Reutersایلون مسک سٹارلنک کے ذریعے 100 ممالک میں انٹرنیٹ فراہم کرتے ہیں
دنیا کے دو امیر ترین افراد یعنی ایلون مسک اور مکیش امبانی کے درمیان فی الحال سخت مقابلہ نظر آ رہا ہے کیونکہ دونوں انڈیا کی سیٹلائٹ براڈ بینڈ مارکیٹ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
یہ مقابلہ اس وقت مزید تیز ہو گیا جب گذشتہ ہفتے انڈین حکومت نے یہ اعلان کیا کہ براڈ بینڈ کے لیے سیٹلائٹ سپیکٹرم کو نیلامی کے بجائے انتظامی طور پر مختص کیا جائے گا جبکہ پہلے اسے نیلامی کے تحت تفویض کیا جاتا تھا۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں ایلون مسک نے نیلامی ماڈل کی تنقید کی تھی جبکہ مکیش امبانی اس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
براڈ بینڈ سیٹلائٹ دراصل اپنی سیٹلائٹ کوریج کے دائرے میں کہیں بھی باآسانی انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح یہ دور دراز یا دیہی علاقوں کے لیے ایک قابل اعتماد آپشن بن جاتا ہے جہاں ڈی ایس ایل جیسی روایتی خدمات یا کیبل انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہے۔ ڈی ایس ایل ایک ایسا کنکشن ہے جو ڈیٹا منتقل کرنے کے لیے ٹیلی فون لائنوں یا کیبلز کا استعمال کرتا ہے۔
انڈیا کے ٹیلی کام ریگولیٹرز نے ابھی تک سپیکٹرم کی قیمتوں کا اعلان نہیں کیا ہے اور کمرشیل سیٹلائٹ انٹرنیٹ خدمات ابھی شروع ہونا باقی ہیں۔ تاہم کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی آئی سی آر اے (اکرا) کے مطابق انڈیا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے صارفین کی تعداد 2025 تک 20 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔
یہ مارکیٹ مسابقتی ہے جس میں تقریباً نصف درجن اہم پلیئرز ہیں اور اُن کی قیادت ایک حد تک انڈین ارب پتی مکیش امبانی کی کمپنی ’ریلائنس جیو‘ کرتی ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہونے والی نیلامیوں میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے کے بعد ریلائنس جیو نے اب لگزمبرگ میں قائم سیس ایسٹرا کے ساتھ شراکت داری کی ہے، جو ایک معروف سیٹلائٹ آپریٹر ہے۔
Getty Imagesمکیش امبانی نے انڈیا کے ٹیلی کام سیکٹر میں غلبے کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے
ایلون مسک کا سٹارلنک زمین کی سطح سے 160 سے 1,000 کلومیٹر کے درمیان موجود کم ارتھ آربٹ (لو ارتھ آربٹ یا لیو) سیٹلائٹس کا استعمال کرتا ہے، جبکہ اس کے برعکس سیس ایسٹرا بہت زیادہ اونچائی پر زمین کے درمیانے مدار (ایم ای او) پر سیٹلائٹس کو چلاتا ہے۔ زمین پر ریسیورز سیٹلائٹ سے سگنل وصول کرتے ہیں اور اسے انٹرنیٹ ڈیٹا پر پروسیس کرتے ہیں۔
ایلون مسک کے سٹارلنک کے مدار میں 6,419 سیٹلائٹس ہیں اور 100 ممالک میں اس کے 40 لاکھ صارفین ہیں۔ وہ سنہ 2021 سے انڈیا میں خدمات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ریگولیٹری رکاوٹوں کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی کمپنی اس بار انڈیا میں داخل ہوتی ہے تو اس سے وزیر اعظم نریندر مودی کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنے ملک کی جانب راغب کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
اس سے ان کی حکومت کی ان کوششوں کو بھی مدد ملے گی کہ وہ کاروبار کے حامی کے طور پر اپنی شبیہ کو جلا بخشیں۔
اگرچہ ماضی میں نیلامی حکومت کے لیے منافع بخش ثابت ہوئی ہے لیکن اب حکومت انتظامی طور پر سیٹلائٹ سپیکٹرم کو مختص کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔
Getty Imagesامریکہ کے نیو میکسیکو میں ایک گھر کی چھت پر سٹارلنک کا اینٹینا
تحقیقی ادارے کاؤنٹرپوائنٹ ریسرچ میں ٹیکنالوجی کے ایک تجزیہ کار گیرتھ اوون کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ سپیکٹرم کو عام طور پر نیلامی کے ذریعے مختص نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں شامل اخراجات مالیاتی جواز یا کاروبار میں سرمایہ کاری کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس انتظامی طور پر مختص کیے جانے سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ سپیکٹرم کو ’اہل‘ افراد یا کمپنیوں کے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے، اور ایسی صورتحال میںایلون مسک کی سٹارلنک کو ریس میں شامل ہونے کا موقع مل سکے گا۔
