سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں سموگ سے ڈھکا ہوا لاہور: ’یہ تو شروعات ہے، بدترین آلودگی والے دن آگے آئیں گے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 10, 2024

Getty Imagesلاہور اس کے 1 کروڑ 30 لاکھ رہائشی گذشتہ ایک ہفتے سے اسی تکلیف سے گزر رہے ہیں

سموگ کی شروعات آہستہ سے ہوتی ہے۔

پہلے پہل آپ اسے دیکھ نہیں سکتے لیکن سونگھ سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ جل رہا ہو اور اس میں تیزی تب آتی ہے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے۔

پھر دھواں اور دھند آپ کو اور آپ کے شہر کو گھیر لیتے ہیں۔ آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دھویں کے درمیان چل رہے ہوتے ہیں اور آپ کے سروں پر بھی سموگ کے بادل منڈلا رہے ہوتے ہیں۔

اگر آپ نے منھ پر ماسک نہیں لگایا ہوا یا ماسک کچھ دیر کے لیے منھ سے ہٹا لیا تو پھر اچانک ہی کڑوی سی ہوا آپ کے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔

آپ کے گلے میں تکلیف اور حلق میں خراشیں ہونے لگتی ہیں۔ طبعیت بگڑنے لگتی ہے، آپ کو چھینکیں آنے لگتی ہیں اور آپ کھانسنے لگتے ہیں۔

لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ سموگ زیادہ خطرناک ہے: جیسے کہ بچے، بزرگ یا وہ لوگ جنھیں سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران ان کے تمام وارڈز میں مریضوں کا رش بڑھنے والا ہے۔

لاہور اور اس کے ایک کروڑ 30 لاکھ رہائشی گذشتہ ایک ہفتے سے اسی تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ اس مہینے ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر گیا، جب یہ نمبر 300 سے اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماحول چرند پرند و انسانوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔

پاکستانی حکام اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی پھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ لاہور میں سموگ کے سبب ہر سال ہی شہریوں کو پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اس بار جو آلودگی کا عالم ہے وہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

سکول بند ہیں، ملازمین کو کہا گیا ہے کہ وہ گھروں سے کام کریں اور لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ یہ تمام اقدامات ’گرین لاک ڈاؤن‘ کے تحت کیے جا رہے ہیں اور جن مقامات پر فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں رکشہ، بڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ روزانہ رات 8 بجے شہر بھر میں بازار بند کروائے جائیں اور اتوار کو پورے دن تمام مارکیٹس بند رکھیں۔ شہر میں 17 نومبر تک تمام پارکس اور چڑیا گھر بھی بند رہیں گے۔

ناسا سے منسلک سائنسدان پون گپتا کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آلودگی ’نومبر اور دسمبر میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو شروعات ہے۔ بدترین آلودگی والے دن ابھی آگے آئیں گے۔‘

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو جس سموگ نے گھیرا ہوا ہے اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ناسا کی سیٹلائیٹ کی جانب سے لی گئی تصاویر میں انڈیا کے دارالحکومت دہلی اور لاہور سمیت متعدد مقامات پر سموگ کی موٹی سی تہہ اور آگ کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔

پاکستان میں ’سانس لینے کی جنگ‘: بیجنگ اور لندن نے بدترین سموگ کے مسئلے کا حل کیسے نکالا؟لاہور میں سموگ: پنجاب حکومت کا ’گرین لاک ڈاؤن‘ اور انڈیا سے ’ماحولیاتی سفارت کاری‘ کا منصوبہجب سموگ نے لاہور اور دلی کی طرح لندن کو تاریکی سے ڈبو دیاپنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

چھ ہفتوں پہلے جب ان مقامات کی تصاویر لی گئی تھیں تو یہاں صاف آسمان نظر آتا تھا اور آگ کے نشان میں کم تھے۔

انڈیا اور پاکستان میں فصلوں کی کٹائی کے بعد گھاس پھوس کو جلانا اس سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ آگ صرف اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ زمین کو اگلی فصل کے لیے جلدی تیار کیا جا سکے۔

ناسا کے گاڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر سے منسلک سائنسدان ہیرن جیٹھوا کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے مطابق اس برس اس خطے میں ’15 ہزار 500 سے 18 ہزار 500‘ مقامات پر آگ لگائی گئی اور یہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے حکام کے مطابق لاہور میں تقریباً 30 فیصد سموگ پڑوسی ملک انڈیا سے آتی ہے۔

سموگ پر قابو پانے کے لیے انڈین حکومت نے اس برس ان کسانوں پر دو گُنا جرمانے کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں۔

