لاہور کتاب میلے میں ’35 کتابیں جبکہ 1200 شوارمے اور 800 بریانی فروخت‘ ہونے کے دعوے کی حقیقت کیا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 22, 2024

Getty Images(فائل فوٹو)فائل فوٹو

پاکستان کے سوشل میڈیا پر گذشتہ چند روز سے لاہور کتاب میلے کے حوالے سے ایک تصویر اور پاکستانی ٹی وی کے اداکار خالد انعم سے منسوب ایک بیان بہت زیادہ وائرل ہے۔

اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ لاہور میں منعقد ہونے والا عالمی کتاب میلہ ایک فوڈ فیسٹیول میں تبدیل ہو گیا اور شرکا نے کتابوں سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا خریدیں اور اس میں صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ 1200 شوارمے اور 800 بریانی خریدی گئیں۔

اس وائرل تصویر اور بیان کو نہ صرف سوشل میڈیا پر مختلف صارفین کی جانب سے شیئر کیا گیا بلکہ کچھ سیاستدانوں نے بھی اس پر تبصرے کیے۔

مگر ان تبصروں اور خبروں میں کیا کہا گیا، اس طرف بڑھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ مذکورہ دعوے کی حقیقت کیا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ بک فیسٹیول تو رواں برس فروری میں منعقد ہوا تھا تو اب آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اس میں فروخت ہونے والی کتابوں پر بحث کیوں ہو رہی ہے؟

اس دعوے کی حقیقت کیا؟

اس تصویر اور بیان کی حقیقت جاننے کے لیے ہم نے ان ہی سے رابطہ کیا جن کے نام سے یہ بیان منسوب کر کے سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔

لاہور کتاب میلے سے متعلق تصویر اور بیان پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ٹی وی اداکار خالد انعم کا کہنا تھا کہ ان اعداد و شمار میں کوئی حقیقت نہیں۔

انھوں نے اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً دو روز قبل ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر انگریزی میں ایک پوسٹ دیکھی اور اس کا اردو میں ترجمہ کر کے بنا تصدیق کیے ازراہ مذاق یہ فقرے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شئیر کیے تھے جن کو تقریباً ایک گھنٹے کے اندر ہی بنا تصدیق کے وائرل کر دیا گیا۔

انھوں نے اس بارے میں مزید کہا کہ میں نے یہ جملے لکھنے کے ایک گھنٹے بعد ہی اپنا سٹیٹس ڈیلیٹ کر دیا تھا لیکن سب نے بنا تصدیق کیے اسے وائرل کر دیا۔

انھوں نے اس حوالے سے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے غیر مصدقہ معلومات کو شیئر کرنے پر معذرت کی۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری بیان اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کتنے افسوس کی بات ہے اور میں بھی بنا تصدیق کے ایسی معلومات شیئر کرنے پر معذرت چاہتا ہوں، اگرچہ میں نے اسے ایک لطیفہ سمجھتے ہوئے شئیر کیا لیکن اس سے ملک کے عوام اور شہروں کی بدنامی ہوئی۔‘

ذاکر نائیک سے ’اسلامی معاشرے میں پیڈوفائلز‘ سے متعلق سوال پر خاتون کو ٹرولنگ کا سامنا: ’بدقسمتی سے میرا سوال سمجھا ہی نہیں گیا‘وہ دہائی جس میں سوشل میڈیا نے زندگیاں بدل کر رکھ دیآڈیو بکس: نئی نسل کے لیے ادب کا خزانہقاضی فائز عیسیٰ: بیکری ملازم کی چیف جسٹس پاکستان سے ’بدتمیزی‘ کی وائرل ویڈیو کا معاملہ کیا ہے؟’لاہور کتاب میلے میں ہجوم کی تصدیق شہباز شریف کر سکتے ہیں‘

