BBC
’طشتری میں سفید ابلے ہوئے چاول، ان کے اندر کباب، ساتھ میں ایک سینکا ہوا ٹماٹر، ہری مرچ اور ان پر بٹر پیپر میں لپٹی ہوئی مکھن کی ٹکیا۔‘
چلو کباب یعنی چاول اور کباب اپنی خوشبو اور لذت کے حوالے سے ایرانی ریستورانوں کا طرہِ امتیاز رہا ہے، کبھی روشنیوں کے شہر میں لذت، نفاست اور ثقافت کی علامت سمجھے جانے والے یہ کیفے آج زوال کا شکار ہیں۔
کراچی میں ایرانی ریستوران کی ابتدا
ایرانی شہریوں کی برصغیر میں آمد تو کئی صدیوں سے جاری تھی لیکن یہاں کے جدید شہروں میں آبادی میں آنا اور کاروبار میں شمولیت کا پتہ 20ویں صدی کی ابتدا سے ملتا ہے۔
آرکیٹیکٹ اور ریسرچر ماروی مظہر کہتی ہیں کہ 20ویں صدی میں ایران کی کوئی اچھی تاریخ نہیں رہی، ہنگامہ آرائی، عالمی جنگیں، قحط اور خشک سالی، بغاوت اور انقلاب سب نے ایک ساتھ جنم لیا، اس غیر مستحکم ماحول میں کئی ایرانیوں نے روشن مستقبل کی تلاش میں ہجرت کی۔
BBC
’انھیں بمبئی اور کراچی میں ایک اچھی جگہ ملی اور یہ ہی وہ وقت تھا جب یہاں ایرانی کیفے کی آمد ہوئی۔‘
کتاب ’اس دشت میں ایک شہر تھا‘ کے مصنف اقبالاے رحمان مانڈویا لکھتے ہیں کہ ایرانی برادری کا کراچی آ کر آباد ہونا زیادہ پرانی بات نہیں مگر 20ویں صدی کے اوائل میں جب کراچی کے شہری سہولیات و ادب سے مانوس ہوئے تو بغرض کاروبار ایرانی برادری کی کراچی میں آمد شروع ہوئی۔
کراچی کے قدیم کوچہ کھارادر میں متعدد ایرانی خاندان آباد تھے جو زیادہ تر قالین اور خشک میوہ جات کے کاروبار سے منسلک تھے۔
بمبئی بازار میں ان کے دفاتر اور دکانیں تھیں۔ ان میں مسلمان، پارسی اور بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یوں بتدریج ہوٹل اور بیکری کے کام سے وابستہ افراد کی تعداد بڑھتی گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد شہر کے معروف ریستوران اور بیکریاں ایرانی ہی چلا رہے تھے۔
کتاب ’ایسا تھا میرا کراچی‘ کے مصنف محمد سعید جاوید لکھتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر کراچی میں ایرانی باشندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں زیادہ تر لوگ بڑی کامیابی سے مختلف علاقوں میں ریستوران چلاتے تھے جن کو ’ایرانی ہوٹل‘ کہا جاتا تھا جو تقریباً شہر کی ہر سڑک اور چوراہے پر موجود ہوتے تھے۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ کراچی کے ایسے ہوٹلوں پر ان کی مکمل اجارہ داری تھی۔
BBCایرانی پکوان اور مقامی مسالے
آئی آئی چندریگر روڈ اور ضیاالدین روڈ کے سنگم پر واقعے ’خیر آباد ریستوران‘ کو ایرانی خاندان کی چوتھی نسل سنبھالتی ہے۔
خیر آباد ریستوران کے مالک عباس علی کے مطابق 1932 میں ان کے پر دادا نے یہ کاروبار شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ ایک چائے خانہ تھا بعد میں انھوں نے یہاں ایرانی پکوان متعارف کیے۔
عباس علی کا تعلق ایران کے علاقے یزد سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جو پاکستانی زیارت پر ایران جاتے تھے انھیں وہاں ایرانی پکوان پسند آتے۔ ہم اس ذائقے کو یہاں لیکر آگئے لوگوں نے اس کو خوش آمدید کہا۔‘