لیکن لاہور میں جو سب سے زیادہ فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ شہر میں چلنے والی 50 لاکھ موٹر سائکلیں اور لاکھوں گاڑیاں ہیں۔

اس شہر کے نواح میں انڈسٹریاں اور کوئلے سے چلنے والی اینٹوں کی بھٹیاں بھی ہیں جن سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پھر جیسے ہی سال اپنے اختتام پر پہنچنے والا ہوتا ہے فضا میں موجود یہ دھواں اور تبت کے پہاڑوں سے آنے والی سرد ہوائیں ماحول کو مزید آلودہ بنا دیتی ہیں۔

Reutersانڈیا اور پاکستان میں فصلوں کی کٹائی کے بعد گھاس پھوس کو جلانا اس سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے

یہ بات بالکل واضح ہے کہ لاہور میں پھیلی ہوئی یہ زہریلی سموگ لوگوں کو بیمار کر رہی ہے۔

امریکی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق ایئر کوالٹی اینڈیکس کا 50 تک ہونا صحت مند فضا کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ 300 سے اوپر فضا کو زہریلا بنا دیتا ہے۔

پاکستان میں ایئر کوالٹی انیشیٹو کے بانی عابد عمر کہتے ہیں کہ نومبر کے مہینے میں ہر دن ایئر کوالٹی انڈیکس بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

’لاہور کے کچھ مقامات پر تو ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ جمعرات کو ایئر کوالٹی انڈیکس پر ایک مقام پر ریڈنگ ایک ہزار 917 تھی۔‘

چند روز قبل پاکستان کے مقامی میڈیا میں خبر آئی کہ شہر بھر کے ہسپتالوں میں 900 سے زیادہ ایسے مریض موجود ہیں جنھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

لاہور کے سب سے بڑے ہسپتال سے منسلک ڈاکڑ عرفان ملک کہتے ہیں کہ ’جتنے لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں انھیں دمّے، گلے میں خراش اور کھانسی کی شکایات ہیں۔‘

لاہور کی رہائشی سعدیہ کاشف اس صورتحال کے سبب کافی پریشان ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہر ماں کی طرح میں بھی اپنے بچوں کو بھاگتے اور کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ انھیں فضائی آلودگی کا کوئی خوف نہ ہو۔‘

حکومت کا ’گرین لاک ڈاؤن‘ ان کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’حکومت کے لیے سکول بند کر دینا آسان ہے لیکن اس بحران سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات لینا مشکل ہے۔‘

Getty Imagesپنجاب کے دارالحکومت لاہور کو جس سموگ نے گھیرا ہوا ہے اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے

برسوں سے لاہور میں حکام شہر میں پھیلی آلودگی کا سدباب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے لیے گئے اقدامات کے سبب عارضی بہتری ضرور ہوگی لیکن پبلک ٹرانسپورٹ اور دھواں اڑاتی گاڑیوں کا مسئلہ حل ہونے میں وقت لگے گا۔

پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کا کہنا ہے کہ وہ انڈین پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ ’ماحولیاتی سفارتکاری‘ کے ذریعے خطے کو درپیش ایک بڑے بحران کو ختم کرنے کے لیے کام کیا جا سکے۔

انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان نے ان سے تاحال رابطہ نہیں کیا ہے۔

عابد عمر کہتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کوئی موسمی مسئلہ نہیں بلکہ سال بھر کا مسئلہ ہے۔

’لاہور دہلی کے مقابلے میں زیادہ آلودہ ہے۔‘

Getty Imagesبرسوں سے لاہور میں حکام شہر میں پھیلی آلودگی کا سدباب کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں

ان کا ماننا ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ عابد عمر کے تجزیہ کے مطابق گذشتہ برس اکتوبر کے مقابلے میں اس برس اکتوبر میں 25 فیصد زیادہ آلودگی ریکارڈ کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے انڈیا اور پاکستان کو جلد ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔

’میں لوگوں کو بتاتا ہوں کہ صاف اور نیلا آسمان گُڈ گورننس کی نشانی ہوتی ہے۔‘

جب سموگ نے لاہور اور دلی کی طرح لندن کو تاریکی سے ڈبو دیالاہور میں سموگ: پنجاب حکومت کا ’گرین لاک ڈاؤن‘ اور انڈیا سے ’ماحولیاتی سفارت کاری‘ کا منصوبہماؤنٹ ایورسٹ: کیا دنیا کے سب سے بلند پہاڑ کی اونچائی ایک دریا کی وجہ سے ہر سال بڑھتی جا رہی ہے؟اے 23 اے: دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودا جو سمندری بھنور کا قیدی بن گیا ہےوہ چیونٹیاں جو اپنی ساتھی کی جان بچانے کے لیے اس کی ٹانگ کاٹ دیتی ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More