اگرچہ خالد انعم نے تو اس بیان کے بارے میں وضاحت دے دی تاہم اس کے باوجود تیر کمان سے نکل چکا تھا اور پڑوس ملک انڈیا کے ایک معتبر اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے ویب پورٹل نے بھی اس بیان کو بنا تصدیق کیے شائع کر دیا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پیٹ اور دماغ کے مقابلے میں دماغ کے جیتنے کے چانس کم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہماری دماغ کو زیادہ استعمال کرنے کی عادت کم ہے۔‘

https://twitter.com/khaledanam1/status/1848682692738531450

لاہور بک فیسٹیول کے منتظمین کی جانب سے سوشل میڈیا پر وزیر دفاعخواجہ آصف کے بیان کے ردعمل پر جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’قابل احترام وزیر محترم ہم پاکستان میں سب سے پرانا بک فیئر ہیں اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہمارے کتاب میلے میں کتنا ہجوم ہوتا ہے۔

’کتاب پڑھنے کا کلچر خطرے میں ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ آپ کو فروری 2025 میں خود اس کا مشاہدہ کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔‘

مگر اس کے باوجود سوشل میڈیا پر اس بیان کو نہ صرف بنا تصدیق کے بار بار شیئر کیا گیا بلکہ صارفین نے اس پر کھل کر تبصرے بھی کیے۔

ڈاکٹر ضیا الدین نامی ایک صارف نے اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ’میلے کے شرکا نے علم پر ذائقے کو ترجیح دی۔‘

نادیہ علی نامی ایک صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کتابیں نہ لینے کی ایک بہت بڑی وجہ ان کا مہنگا ہونا ہے۔ انڈین کتابوں کی پرنٹنگ سستے کاغذ کی ہوتی ہے اس لیے وہ کم دام ہوتی ہیں اور سب خرید سکتے ہیں۔ یہاں پر مہنگا کور اور کاغذ جس کی وجہ سے کتاب مہنگی ہوتی ہے اور کوئی خرید نہیں سکتا۔ اس چیز کی طرف توجہ دیں تو آدھے لوگ کتابیں خریدنا شروع کر دیں گے۔‘

کتابوں کی فروخت میں کمی کی وجہ کیا؟

پاکستان میں کتاب پڑھنے یا کتاب دوستی کے رحجان میں کیا واقعی کمی ہوئی اور کیا اس کی وجہ ٹیکنالوجی، کتاب کی بڑھتی قیمت یا عوامی سطح پر فکری سوچ اور علم کے حصول میں کمی ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے معروف لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ظفر میراج کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا درست نہیں کہ کتاب پڑھنے کے رحجان یا کتاب دوستی میں کمی ہوئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بدلتے وقت کے ساتھ معاشرے کے انداز تبدیل ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’میں خود بھی اب لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر کے لکھتا ہوں لیکن کبھی کبھی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے کاغذ اور قلم کو استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی لوگ کتابیں پڑھتے ہیں لیکن اب ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگ ای بکس، پی ڈی ایف اور آڈیو بکس کا زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

’میں خود بھی سفر کے دوران آڈیو بکس سنتا ہوں، البتہ میرے بچے آج بھی کتابیں ہی پڑھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شاید کتاب کی اشاعت کی لاگت نے اسے کچھ قیمتی کر دیا مگر آج بھی جو لطف ایک کتاب کو ہاتھ میں تھامے یا گود میں لے کر مطالعہ کرنے کا ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے دنیا بھر میں آج بھی لاکھوں پبلشرز کتابوں کی اشاعت کر رہے ہیں۔‘

آڈیو بکس: نئی نسل کے لیے ادب کا خزانہلاہور میں انسٹاگرام سے شروع ہونے والے مبینہ ریپ کے غیرمصدقہ واقعے نے کیسے پُرتشدد مظاہروں کو جنم دیا؟سکرین پر پڑھنے کے نقصانات اور مطالعے سے ہمارے ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثراتذاکر نائیک سے ’اسلامی معاشرے میں پیڈوفائلز‘ سے متعلق سوال پر خاتون کو ٹرولنگ کا سامنا: ’بدقسمتی سے میرا سوال سمجھا ہی نہیں گیا‘قاضی فائز عیسیٰ: بیکری ملازم کی چیف جسٹس پاکستان سے ’بدتمیزی‘ کی وائرل ویڈیو کا معاملہ کیا ہے؟کرغزستان میں پاکستانی طلبہ پر حملہ اور فیک نیوز: ’ریپ اور قتل کی جھوٹی خبروں‘ نے کشیدگی کو کیسے بڑھایا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More