فیصلے میں بنیادی چیزیں نظر انداز، مخصوص نشستوں کے کیس کا اقلیتی فیصلہ جاری

ہم نیوز  |  Oct 22, 2024

مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا 17صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کیا گیا ہے ۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمیں یقینی بنانا چاہیے کہ آئین میں الفاظ کا غلط مطلب نہ نکالا جائے،عام طور پر سمجھے جانے والے الفاظ کو مصنوعی معنی نہ دیے جائیں،ہمیں بھی درست طور پر نافذ کردہ قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔

آئی فون 16 کے مختلف ماڈلز کی خریداری،ٹیکس کی مد میں 2 لاکھ 13 ہزار روپے تک ادائیگی کرنا ہوگی

کسی سیاسی جماعت کی مدد یا رکاوٹ ڈالنے کیلیے قوانین کے احکامات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار آزاد امیدوار قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے نہیں آیا،آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے کی قانونی حیثیت دیکھ سکتے ہیں۔

کچھ امیدواروں نے پی ٹی آئی کے علاوہ کسی دوسری سیاسی جماعت سے وابستگی سے متعلق کوئی دستاویز نہیں دیں،ان امیدواروں کو پی ٹی آئی کی پارلیمانی جماعت کے طور پر سمجھا جانا چاہیے تھا لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا۔

پی ٹی آئی کو بطور پارلیمانی جماعت مخصوص نشستوں کا حق حاصل ہے،الیکشن کمیشن کو محفوظ نشستوں کی دوبارہ گنتی اور تقسیم کرنا چاہیے۔

عادل بازئی کو نا اہل کرکے نشست خالی قرار دی جائے ، اسپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط

جن امیدواروں نے 24 دسمبر 2023 تک نامزدگی کاغذات میں خود کو آزاد امیدوار قرار دیا انہیں آزاد سمجھا جائے گا،سنی اتحاد کونسل ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔

قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ہر آزاد رکن کا حق ہے وہ اس میں شامل ہو،جنہوں نے ایس آئی سی میں شمولیت اختیار کی وہ اپنی مرضی سے ایسا کرنے کی توقع رکھتے ہیں،ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ کسی غلط فہمی، دباؤ پرایس آئی سی میں شامل ہوئے،عدالت کے لیے ممکن نہیں کہ اس کے برعکس خیال کرے۔

دوسری جانب چیف جسٹس نے بھی مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ جاری کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ 14 صفحات پر مشتمل ہے۔

چیئرمین آئی سی سی اور آزاد ڈائریکٹر کی تعیناتی2 مرتبہ 3 سال تک کرنے کی سفارش

چیف جسٹس کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ اکثریتی فیصلہ بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں تھا،فیصلے میں کچھ مقالات، کتابوں، غیر ملکی مقدمات اور تقاریر کے اقتباسات کا حوالہ دیا گیا،یہ نہیں بتایا گیا یہ ہماری آئین، الیکشن ایکٹ اور اس کے تحت قواعد سے کیسے متعلق ہیں۔

پاکستان کا آئین تحریری ہے اور اس کی زبان آسانی سے سمجھنے والی ہے،یہ آئین صدیوں پرانا نہیں،آئین میں ایسے قدیم الفاظ نہیں جن کے معنی نکالنے کی ضرورت ہو،عوام نہیں چاہتےانہیں یہ بتایا جائے کہ انہیں کس طرح حکومت کرنی ہے۔

ہمیں وہی کرنا چاہیے جو ہمارے آئین میں کہا گیا ہے،ہمارے آئین کی قابل اطلاق دفعات واضح اور خود وضاحت کرنے والی ہیں،آئین میں معنی تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو موجود نہیں۔

ذاتی مفادات کیلئے وفاداریاں بدلنے والوں سے حساب لیں گے، علی امین گنڈا پور

بطورکمیٹی سربراہ تجویز دی ان اپیلز کی سماعت ان لوگوں کے ذریعے نہیں ہونی چاہیے جو اس آئینی ترمیم کے فائدہ اٹھانے والے یا متاثرہ ہوسکتے ہیں،تجویز دی ممکنہ فائدہ اٹھانے والے یا متاثرہ چیف جسٹس اور5جج ہوتے اور انہیں بینچ سے الگ رکھتے ہیں۔

تاہم اکثریتی ججز (جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر) نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا،میں نے پھر تجویز دی کہ یہ اپیلز فل کورٹ عدالت سنے،عدالت میں آئین اور قانون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ریویو درخواستیں ایک ہفتے کے بعد اسی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر کی جانی چاہئے تھیں،ایک ہفتہ جسٹس عائشہ اے ملک کو کارروائی میں شامل ہونے کے لیے کافی تھا،ہمیں آئین اور قانون کی پابندی کرنی ہے۔

کوئی ڈیل کی نہ کوئی ووٹ دیا ، میرا گواہ صرف میرا اللہ ہے، سینیٹر زرقا تیمور

نظر ثانی درخواستیں جتنی جلدی ممکن ہو مقرر کی جائیں ،ججز کا حلف آئین اور قانون کی پابندی کا تقاضا کرتا ہے یہی سب ذاتی وجوہات پر فوقیت رکھتا ہے،آئین کے آرٹیکل 188 میں سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں کا جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More