کوئٹہ ٹرین سٹیشن دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایاز مسیح جو کبھی ’بابر اعظم جیسا کرکٹر بننا چاہتے تھے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 11, 2024

نو نومبر کی صبح کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر کام کرنے والے ایاز مسیح اور ان کے ساتھی عمران وکٹر کے لیے معمول کے مطابق تھی۔ دونوں صبح چھ بجے پلیٹ فارم پر پہنچے تھے۔

ایاز مسیح کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بطور سپروائزر سینٹری ورکرز کام کرتے تھے جبکہ وکٹر مسیح بطور سینٹری ورکر خدمات انجام دیتے تھے۔

ایاز کی ذمہ داری تھی کہ وہ مختلف سنیٹری ورکرز کو پلیٹ فارم اور سٹیشن پر صفائی کی نشان دہی کرتے اور پھرٹرین کے پلیٹ فارم پر لگنے سے پہلے اس بات کو یقینی بناتے کہ تمام کام مکمل ہو گیا ہے۔

ریلوے سٹیشن پر عموماً صفائی کا آغاز صبح چھ بجے ہی ہو جاتا اور یہ لازم سمجھا جاتا کہ مسافروں کے آنے اور ٹرین کے پلیٹ فارم پر لگنے سے پہلے یہ کام مکمل کر لیا جائے۔

ایاز مسیح نے اس دن بھی سب کو کام سونپا اور معمول کی طرح کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ وہ پلیٹ فارم پر عمران وکٹر کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اور ایاز مسیح اور وکٹر دونوں ہی موقع پر ہلاک ہو گئے۔

یاد رہے کہ سنیچر نو نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے دھماکے میں حکام کے مطابق 12 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 28 سالہ ایاز مسیح اور 35سالہ عمران وکڑ بھی شامل تھے۔

ایاز مسیح نے سوگواروں میں دو بیوائیں اور دو بچے چھوڑے ہیں جبکہ ان کی ایک اہلیہ اس وقت چھ ماہ کے حمل سے ہیں۔ عمران وکٹر کے سوگواروں میں تین بچے اور بیوہ ہیں۔

عمران وکٹر کی تدفین کوئٹہ ہی میں کی گئی جبکہ ایاز مسیح کی آخری رسومات ان کے آبائی علاقے سبی میں ادا کی گئیں۔

Getty Imagesنو نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ایک خودکش حملے میں حکام کے مطابق 12 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے ہیں’پاپا کیوں لینے نہیں آئے؟‘

عمران وکٹر کے خالہ زاد بھائی اور بچپن کے دوست حضرون مسیح کا کہنا تھا کہ عمران وکٹر تقریباً 15 سال سے محمکہ ریلوے میں بطور سنیٹری ورکر خدمات انجام دے رہے تھے۔

’کئی برسوں سے ان کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے ڈیوٹی پر چلے جاتے اور پھر دوپہر سے پہلے چھٹی ہوجاتی تو اپنے بچوں کو سکول سے لینے جاتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہمیں اس حملے میں ان کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تو گھر میں کہرام مچ گیا اور ہم فوراً ہسپتال پہنچے اور پھر ہسپتال سے میت لے کر گھر آ گئے، ایسے میں دکھ اور پریشانی میں کسی کو یہ خیال ہی نہیں آیا کے بچوں کو سکول سے واپس لانا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب بچوں کو لینے سکول پہنچے تو انھوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ ڈیڈی کیوں نہیں آئے جس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جب بچوں کو ان کی ہلاکت کا علم ہوا تو وہ بس ایک ہی بات کرتے رہے کہ پاپا اٹھ جاؤ۔‘

کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم حملے میں 26 افراد ہلاک: ’دھوئیں کے بادل چھٹے تو دیکھا کئی لوگ زمین پر گرے ہوئے تھے‘کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر خودکش حملہ: ’1935 کے زلزلے کے بعد سب سے بڑی تباہی‘ بلوچستان میں شدت پسندی اور حکومتی حکمتِ عملی پر سوال: ’شورش سے دہشت گردی کے انداز میں نمٹنا بیک فائر کر جاتا ہے‘ڈپٹی کمشنر پنجگور کی ہلاکت: ’بندوق اتنی طاقتور تھی کہ گولیاں گاڑی کا شیشہ اور سیٹ چیرتی ہوئی ذاکر بلوچ کو لگیں‘’اپنی چھت کی خواہش‘

حضرون مسیح کہتے ہیں کہ عمران وکٹر کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔ وہ کوئٹہ میں ریلوے کالونی میں سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھے۔ مہنگائی کے اس دور میں ایک تنخواہ پر ان کا گزرا مشکل تھا اور وہ پارٹ ٹائم کام کرتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پارٹ ٹائم عمران مسیح ایک ساؤنڈ سسٹم والے کے ساتھ بھی کام کرتے تھے۔ ’صبح ریلوے سٹیشن پر ڈیوٹی کرتے اور دوپہر کو گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد شام کو شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں ساؤنڈ سسٹم کا کام کرتے جہاں ان کو دیہاڑی ملتی تھی۔‘

حضرون مسیح کا کہنا تھا کہ وہ عموماً گئے رات ان تقریبات سے واپس آتے اور پھر صبح سویرے ڈیوٹی پر چلے جاتے۔

’ان کی کوشش تھی کہ کچھ نہ کچھ کر کے وہ اپنا ذاتی گھر بنا سکیں اور بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکیں۔‘

