز اینکر نئی امریکی حکومت کا حصہایلون مسک: دنیا کے امیر ترین شخص کو ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن میں فتح سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ رازایلون مسک کی کمپنی نیورالنک کا بنایا برین چپ جسے ’فون سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘
مسک نے جب ایکس کو خریدا تو اُس کے بعد کمپنی میں بنیادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
انھوں نے ایکس کی افرادی قوت کو تقریباً آٹھ ہزار سے کم کر کے 1500 کر دیا۔ اپریل 2023 میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ’اگرجہاز ڈوب گیا تو کوئی نہیں بچے گا۔‘
یونیورسٹی آف لیسٹر میں امریکی سیاست پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ایلکس واڈان کہتے ہیں کہ ’ان کا خیال یہ تھا کہ کم لوگوں کی مدد سے کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا۔‘
انھوں نے ایکس یعنی سابق ٹوئٹر کی بلیو ٹکس کو سبسکرپشن ماڈل میں تبدیل کر دیا۔ بلیو ٹکس سے پہلے ظاہر ہوتا تھا کہ ایک ہائی پروفائل اکاؤنٹ اصلی ہے۔
لیکن ان تبدیلیوں کے کچھ غیر متوقع نتائج سامنے آئے۔
Getty Images
بلیو ٹکس پر سبسکرپشن ماڈل متعارف کروانے کے بعد ہونے والی تنقید کے نتیجے میں ایکس نے برانڈز اور آفیشل اکاؤنٹس کے لیے گولڈن یا سلور ٹکس متعارف کروائے تاکہ اداروں یا کمپنیز اور عام افراد کے درمیان بھی فرق کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ جن اکاؤنٹس پر بلیو ٹکس تھے اُس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ پیڈ اکاؤنٹس ہیں۔ اس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکے کہ کون سے اکاؤنٹس جعلی ہیں اور کون سے اصلی۔
مسک کا مزید کہنا ہے کہ اُن کی ٹیم کی جانب سے بوٹ اکاؤنٹس یعنی ایسے اکاؤنٹس جنھیں جدید خودکار طریقے سے چلایا جا رہا ہے پر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی تبدیلیوں نے نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات کو بڑھاوا دیا ہے، تاہم مسک کا اس کے جواب میں کہنا ہے کہ یہ کی کمپنی یعنی ایک سیاسی طور پر غیرجانبدار ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور سینٹر آن یو ایس پولیٹیکس کے ڈائریکٹر تھامس گفٹ کہتے ہیں کہ ’متعدد کاروبار چلانے والی شخصیت کی حیثیت سے مسک ابھی تک تو اپنے ادارے میں کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ مسک کا بنیادی کردار ’امریکی وفاقی حکومت میں افرادی قوت‘ کو ختم کرنا ہو گا لیکن ان کے عہدے سے انھیں نئی انتظامیہ میں اثر و رسوخ بھی ملے گا۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ حکومتی کارکردگی کے محکمے میں ان کا کردار زیادہ غیر رسمی ہو گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کم از کم اس وقت کے لیے ٹرمپ کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
ریگولیشن مخالف
مسک کی جانب سے (ڈی او جی ای) کا مطالبہ خود ایک میم کا حوالہ ہے جس میں ایک کتے کو دکھایا گیا ہے جو اس کے بعد کرپٹو کرنسی ڈی او جی ای کوئین کے نام سے بھی جانا جانے لگا۔ ان دونوں کا ذکر انھوں نے اکثر آن لائن کیا ہے۔
جدید امریکی سیاسی تاریخ کے پروفیسر کرسٹوفر فیلپس کا کہنا ہے کہ یہ نام ’کرپٹو ڈی ریگولیشن کا ایک حصہ ہے جو وہ کریں گے۔‘
ٹرمپ کے انتخاب کے بعد کرپٹو کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے صدر ریگلولیٹری ماحول میں نرمی کا عندیہ دیں گے۔
لیکن مسک کو ان کے دیگر کاروباری منصوبوں یعنی الیکٹرک وہیکل کمپنی ٹیسلا اور راکٹ فرم سپیس ایکس کی کامیابی میں بھی کسی حد تک مایوسی کا سامنا ہے۔
امریکی حکومت کی جانب سے ٹیسلا پر بارہا یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی یونین سازی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے جو بعض صورتوں میں وفاقی قانون کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔
290 ارب ڈالر تک کے اثاثے رکھنے والے مسک نے پہلے کہا تھا کہ وہ ’تمام یونین کے خلاف نہیں ہیں‘ لیکن آٹو ورکرز یونین کا ’پیداواری صلاحیت کو تباہ کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہے لہٰذا کوئی کمپنی یہ برداشت نہیں کر سکتی۔‘