عباس اپنے ریستوران کے پکوانوں کے ذائقے میں بدلاؤ پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پہلے یہاں بہت سے ایرانی گاہک آتے تھے تو چند کھانے خالص ایرانی تھے۔ جب سے ایرانی گاہکوں کا آنا کم ہوا تو مجبوری میں انھوں نے پکوان کی ترکیب میں مرچ مسالہ بڑھا دیا، جیسے چلو کباب، چلو تکہ وغیرہ سب وہ ہی ہے لیکن اس میں مسالوں کا اضافہ کر دیا۔
کراچی میں ایرانی ہوٹل صبح سات بجے کھلتے ہیں جہاں ناشتے سے لے کر رات کا کھانا تک دستیاب ہوتا ہے لیکن بعض ہوٹل آٹھ بجے کے بعد بند ہو جاتے ہیں۔
عباس علی کہتے ہیں کہ ان کے پاس ہر قسم کے کھانے ہوتے ہیں، یہاں گاہک اپنی جیب دیکھ کر کھا سکتا ہے یعنی دال سے لیکر کڑاہی اور جھینگا مچھلی سب دستیاب ہے۔
ازبک پلاؤ: ’قدرتی ویاگرا‘ مگر بنانے والے کی جان ہتھیلی پرترک جوڑے کی وقت گزاری کے لیے شروع کی جانے والی سرگرمی جو کامیاب کاروبار میں بدل گئیجیک فروٹ: وہ پھل جس نے سری لنکا کو بھوک سے بچایالکھنؤ کا کبابوں سے عشق اور آلودگی: ’کباب کوئلے کی جگہ گیس پر سینکے جائیں گے تو ظلم ہو گا‘
کراچی کے علاقے گارڈن سے ایم اے جناح روڈ آنے والی سڑک آغا خان سوئم پر ’کیفے مبارک‘ موجود ہے جس کو نوجوان یوسف علی چلاتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کی اس کاروبار سے وابستہ تیسری نسل ہیں۔
وہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنے ریستوران کے مینیو میں کچھ تبدیلی لائے ہیں، اب ان کے پاس زیادہ تر ڈشز اور پکوان پاکستانی ہیں جیسے بریانی تاہم ان کے پاس چلو کباب، چلو تکہ اور چلو ماہی بھی دستیاب ہیں۔
’کیفے مبارک‘ کے سامنے ہی ’پہلوی ریستوارن‘ موجود ہے جو اس وقت بریانی اور فاسٹ فوڈ کے لیے مختص کر دیا گیا ہے تاکہ نوجوان کسٹمرز کو متوجہ کر سکیں۔ ان کے ساتھ ہی ’کیفے درخشاں‘ پر دیگر پاکستانی کھانے دستیاب ہیں۔
ایرانی ہوٹل اور اپنائیت کا احساسBBCخیر آباد ہوٹل کے مالک عباس علی کہتے ہیں کہ کراچی میں پراپرٹی کی قدر و قیمت بڑھ گئی تو عمارتوں کے مالکان نے ایک ایک کر کے سب کو نکال دیا
ایرانی ہوٹل کھانوں کے علاوہ اپنے فرنیچر اور خوبصورتی کی وجہ سے بھی مقبول ہیں۔
’کیفے مبارک‘ کے مالک یوسف علی بتاتے ہیں کہ ایرانی ہمیشہ سے اپنے ریستورانوں کی صفائی ستھرائی کے لیے مشہور رہے ہیں۔ یہ ان کی خصوصیت اور ثقافت کا حصہ بھی ہے، دوسرا یہ صنعت بھی ایسی ہے، جس میں اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھا جانا چاہیے۔
’ایک مخصوص قسم کا فرنیچر، کٹلری، ویٹرز کا یونیفارم یہ سب ایرانی کلچر کا حصہ ہے۔ اس سے قبل اس خطے میں یہ سب چیزیں نہیں تھیں، ویٹرز کا کسٹمرز کے ساتھ عاجزی اور شائستگی کے ساتھ پیش آنا۔ اس سب کی بزرگوں نے وقت کے ساتھ تربیت فراہم کی اور باقی ہوٹلوں نے بعد میں اس انداز کو اپنایا۔‘
ریسرچر اور آرکیٹیکٹ ماروی مظہر نے کراچی میں ایرانی ہوٹلوں پر ایک جامع تحقیق کی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جتنے بھی ایرانی ریستوران نظر آتے ہیں، ان میں ایسا نہیں تھا کہ ان کا مالک کوئی اور ہو اور سامنے چلانے والا کوئی اور ہو۔
’کراچی کی پرانی عمارتوں کے درمیان یہ ریستوران پائے جاتے تھے۔ ایرانی اور زرتشی جتنے بھی ریستوارن تھے یہ کارنر عمارتوں میں فرنٹ پر ہوتے تھے۔‘