لیکن مکیش امبانی کی ریلائنس کا کہنا ہے کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے نیلامی ضروری ہے کیونکہ انڈیا میں اس کے متعلق واضح قانونی دفعات کی کمی کے پیش نظر سیٹلائٹ براڈ بینڈ خدمات کس طرح براہ راست لوگوں کو پیش کی جا سکتی ہیں۔
اکتوبر کے شروع میں ریلائنس نے ٹیلی کام ریگولیٹر کو کئی خطوط لکھے ہیں جنھیں بی بی سی نے دیکھا ہے۔ ان خطوط میں ریلائنس نے بار بار ’سیٹیلائٹ پر مبنی اور زمینی رسائی کی خدمات کے درمیان برابری کا میدان‘ فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔
کمپنی نے یہ بھی کہا کہ ’سیٹیلائٹ ٹیکنالوجیز میں حالیہ پیشرفت نے سیٹلائٹ اور زمینی نیٹ ورکس کے درمیان خطوط کو نمایاں طور پر دھندلا کر دیا ہے‘ اور یہ کہ ’سیٹیلائٹ پر مبنی خدمات اب صرف ان علاقوں تک محدود نہیں رہیں جو زمینی نیٹ ورکس سے محروم ہیں۔‘ ایک خط میں کہا گیا ہے کہ سپیکٹرم کی تفویض انڈیا کے ٹیلی کام قوانین کے تحت نیلامی کے ذریعے کیا جاتا ہے انتظامی طور پر مختص کرنے کی اجازت صرف ’عوامی مفاد، حکومتی کاموں، یا تکنیکی یا معاشی وجوہات کی وجہ سے نیلامی نہ ہونے کی صورت میں‘ ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایلون مسک نے نشاندہی کی کہ سپیکٹرم کو ’آئی ٹی یو نے طویل عرصے سے سیٹلائٹ کے لیے مشترکہ سپیکٹرم کے طور پر نامزد کیا تھا۔‘ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (آئی ٹی یو) ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے لیے اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی ہے جو عالمی سطح پر ضابطے طے کرتی ہے اور انڈیا اس کا رکن اور دستخط کنندہ ہے۔
دنیا کے 14 امیر ترین افراد کون ہیں اور ان کی دولت میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟فیس بک کا انڈیا کے امیر ترین شخص پر ’ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا جوا‘ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک کا بنایا برین چپ جسے ’فون سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘پیڈل، نہ سٹیئرنگ وہیل: ایلون مسک کی سائبر کیب روبو ٹیکسی کیسے چلے گی؟AFPانڈیا کے بہت سے دور دراز کے گاؤں ابھی بھی انٹرنیٹ سے نہیں جڑ سکے ہیں
جب خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ اطلاع دی کہ مکیش امبانی حکومت سے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں تو ایلون مسک نے ایکس پر ایک پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’میں (مسٹر امبانی) کو فون کروں گا اور پوچھوں گا کہ سٹار لنک کو انڈیا کے لوگوں کو انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے میں مقابلہ کرنے کے لیے کیا یہ کچھ زیادہ پریشانیاں کھڑا کرنا تو نہیں ہے۔‘
مسٹر اوون کا کہنا ہے کہ انتظامی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کے خلاف مسٹر امبانی کی مزاحمت انھیں حاصل سٹریٹجک برتری کا نتیجہ ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر نیلامی کے تحت مختص کرنے کا معاملہ ہو تو مکیش امبانی زیادہ بولی لگا کر ’ایلون مسک کو پیچھے چھوڑنے کے لیے‘ تیار ہو سکتے ہیں اور اس طرح سٹار لنک کو انڈیا کے بازار ممکنہ طور پر باہر رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
لیکن صرف مکیش امبانی ہی نے نیلامی کی حمایت نہیں کی ہے، اور بھی کمپنیاں ہیں جو نیلامی کی حامی ہیں۔
بھارتی ایئرٹیل کے چیئرمین سنیل متل نے کہا ہے کہ وہ کمپنیاں جو شہر کے صارفین کو خدمات فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ’ٹیلی کام لائسنس لیں اور ہر کسی کی طرح سپیکٹرم خریدیں۔‘
سنیل متل انڈیا کے دوسرے سب سے بڑے وائرلیس آپریٹر ہیں اور وہ مکیش امبانی کی کمپنی کے ساتھ ملک کی ٹیلی کام مارکیٹ کے 80 فیصد حصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ٹیلی کمیونیکیشن کے ماہر مہیش اپل کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مزاحمت ایک ’دفاعی اقدام ہے جس کا مقصد بین الاقوامی کھلاڑیوں کی لاگت میں اضافہ کرنا ہے اور انھیں یہ کمپنیاں طویل مدتی خطرات کے طور پر دیکھتی ہیں۔‘