ستمبر میں مسک نے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کو دھمکی دی تھی کہ وہ فلوریڈا میں کیپ کیناویرل سے کچھ راکٹ لانچ کرنے سے متعلق لائسنس کی مبینہ خلاف ورزی پر اپنی سپیس ایکس کمپنی پر چھ لاکھ 33 ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کرنے کے منصوبے پر مقدمہ دائر کریں گے۔ انھوں نے ایجنسی پر ’ریگولیٹری حد سے تجاوز‘ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
وہ بار بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مریخ کو زمین کی کالونی بنانا چاہتے ہیں اور سپیس ایکس کا سٹار شپ پروگرام اسے ممکن بنانے کی ایک کوشش ہے۔
لیکن ستمبر میں انھوں نے لکھا تھا کہ یہ صرف ایک امکان ہے ’جب تک کہ بیوروکریسی اس کا گلا گھونٹ نہ لے‘ اور دعوی کیا کہ ڈی او جی ای ’زمین سے باہر زندگی کو پھیلانے کا واحد راستہ ہے۔‘
پروفیسر فیلپس کا کہنا ہے کہ مسک کو ذاتی طور پر بہت سے ڈی ریگولیشن سے فائدہ ہوتا ہے اور میرے خیال میں کسی ایسے شخص کو جو ارب پتی ہے اور بڑی کارپوریشنوں کو ڈی ریگولیشن کے وفاقی منصوبے کا انچارج بناتا ہے، فطری طور پر مفادات کے ٹکراؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پروفیسر گفٹ کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مسک کے ریگولیٹری منظر نامے میں موجود کاروباری اداروں کے باعث اہم مفادات موجود ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ یہی وہ واحد محرک ہے جس کے باعث انھوں نے اس عہدے کی ذمہ داری لی ہے۔
مسک نے ٹرمپ کے حق میں سامنے آنے کے دوران ذاتی اور سیاسی خطرات کا سامنا بھی کیا ہے اور ان کی بہت سی سرگرمیاں اور بیان بازی نظریاتی طور پر ان مقاصد سے وابستہ ہونے کی عکاسی کرتی ہے جن پر وہ یقین رکھتے ہیں۔
پروفیسر وڈن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’واضح طور پر ان میں خود غرضی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اس بات کا بھی اندازہ تو ہے ہی کہ حکومتی سطح پر اور بیوروکریسی میں کیا کُچھ ہو رہا ہے۔‘
Reutersوفاداری کا انعام
مسک نے ٹرمپ کی سنہ 2024 کی صدارتی مہم کے لیے 20 کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔
پروفیسر فیلپس نے ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’لین دین‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ڈوج کا کردار ’انھیں بہت زیادہ علامتی اثر و رسوخ فراہم کرتا ہے اور ممکنہ طور پر ان چیزوں کو حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے جو ان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔‘
چونکہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ارب پتی پیدائشی طور پر امریکی شہری نہیں ہیں، اس لیے وہ صدر نہیں بن سکتے، جس نے ماضی میں سیاست میں شامل ہونے والے دیگر مشہور چہروں کو مایوس کیا ہے۔
لیکن مسک کا امریکی پالیسی پر اثر و رسوخ ہو سکتا ہے اور ٹرمپ کے پاس ایک ہمدرد مشیر ہو گا۔
پروفیسر گفٹ کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ اپنی نئی انتظامیہ میں اپنے وفاداروں کے ساتھ اپنے ارد گرد گھومنا چاہتے ہیں اور جب سے انھوں نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے تب سے مسک سے زیادہ وفادار کوئی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف مسک نے انتخابی مہم کے دوران ذاتی اور مالی طور پر ٹرمپ کی حمایت کی بلکہ وہ یوکرین کی جنگ کے لیے ٹیکنالوجی پالیسی جیسے متنوع موضوعات پر ایک قابل اعتماد مشیر کے طور پر بھی ابھرے ہیں۔‘
انتخابات کے بعد ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے درمیان ہونے والی بات چیت میں مسک کو ان کی وفاداری کا صلہ دیا جا سکتا ہے۔ جب ٹرمپ عہدہ سنبھالیں گے تو یوکرین کی جنگ خارجہ پالیسی کا ایک بڑا مسئلہ ہو گی۔
پروفیسر وڈن کہتے ہیں کہ ’یہ واقعی غیر معمولی بات ہے عام طور پر، یہاں تک کہ آپ کے سب سے بڑے عطیہ دہندگان کو بھی اس طرح کی رسائی نہیں ملے گی۔‘
ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کیا ہے؟
ایلون مسک نے پہلی مرتبہ حکومتی اخراجات میں کفایت شعاری کا ذکر اس وقت کیا تھا جب انھوں نے اس موسمِ سرما میں ایکس پر ایک سپیس کے دوران ٹرمپ کی میزبانی کرتے ہوئے کیا تھا۔