’ان کیفیز یا ریستورانوں میں داخل ہوتے ہی تو جو کاونٹر ہوتا اس کی بڑی مرکزی حیثیت ہوتی تھی۔ مالک کو پتہ ہوتا تھا کہ روز کون سا کسٹمر آتا ہے کون کیا کھاتا ہے، کون کس قسم کی چائے پیتا ہے۔ جس سے اس کا اپنے کسٹمر کے ساتھ ایک قسم کا تعلق بن جاتا۔‘
BBC
ماروی مظہر بتاتی ہیں کہ ایرانی ہوٹل کے آرکیٹیکٹ اور کلچر میں تین چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں: فرش کی خوبصورت ٹائلیں، دوسرا لکڑی کا فرنیچر جس میں ماربل ٹاپ ٹیبل، صوفے اور کرسیاں جنھیں ہم ایرانی کرسیاں بھی کہتے ہیں۔
’اس کے علاوہ ہوٹل کی اونچی چھتیں۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ریستوران میں چھوٹی جگہ ہو اور زیادہ کرسیاں۔ آپ جب اندر داخل ہوتے تھے تو آپ کو محسوس ہوتا تھا کہ آپ ایک آرکیٹیکچرل اور کلچرل سپیس میں آئے ہیں۔‘
’آس پاس کی دیواروں پر الماریاں بنی نظرآتی تھیں جس پر ہاتھوں سے بنی ہوئی ایران کی لینڈ سکیپ پینٹنگس ہوتی تھیں جو آپ کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتی تھی۔‘
’ان الماریوں کے اندر آپ کو کٹلری نظر آتی تھیں۔ مختلف سائز کی پلیٹیں، طشتریاں، کیتلی، چائے کے کپ، گرین ٹی کے لیے الگ کپ تھے، وہ ہر چیز کو شیشے کی الماریوں میں رکھتے تھے تاکہ کسٹمر کو یہ محسوس ہو کہ یہ آپ کا اپنا گھر ہے۔‘
کراچی میں جب سنیما گھروں کی تعداد بڑھی تو اس کے ساتھ ایرانی ریستورانوں نے بھی فروغ پایا، جہاں لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ بھی جاتے رہے ہیں۔ شہر میں مڈل کلاس کے لوگوں کے لیے یہ تفریح کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔
ہر ایرانی ریستوران کے ساتھ ایک پان کا کھوکھا بھی موجود ہوتا تھا۔
مرحوم اختر بلوچ نے چند سال قبل ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ ’ایرانی ہوٹلوں کے مالکان اور ان کے مذہبی عقائد کی پہچان ہوٹل میں لگی کسی نہ کسی علامت سے ہو جاتا ہے۔‘
کراچی میں ایرانی ہوٹلوں اور بیکریوں کے حالیہ دوروں کے دوران ایسی نشانیاں نظر نہیں آئیں شاید ملک میں مذہبی عدم برداشت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ نشانیاں بھی اب لاپتہ ہو گئی ہیں۔
BBCایرانی ہوٹلوں کے بند ہونے کی وجہ
ریلوے کواٹرز کے قریب آئی آئی چندریگر روڈ کے ساتھ واقع ’یونائیٹڈ کافی ہاؤس‘ پچھلے دنوں بند کر دیا گیا تاہم اس پرانی عمارت کے باہر ابھی تک بورڈ لگے ہیں لیکن اندر کی طرف سے اس کو مسمار کر دیا گیا۔
جب ہم یہاں پہنچے تو صلاح الدین نامی شہری سے ملاقات ہوئی جو گذشتہ 40 برس سے یہاں آ رہے ہیں۔ انھوں نے سڑک کی دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں بھی ایک ایرانی ہوٹل تھا جو بند ہو گیا۔
صلاح الدین کہتے ہیں کہ ’دیگر ہوٹلوں کے مقابلے میں یونائیٹڈ کافی ہاؤس کے معیار میں زمین آسمان کا فرق تھا، چاہے وہ کھانا ہو، چائے ہو یا کافی۔ ان کے کھانے کا ذائقہ اور معیار بہترین تھا اور نرخ بھی مناسب تھے۔‘
کراچی میں 100 سے زائد ایرانی ہوٹل موجود تھے لیکن اب صرف گنتی کے چند ہی بچے ہیں۔ یہ ہوٹل شہر کے اہم مقامات پر ہوا کرتے تھے۔
خیر آباد ہوٹل کے مالک عباس علی کہتے ہیں کہ کراچی میں پراپرٹی کی قدر و قیمت بڑھ گئی تو عمارتوں کے مالکان نے ایک ایک کر کے سب کو نکال دیا۔