’حالانکہ فوری مقابلہ نہیں ہے اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجیز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ (انڈین) ٹیلی کام کمپنیاں بڑے زمینی کاروبار کے ساتھ ڈرتی ہیں کہ سیٹلائٹ جلد ہی زیادہ مسابقتی بن سکتے ہیں، اور ان کے غلبہ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔‘
واضح طور پر وسیع انڈین مارکیٹ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ مشاورتی کمپنی ای وائی پارتھینن کے مطابق انڈیا 1.4 ارب لوگوں میں سے تقریباً 40 فیصد کی اب بھی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے، جس میں زیادہ تر دیہی علاقے آتے ہیں۔
ڈیٹا رپورٹل عالمی سطح پر آن لائن رجحانات پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے مطابق چین میں تقریباً 1.09 ارب انٹرنیٹ صارفین ہیں جو کہ انڈیا کے 751 ملین سے تقریباً 340 ملین زیادہ ہے۔
Getty Imagesانڈیا میں انٹرنیٹ ڈیٹا کافی سستا ہے
انڈیا میں انٹرنیٹ سے لنک ہونے کی شرح اب بھی عالمی اوسط 66.2 فیصد سے پیچھے ہے لیکن حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فرق تیزی سے کم ہو رہا ہے۔
اگر مناسب قیمت کا تعین کیا جائے تو سیٹلائٹ براڈ بینڈ اس فرق کو مٹانے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ آئی او ٹی ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو روزمرہ کی چیزوں کو انٹرنیٹ سے جوڑتا ہے، اور انھیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
انڈیا میں قیمتوں کا تعین بہت اہم ہے جہاں موبائل ڈیٹا عالمی سطح پر سب سے سستا ہے۔ اور مودی کے مطابق یہ فی گیگا بائٹ صرف 12 سینٹ ہے۔
ٹیکنالوجی کے تجزیہ کار پرسانتو رائے کہتے ہیں کہ (انڈین آپریٹرز کے ساتھ) قیمتوں کے معاملے میں جنگ ناگزیر ہے۔ مسک کے پاس بہت پیسے ہیں۔ اور (بظاہر) کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ مقامی مارکیٹ میں قدم جمانے کے لیے (کچھ) جگہوں پر ایک سال تک مفت خدمات پیش نہیں کر سکتے۔‘
سٹارلنک پہلے ہی کینیا اور جنوبی افریقہ میں قیمتوں میں کمی کر چکا ہے۔
اگرچہ یہ آسان نہیں ہے لیکن سنہ 2023 کی ایک رپورٹ میں ای وائی پارتھینن نے یہ پایا ہے کہ سٹارلنک کی زیادہ لاگت بڑے انڈین براڈ بینڈ فراہم کنندگان سے تقریباً 10 گنا زیادہ اور سرکاری سبسڈی کے بغیر یہ ان کے لیے مقابلہ کرنا مشکل بنا سکتی ہیں۔
اور جس طرح سٹارلنک کام کرتا ہے اس کی بنیاد پر عالمی کوریج فراہم کرنے کے لیے میو یعنی میڈیم ارتھ اوربٹ سیٹلائٹس کے مقابلے میں مزید بہت سے لیو یعنی لو ارتھ اوربٹ سیٹلائٹس کی ضرورت ہو گی۔ ان کو لانچ کرنے اور ان کی دیکھ بھال میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہو گی اور اس میں اخراجات میں اضافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ انڈین آپریٹرز کے کچھ خدشات بے بنیاد ہو سکتے ہیں۔
مسٹر اوون نے کہا کہ ’کاروبار کبھی بھی مکمل طور پر سیٹلائٹ میں تبدیل نہیں ہوں گے جب تک کہ کوئی زمینی آپشن نہ ہو۔ زمینی نیٹ ورک ہمیشہ سیٹلائٹ سے کم مہنگے ہوں گے، سوائے کم آبادی والے علاقوں کے۔‘
ایلون مسک کو اس شعبے میں پہلا ہونے کا فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن ’سیٹیلائٹ کی مارکیٹیں ترقی کرنے میں بہت سست واقع ہوئی ہیں۔‘
لیکن ایک بات واضح ہے کہ خلا کے انٹرنیٹ پر دنیا کے دو امیر ترین آدمیوں کے درمیان حقیقی معنوں میں جنگ شروع ہو گئی ہے۔
پیڈل، نہ سٹیئرنگ وہیل: ایلون مسک کی سائبر کیب روبو ٹیکسی کیسے چلے گی؟فیس بک کا انڈیا کے امیر ترین شخص پر ’ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا جوا‘ایلون مسک اور ’ناقابل فہم‘ 56 ارب ڈالر تنخواہ کا تنازع: ’چھ سال سے ان کو کام کے عوض کوئی پیسہ نہیں ملا‘سٹارشپ: ’مریخ تک پہنچنے‘ کے مشن کا آزمائشی راکٹ جو پرواز کے آٹھ منٹ بعد تباہ ہوگیا’سٹارلائنر‘: کیا بوئنگ کمپنی کا نیا مشن خلا بازی کی امریکی صنعت کو بچا پائے گا؟مکیش امبانی دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