ایاز مسیح کے چچا سنتھراج نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایاز کی بھی یہ ہی خواہش تھی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ذاتی گھر بنا سکیں۔‘

’وہ کہا کرتا تھا کہ بس ایک خواہش ہے کہ کسی طرح بچوں کے لیے اپنی چھت حاصل کر لوں۔‘

اس لیے انھوں نے کوئٹہ میں قسطوں پر ایک پلاٹ لے رکھا تھا۔ کبھی وہ اس پلاٹ کی ماہانہ اقساط ادا کر پاتے اور کبھی نہیں۔

’وہ بابر اعظم ہی بننا چاہتا تھا‘

ان کے چچا ان کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایاز نے تھوڑی عمر پائی ہے مگر اس کی زندگی کی کہانی بڑی عجیب ہے۔‘

ایاز مسیح کے چچا سنتھراج نے بتایا کہ وہ کرکٹ کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ خود بھی ایک اچھے کھلاڑی تھے انھوں نے اپنے آبائی علاقے سبی میں ایاز کاؤنٹی کلب کے نام سے ایک کرکٹکلب بھی قائم کر رکھا ہے۔

ایاز مسیح کے دوست اور ایاز کاونٹی سبی کی ٹیم کے رکن ناصر جاوید کہتے ہیں کہ سبی میں کھیلوں کا شاہد ہی کوئی ایسا شوقین ہوگا جس نے ایاز مسیح اور ایاز کاؤنٹی کا نام نہیں سنا ہوگا یا اس کو کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایاز مسیح بچپن ہی سے زندگی سے بھرپور اور کھیلوں کا شوقین تھا۔ کچھ عرصہ قبل تک وہ کرکٹ اور فٹ بال دونوں کھیلا کرتا تھا۔ چھوٹی عمر میں ہی وہ فٹ بال کا اتنا اچھا کھلاڑی تھا کہ بلوچستان اور سبی کے تمام بڑے کھلاڑی اس کی تعریف کرتے اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے تھے۔ مگر پھر اسنے فٹ بال پر توجہ کم کردی اور کرکٹ کھیلنا شروع کردی تھی۔

ناصر جاوید کہتے ہیں کہ ’وہ ایک شاندار آل راؤنڈر تھا۔ بیٹنگ کرنے آتا تو چوکے چھکے لگاتا اور بولنگ کرنے آتا تو وکٹیں اڑاتا دیتا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک موٹر سائیکل حادثے میں ایاز کی ٹانگ پر ایسا فریکچر آیا جو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ٹھیک نہ ہوا جس کا انھوں نے بہت اثر لیا اور انھیں کرکٹ چھوڑنا پڑی۔ ایاز کے آئیڈیل پاکستانی کرکٹر بابر اعظم تھے۔ وہ بابر اعظم ہی بننا چاہتا تھا مگر اس حادثہ نے سب کچھ تبدیل کردیا تھا۔‘

’ان کا کرکٹ کلب بھی بند ہو گیا اور ان کے دوستوں نے کرکٹ بھی چھوڑ دی۔‘

ناصر جاوید کہتے ہیں کہ اس حادثے نے انھیں ڈپریشن کا شکار کر دیا۔

ناصر جاوید کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد ہم دوستوں نے اس صورتحال پر غور کیا اور ایک بار پھر ایاز کاؤنٹی کلب کو بحال کیا اور ایاز کو دوبارہ میدان میں بلایا۔‘

ناصر بتاتے ہیں کہ ’جب ایاز گراونڈ میں واپس آیا تو اس کی شخصیت پر اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک ٹانگ کے سہارے کھیلنا سیکھ لیا۔‘

ناصر جاوید کہتے ہیں کہ ایاز کے لیے ایک اور مسئلہ سبی میں بحثیت سنیٹری ورکر اپنے فرائض ادا کرنا تھا۔ ’وہ ایک ٹانگ میں خرابی کے باعث صفائی ستھرائی کا کام نہیں کرسکتا تھا جبکہ سبی میں خصوصی افراد کے لیے کوئی کوٹہ موجود نہیں تھا جس پر اس کا تبادلہ کوئٹہ کر دیا گیا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ایاز کوئٹہ جا کر بھی کرکٹ کھیلتے رہے مگر پھر وقت کے ساتھ ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئی اور وہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہنے لگے۔

’وہ اکثر کہتا تھا کہ میں کوشش کروں گا کہ میرے بچے پڑھ لکھ جائیں اور مستقبل میں ان کو میری طرح سنیٹری ورکر نہ بننا پڑے۔‘

کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر خودکش حملہ: ’1935 کے زلزلے کے بعد سب سے بڑی تباہی‘کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم حملے میں 26 افراد ہلاک: ’دھوئیں کے بادل چھٹے تو دیکھا کئی لوگ زمین پر گرے ہوئے تھے‘’بچہ کہتا رہا میرے پاپا نہیں آئے‘: بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں بچ جانے والے عینی شاہدین نے کیا دیکھاڈپٹی کمشنر پنجگور کی ہلاکت: ’بندوق اتنی طاقتور تھی کہ گولیاں گاڑی کا شیشہ اور سیٹ چیرتی ہوئی ذاکر بلوچ کو لگیں‘ بلوچستان میں شدت پسندی اور حکومتی حکمتِ عملی پر سوال: ’شورش سے دہشت گردی کے انداز میں نمٹنا بیک فائر کر جاتا ہے‘بلوچستان میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملہ کرنے والی ماہل بلوچ شدت پسند تنظیم کا حصہ کیسے بنیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More