’عمارتوں کے مالک عدالت بلا کر کہتے ہیں یہ جگہ خالی کرو۔ اب ہمیں یہاں ستر اسی سال ہو گئے ہیں۔ ہمآج بھی کرائے دار ہیں کیونکہ ہم یہ ہوٹل خرید نہیں سکتے کیونکہ ہمارے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہی اور کوئی بھی ایرانی شہری یہاں جگہ خرید نہیں سکتا، ہر سال انکوائری ہوتی ہےتو پوچھتے ہیں پاسپورٹ کہاں ہے؟ ہمارے جو بچے یہاں پیدا ہوئے ان تک کو بھی شہریت نہیں ملی۔ اس لیے آہستہ آہستہ لوگ یہ سب چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘
عباس علی کہتے ہیں کہ جو بزرگ تھے وہ فوت ہو گئے یا ایران منتقل ہو گئے،نوجوان اس کاروبار میں آنا پسند نہیں کرتے کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا، ہم بینک اکاونٹ نہیں کھول سکتے۔
کیفے مبارک کے نوجوان مالک یوسف علی بھی اتفاق کرتے ہیں کہ نوجوان اس کاروبار میں آنا نہیں چاہتے اس لیے وہ دیگر شعبوں کی طرف چلے گئے۔
’اس کے علاوہ کچھ ایسی وجوہات ہیں جو ہم کہہ بھی نہیں سکتے ہیں۔ بس یوں سمجھے یہاں کام روز بروز مشکل ہوتا گیا، جس کی وجہ سے ایرانیوں نے کاروبار بند کر دیا، کچھ بیچ گئے اور کچھ تو چھوڑ کر چلے گئے۔‘
ایم اے جناح روڈ پر واقع ایرانی ریستوران ’پہلوی ہوٹل‘ کے مالک کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا، اس سے قبل کھارادر میں حمشیری بیکری کے مالک صادق حمشیری کو ان کے بھتیجے سمیت قتل کیا گیا، ان سمیت نصف درجن ایرانی ہوٹل، بیکری مالکان، ایرانی ٹی کمپنی کے مالک ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔
ملک میں فرقہ واریت اور مذہبی عدم برداشت کی صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے ایرانی ہوٹل کے مالکان بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
BBC’کیفے مبارک‘ کے مالک یوسف علی بھی اتفاق کرتے ہیں کہ نوجوان اس کاروبار میں آنا نہیں چاہتے اس لیے وہ دیگر شعبوں کی طرف چلے گئےایرانی ریستوران کراچی کا ورثہ
آرکیٹیکٹ اور ریسرچر ماروی مظہر ایرانی ریستوارنوں کی کراچی کے ورثے سے گمشدگی کو اس کی روح اور شناخت کا نقصان قرار دیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ورثہ صرف ایک عمارت نہیں ہوتی جو ایک حکم نامہ جاری کر کے اس کو ورثہ قرار دے دیا دراصل اس میں جو لوگ رہتے ہیں ان کی زبان، تجربات، کہانیاں، ان طرز زندگی فن تعمیر ان سب کو زندہ میوزیم کی طرح دیکھنا چاہیے۔
’ہمارے یہاں ایرانی کلچر پر بات نہیں ہوتی۔ اس کو نظر انداز کر دیا گیا، نوروز یا جو دوسرے تہوار ہیں ان کو ہم نے اپنے کلینڈر میں وقت اور جگہ نہیں دی اور اس وجہ سے وہ لاپتہ ہو گئے ہیں۔‘
ماروی کے مطابق یہ وہ ثقافتی جگہیں ہیں جنھیں محفوظ بنانے کی ضرورت ہے لیکن محکمہ کلچر اس سطح پر کام نہیں کرتا بلکہ اوپری سطح پر کام کرتا ہے۔
وہ کہتی ہے اس ورثے کا کھو جانا شہر کے لیے نقصان ہے۔
ترک جوڑے کی وقت گزاری کے لیے شروع کی جانے والی سرگرمی جو کامیاب کاروبار میں بدل گئیازبک پلاؤ: ’قدرتی ویاگرا‘ مگر بنانے والے کی جان ہتھیلی پرآپ گپ شپ کے شوقین ہیں تو سویڈن کبھی مت جائیے گا!قراقرم کے خاموش اور پُرخطر راستوں کی مسافر وہ آخری مویشی بان خواتین جن کی زندگیاں کسی پہیلی سے کم نہیںلکھنؤ کا کبابوں سے عشق اور آلودگی: ’کباب کوئلے کی جگہ گیس پر سینکے جائیں گے تو ظلم ہو گا‘