پانچ نومبر کی دوپہر جب تقریباً تمام ہی ٹی وی چینلز پر امریکی صدارتی انتخاب کی پولنگ کی خبریں اور تجزیے شہ سرخیوں میں تھے اسی دوران پاکستان کے نجی اور سرکاری ٹی وی چینلز پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں ملک کے پہلے آئینی بینچ کی منظوری کی خبریں چلنے لگیں۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کمیشن کا اجلاس دو بجے شیڈول تھا جس میں ملک کے پہلے سات رکنی آئینی بینچ کی منظوری دی گئی تاہم اس خبر میں چونکا دینے والی بات سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کے سربراہ کا نامزد کیا جانا تھا۔
کمیشن میں شامل پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز نے جسٹس امین الدین خان کی تعیناتی کی مخالفت کی اس کے باوجود کمیشن نے سات پانچ کے تناسب سے آئینی بینچ کی تشکیل کی منظوری دی ۔
اس خبر کے سامنے آتے ہی پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جہاں بینچ کے حق میں ’ساتویں ووٹ‘ پر سوال اٹھے وہیں یہ اس بات پر بھی بحث چھڑ گئی کہ کیا آئینی بینچ کے سربراہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے۔
یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا کہ کمیشن نے سات پانچ کے تناسب سے بینچ کی تشکیل کی منظوری دی لیکن اعلامیے میں اس بات کا ذکر نہیں کہ کن اراکین نے بینچ کے حق میں ووٹ دیے اور کن اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم جب کمیٹی میں موجود ’زرائع‘ سے خبریں باہر آنا شروع ہوئیں تو اس میں یہ خبر سامنے آئی کہ نامزد سربراہ نے بھی بینچ کے حق میں ووٹ دیا۔
آئینی بینچ کی تشکیل اور سپریم کورٹ میں تقسیم سے متعلق گردش کرتے سوالات پر ہم نے تجزیہ کاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا آئینی بینچ کے سربراہ کے پاس کیا اختیارات ہوں گے اور یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ جسٹس امین الدین بطور سربراہ آئینی بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے بھی زیادہ بااثر ہوں گے، خصوصا سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حوالے سے۔
Getty Images’بظاہر لگتا ہے امین الدین ہی چیف جسٹس ہوں گے‘
26ویں آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے تحت آئینی بینچ ہی اب تمام آئینی معاملات کو دیکھے گا خصوصاً جن معاملات میں آئین کی تشریح مطلوب ہو۔
تواب ایسے میں یہ چہ مگوئیاں سر اٹھا رہی ہیں کہ ان ذمہ داریوں کی موجودگی میں بادی النظر میں آئینی بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان سے زیادہ با اختیار اور طاقتور ہو گا۔
ہم نے یہی خدشات تجزیہ کاروں کے سامنے رکھے۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر بیرسٹر صلاح الدین نے بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں کچھ یوں کہا کہ ’جو ایسے کیسز ہیں جن میں حکومت یا برسراقتدار جماعتوں کا مفاد یا دلچسپی ہو گی تو وہ سارے آئینی بینچ کے پاس جائیں گے اور ان میں کیسز کی تقسیم کا فیصلہ بینچ کا سربراہ کرے گا۔‘
’وہ تمام کیس جو حکومت کے لیے اہم ہوں گے تو اس تناظر میں امین الدین ہی چیف جسٹس ہوں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان بار کونسل کے رکن اخترحسین ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب نے یہ کہا تھا کہ تمام سپریم کورٹ کے ججز کو آئینی عدالت میں رکھا جائے تاکہ ’پک اینڈ چوز‘ نہ ہو لیکن کمیشن کے ممبران نے امین الدین صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر حکومت کو سپریم کورٹ میں اتفاق قائم رکھنا تھا تو ان کو چاہیے تھا کہ سارے ججز سینیارٹی کی بنیاد پر نامزد کیے جائیں۔ ویسے بھی ذرا عجیب لگتا ہے کہ ایک جج خود ووٹ ڈال رہا ہو کہ مجھے آئینی بینچ کا سربراہ نامزد کیا جائے۔‘
’سپریم کورٹ کی اصل بار اس بینچ کے پاس ہو گی‘
26ویں آئینی ترمیم میں آئین کی آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا جو آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گی۔
جوڈیشل کمیشن ان آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔
تو کیا آئینی بینچ کا سربراہچیف جسٹس آف پاکستان سے زیادہ با اختیار ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں تجزیہ کار ضیغم خان نے اتفاق کیا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں۔
’قانونی نظر سے الگ ہو کر اگر دیکھیں تو پاکستان کے سٹرکچر میں اصل بااختیار آئینی بینچ کا سربراہ ہی ہو گا۔ کیونکہ سیاسی تنازعات اور آئینی تنازعات میں ہی قانون کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ کے اختیارات میں سے ایک جوڈیشل نظر ثانی کا اختیار ہے جو اس بینچ کے پاس ہو گا۔‘
ضیغم خان نے اس بات پر زور دیا کہ اس میں کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ اصل بار سپریم کورٹ کے اس بینچ کے پاس ہو گی۔
چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےآئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟آئینی ترامیم: کیا حکومت کی کنپٹی پر کسی نے سائلنسر گن تانی ہوئی تھی؟26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟کیا سپریم کورٹ میں تقسیم مزید گہری ہو گی؟
ایک ایسے وقت میں جب 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالت عظمیٰ میں سنیارٹی میں نمبر تین پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کا چناؤ ملک کے نئے چیف جسٹس کے طور پر ہوا تو آئینی بینچ کے سربراہ کی نامزدگی نے عدلیہ میں تقسیم کی باتوں کو مزید ہوا دی ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس بھی عدلیہ میں تقسیم کی باتوں سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مظہرعباس نے کہا کہ ’اب جو صورتحال بن رہی ہے اس میں سپریم کورٹ میں واضح تقسیم نظر آ رہی ہے اور یہ قاضی فائز عیسی سے بھی پہلے تھی، ان کے زمانے میں بھی اور اب بھی یہ تقسیم ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔‘
مظہر عباس نے اس کی مثال حالیہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس سے دی۔ ’ابھی جو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا اس میں ہمارے علم میں آیا کہ دوران اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سب اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں اور اس میں اختلاف بھی سامنے آئے، جس میں آئینی بینچ کے سربراہ کے حوالے سے تحفظات تھے۔‘
’تو اگر ان اختلافات میں جسٹس منصور علی شاہ یا منیب اختر کے ساتھ چیف جسٹس کھڑے ہوں تو یہ حکومت کے لیے کچھ اچھی خبر نہیں ہو گی۔‘
اسی سوال کے جواب میں تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ’عدلیہ کی تقسیم کافی دنوں سے چل رہی ہے اور ماضی میں بھی اس کی مثالیں ہیں۔ مثلاً نومبر 1997 میں جب عدلیہ کے تقریباً تمام ججز نے اپنے چیف جسٹس جسٹس سجاد علی شاہ کو باہر نکال دیا تھا۔‘
ضیغم خان کے مطابق ’عدلیہ میں اس وقت بھی اندرونی تقسیم تو نظر آ رہی ہے جس کو یہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یعنی جو ججز بہت تنقید کرتے یا حکومت کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے یا سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر دوسری طرف جھکاؤ رکھتے ہیں ان کو اقلیت میں ڈالنا چاہ رہے ہیں۔‘
کیا جسٹس یحییٰ آفریدی یہ تقسیم ختم کر پائیں گے؟
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر ایڈوکیٹ یاسین آزاد نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یحییٰ آفریدی واحد چیف جسٹس ہوں گے جو سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم ختم کرنے میں اہم کرار ادا کریں گے۔
ان کے مطابق ’ قیاس آرائیاں بہت زیادہ ہیں۔ ججز کا تعلق قانون اور آئین سے ہوتا ہے اور وہ اسی کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر کبھی نہیں آنا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘
دوسری جانب مظہرعباس نے یہ دعویٰ کیا کہ آگے چل کر حکومت اور عدلیہ دونوں کے لیے مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’کیسز کے التوا کا معاملہ ججز کی تعداد بڑھانے سے کم نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی شہرت ایک ’سٹریٹ فارورڈ‘ جج کی ہے یعنی حکومت اگر ان پر کوئی دباؤ ڈالنا چاہے گی تو وہ اس پریشر کو قبول نہیں کریں گے۔‘