اس محکمے کا نام ’ڈوگی‘ ایک میم سے مطابقت رکھتا ہے جس میں شیبا اینو نامی کتّا دکھایا گیا تھا اور بعد میں ایک کرپٹوکرنسی کو بھِ ڈوگی گوائن کا نام دیا گیا تھا جو کہ ایلون مسک کی پسندیدہ ترین کرپٹو کرنسی ہے۔
پروفیسر فیلپس کہتے ہیں کہ ادارے کے نام سے اشارہ ملتا ہے کہ ’یہ لوگ کرپٹو قوانین کو نرم کریں گے۔‘ لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ ایلون مسک کی کفایت شعاری کی باتیں کس حد تک حقیقت بن پائیں گی۔
یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اعلان کے مطابق اس ادارے کی سرکاری طور پر کوئی حیثیت نہیں ہوگی بلکہ وہ ’صرف حکومت سے باہر رہتے ہوئے مشورے اور رہنمائی‘ فراہم کرسکیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جن اخراجات میں کمی کی بات کی جا رہی ہے ان کے اثرات کافی مضر بھی ہوسکتے ہیں اور ان پر کانگریس میں بھی اعتراضات سامنے آ سکتے ہیں۔
مسک خود بھی ان اثرات کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکیوں کو کثیرالمعیاد فائدوں کے کچھ عارضی پریشانیوں کو ہضم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
جس طرح سے وہ اپنی کمپنیاں چلاتے ہیں اس سے ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ امریکیوں کو آنے والے وقت میں ان سے کیا توقعات رکھنی چاہییں۔
انھوں نے اکتوبر 2022 میں ٹوئٹر کا کنٹرول حاصل کیا تھا اور اس کا نام تبدیل کرکے ایکس رکھ دیا تھا۔ وہاں بھی مسک نے انتہائی اقدامات کیے اور ملازمین کی تعداد 15 ہزار سے کم کرکے آٹھ ہزار کردی تھی۔
یونیورسٹی آف لیسٹر سے منسلک پروفیسر الیکس وڈن کہتے ہیں کہ ’ان کا کفایت شعاری کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ملازمتوں سے نکال دو۔‘
مسک نے ایکس پر مواد کی نگرانی کرنے کے حوالے سے بھی نرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد اکاؤنٹس کو ویریفائی کرنا بند کرنے کے علاوہ ایسے صارفین کو پلیٹ فارم پر واپس بلایا ہے جنھیں (ٹوئٹر کے قواعد کی) خلاف ورزی کے باعث پابندی کا سامنا تھا۔
تنقید کرنے والوں کا ماننا ہے کہ ان تبدیلیوں کے باعث نفرت انگیز مواد اور فیک نیوز میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مسک کا ماننا ہے ان کی ویب سائٹ سیاسی اعتبار سے نیوٹرل ہے۔
ان کی جانب سے کمپنی خریدنے کے بعد ایڈورٹائزرز نے بھی اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ یہ ویب سائٹ کے لیے پیسے کمانے کا سب سے اہم حصہ تھا۔
مسک نے ویب سائٹ کے لیے ریوینیو بڑھانے کے نئے طریقے نکالے ہیں جن میں سبسکرپشنز شامل ہیں تاہم ان کی کمپنی کی لاگت اب 44 ارب ڈالر سے کم ہے۔
تاہم مسک کا دیگر دو کمپنیوں ٹیسلا اور سپیس ایکس پر ریکارڈ اچھا ہے۔ کار کمپنیوں کی بات کی جائے تو ٹیسلا الیکٹرک وہیکلز میں اچھے منافع کے ساتھ نمایاں ہے۔ ان کی راکٹ کمپنی سپیس ایکس کو بہت کم قیمت پر راکٹ لانچ کرنے کا کریڈٹ دیا جائے۔
پروفیسر گفٹ کا کہنا ہے کہ ’مسک ایک بڑی کاروباری شخصیت کے طور پر اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ مسک کا بنیادی کردار تو ’امریکی حکومت میں ریڈ ٹیپ کو ختم کرنا ہو گا‘ لیکن ان کا عہدہ انھیں نئی انظامیہ میں اثر و رسوخ فراہم کرے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی میں ان کا کردار خاصا غیر روایتی ہو گا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کم سے کم فی الحال تو ٹرمپ ان کی بات سنیں گے۔‘
’ٹیسلا پائے‘: ’سولر چارجنگ اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے منسلک‘ موبائل فون جو حقیقت سے ابھی کافی دور ہےایلون مسک بمقابلہ مکیش امبانی: انڈیا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے ارب پتی کاروباری افراد کے درمیان جاری دلچسپ جنگایلون مسک کی کمپنی نیورالنک کا بنایا برین چپ جسے ’فون سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ رازایلون مسک: دنیا کے امیر ترین شخص کو ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن میں فتح سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ٹرمپ انتظامیہ 2.0: دنیا کا سب سے امیر شخص، سابق فوجی اور فاکس نیوز اینکر نئی امریکی حکومت کا حصہ