مظہر عباس نے کہا کہ ’آنے والے دنوں میں جو چند فیصلے آئیں گے چاہے وہ آئینی بینچ سے ہوں یا سپریم کورٹ سے تو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے لیے یہ بڑا چیلینج ہو گا کہ وہ عدلیہ میں اس تقسیم کو کم کر سکیں۔‘
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں کیا ہوا؟
سات رکنی آئینی بینچ کی منظوری پانچ نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف کے پاکستان کے اجلاس میں دی گئی۔
جوڈیشل کمیشن کے اعلامیے کے مطابق ’جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ ہوں گے، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان آئینی بینچ کا حصہ ہوں گے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا کہ ووٹنگ کے بعد اکثریت (12 میں سے 7) نے آئینی بینچ کے قیام کی منظوری دی، آئینی بینچ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی شامل ہے جبکہ اس کی مدت دو ماہ مقرر کی گئی ہے۔
اعلامیے میں اس بات کا ذکر نہیں کہ کن اراکین نے بینچ کے حق میں ووٹ دیے اور کن اراکین نے اس کی مخالفت کی۔
تاہم کمیشن میں شامل پاکستان بار کونسل کے اختر حسین کے مطابق بینچ کی تشکیل کی مخالفت کرنے والوں میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، سینیٹر شبلی فراز اور ممبر قومی اسمبلی عمر ایوب شامل ہیں۔
اختر حسین کا کہنا تھا کہ ان کے علاوہ بینچ کے حق میں ووٹ دینے والوں میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور اعوان، سینیٹر فاروق ایچ نائیک، رکن قومی اسمبلی شیخ آفتاب احمد اور روشن خورشید شامل ہیں۔ ان کے مطابق جسٹس امین الدین خان نے بھی بینچ کے حق میں ووٹ دیا۔
دوسری جانب جسٹس امین الدین خان پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے رکن بھی بن گئے ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کے تحت آئینی بینچ کے سربراہ کمیٹی کے تیسرے رکن ہوں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل کو جسٹس امین الدین خان کی جگہ جوڈیشل کمیشن کا 13واں رکن بنا دیا گیا ہے۔
نئی آئینی ترمیم کے مطابق اگر آئینی بینچ کا سربراہ جوڈیشل کمیشن کا رکن ہو تو ان کی جگہ دوسرے سینیئر جج جوڈیشل کمیشن کے رکن بنیں گے۔
ان کے علاوہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی کے رکن ہیں۔
بی بی سی کے نمائندے شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران دو مختلف آرا سامنے آئیں۔
ان کے مطابق ایک رائے یہ تھی کہ پوری سپریم کورٹ کو ہی آئینی کورٹ قرار دے دیا جائے جبکہ دوسری رائے آئینی بینچ کے تشکیل کے حق میں تھی۔ اختر حسین کا کہنا تھا کہ کمیشن کے سات اراکین نے آئینی بینچ تشکیل دینے کی حمایت کی اور ان ہی اراکین نے جسٹس امین الدین خان کے حق میں ووٹ دیا۔
EPAآئینی بینچوں کا قیام
رواں ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا، جس کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اس پر دستخط کر کے اسے آئین کا حصہ بنا دیا۔
26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل 191 اے کا اضافہ کیا گیا۔ یہ آرٹیکل آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق ہے۔
ترمیم کے مطابق آئینی بینچوں کی تعداد اور ان کی مدت کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کمیشن کرے گی۔ جوڈیشل کمیشن ان آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنائے گا۔
بل میں کہا گیا کہ اس آئینی بینچ کے پاس موجود اختیارات کسی دوسرے بینچ کو تفویض نہیں کیے جا سکتے۔
اس ترمیم میں یہ بھی کہا گیا کہ ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی کارروائی ان کیمرا ہو گی تاہم اس کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔
چیف جسٹس کی تعیناتی، آئینی بینچ اور سود کے خاتمے سمیت 26ویں آئینی ترمیم کن اُمور کا احاطہ کرتی ہےآئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کسے کیا ملا؟آئینی ترامیم: کیا حکومت کی کنپٹی پر کسی نے سائلنسر گن تانی ہوئی تھی؟سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھا کر 25 کرنے کی تجویز کیا ہے جس کی تحریک انصاف مخالفت کر رہی ہے؟منحرف رُکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہو گا: ’آرٹیکل 63 اے کی تشریح کالعدم قرار دینے سے بظاہر حکومت کے ہاتھ کُھل گئے ہیں‘