’کتے کی قبر‘: سندھ کا قومی ورثہ جہاں پہاڑ آسمان سے باتیں کرتا ہے

بی بی سی اردو  |  Oct 03, 2024

BBC’کتے کی قبر‘ کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں سندھ کے شہداد کوٹ اور بلوچستان کے خضدار ضلع کے درمیان ہے

پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے ’کتے کی قبر‘ کو قومی ورثہ قرار دے دیا ہے اور اس مقام کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

’کتے کی قبر‘ کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں سندھ کے شہداد کوٹ اور بلوچستان کے خضدار ضلع کے درمیان واقع ہے، جو سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

حکومتِ سندھ کی تاریخ اور شخصیات کے بارے میں مرتب کیے گئے انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کے مطابق یہاں موسم سرما میں شدید سردی ہوتی ہے اور گرمی کا موسم بھی خوشگوار رہتا ہے۔

اس علاقے میں جون اور جولائی میں کم سے کم درجہ حرارت 13 سینٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ 25 سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی جرنیل اور سندھ کے فاتح چارلس نیپیئر بھی یہاں آئے تھے اور انھوں نے یہاں ایک پکا تالاب تعمیر کروایا تھا۔

ان کے علاوہ دیگر برطانویافسران بھی یہاں تفریح کے لیے آتے رہے ہیں، جن میں ڈبلیو ایچ بولٹن، جارج ہیڈرسن، ڈبلیو ایچ لوکس اور دیگر کے نام بھی پتھروں پر کنندہ ہے۔

لبِ سندھ میں خدا داد لکھتے ہیں کہ سندھ کے کمشنر ایس مینسفیلڈ 1861 میں یہاں آئے تھے اور وہ اس علاقے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ڈاھیاڑؤ پہاڑ ایک طویل القامت پہاڑ ہے، ایسا لگتا ہے جیسے آسمان سے بات کر رہا ہو۔ یہاں موسم خشک ہے، اکثر بارش ہوتی ہے اور انجیر اور شہتوت کے باغات بھی ہیں۔

BBCانسائیکلوپیڈیا سندھیانہ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی جرنیل اور سندھ کے فاتح چارلس نیپیئر بھی یہاں آئے تھے’کتے کی قبر‘ کی کہانی

سندھ کے نامور ادیب مرزا قلیچ بیگ نے سنہ 1885 میں اس علاقے کا سفر کیا تھا۔

اپنے سفرنامے ’ڈھیاڑو جبل کے سیر‘ میں وہ ’کتے کی قبر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک شخص 100 روپے کا مقروض تھا، اس نے اپنا کتا گروی رکھوایا۔ جب اس کے پاس 100 روپے جمع ہو گئے تو وہ ادائیگی کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے میں اس نے دیکھا کہ اس کا کتا آ رہا ہے، وہ اس پر سخت ناراض ہوا اور کتا لعن طعن سن کر وہیں مر گیا۔

جس شخص کے پاس کتے کو گروی رکھا گیا تھا، اس نے مالک کو بتایا کہ کچھ چوروں نے اس کے گھر کو لوٹ لیا تھا اور اس کتے کی مدد سے وہ سامان برآمد ہوا اور یہ ملکیت 100 روپے سے کہیں زیادہ تھی، اس لیے انھوں نے کتے کو رہا کر دیا۔

مالک کو یہ سن کر دکھ پہنچا اور اس نے واپس آ کر اسی جگہ پر کتے کی قبر تعمیر کروائی۔

نامور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کا کہنا ہے کہ یہ قبر قدیم دور میں تعمیر کی گئی، جس کو دیگر قدیم قبروں کی طرح پتھروں سے بنایا گیا۔

افضل خان: کیا ایک مسلمان سپہ سالار نے اپنی 63 بیویاں ایک نجومی کی پیش گوئی کی بنیاد پر قتل کی تھیں؟سندھ میں سور پر کتے چھوڑنے پر بے رحمی ایکٹ کے تحت مقدمہ درجبرہنہ، تنہا اور کھانے کو صرف کتے کا کھانا: متنازع ٹی وی شو جسے دیکھنے کو لاکھوں بے قرار رہتے تھےانڈیا کا دیہات جہاں لوگ ڈائنوسار کے انڈوں کو دیوتا سمجھ کر پوجا کرتے رہے

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ قبر ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں تک رسائی آسانی سے ہو سکتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی معتبر یا سردار کی ہے۔

محکمہ ثقافت کی ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری سندھ کے محکمہ آرکیالوجی کے سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں اور اس علاقے میں کئی بار جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسی شہادتیں ملتی ہیں کہ اس قبر کو کھول کر دوبارہ بند کیا گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے میں سرداروں اور معروف افراد کو ان کے قیمتی سامان کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا اس لیے خزانے کی لالچ میں بعض علاقوں میں ان قبروں کو کھولا گیا۔

’کتے کی قبر‘ پر تنازع

’کتے کی قبر‘ کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اس علاقے میں بلوچ قبائل کے ساتھ سندھی قبائل چُھٹا اور گھائنچا برادریاں بھی رہتی ہیں۔

حکومت سندھ اور بلوچستان میں اس علاقے کی حدود پر سنہ 2018 میں تنازع بھی ہوا تھا۔ اس وقت کے سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ’کتے کی قبر‘ کا علاقہ سندھ کا حصہ ہے اور رہے گا۔

نثار کھوڑو نے 1876 کا گزٹ بھی دکھاتےہوئے بتایا تھا کہ کتے کی قبر کا علاقہ تقریباً ڈھائی لاکھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جو کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں ٹھنڈا علاقہ ہے جو گورکھ ہل سٹیشن سے بھی بلند ہے۔

BBC’کتے کی قبر‘ کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں

اس وقت پیپلزپارٹی کے رکن سندھ اسمبلی سردار خان چانڈیو کا کہنا تھا کہ انگریز دور حکومت سے ’کتے کی قبر‘ سندھ کا علاقہ ہے، سروے آف پاکستان میں بھی اس کی شہادت موجود ہے لیکن اب اس پر بلوچستان کا دعویٰ سمجھ سے بالا تر ہے۔

ان سے قبل جمعیت علما اسلام کے مرکزی نائب امیر اور رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع خضدار کے علاقوں ڈھاڈارو اور ’کتے کی قبر‘ کو صوبہ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں شامل کرنا لوگوں کے احساسات اور جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

’مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ضلع خصدار کے آباد اور وسائل سے مالا مال علاقے ڈھاڈارو اور ’کتے کی قبر‘ کو صوبہ سندھ کے انتخابی حلقے شہداد کوٹ قمبر میں شامل کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن، سندھ حکومت کی کچھ شخصیات کے توسط سے یہ نہیں چاہتا کہ ملک کے تمام صوبے اپنے جغرافیائی حدود میں رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ برداردانہ تعلق قائم کریں۔‘

مولانا قمر الدین نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت سندھ ایک سازش کے تحت بلوچستان کے سرحدی علاقوں جہاں جہاں قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں کو بلوچستان سے الگ کر کے سندھ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔

’کتے کی قبر‘ پر سندھ اور بلوچستان میں تنازعڈاکٹر شاہنواز کی قبر پر’انتہاپسندی نامنظور‘ کے نعرے اور بھٹائی کا کلامسندھ کا سوشل میڈیا ’سٹار‘ ڈاکو جس نے اپنے اکاؤنٹ کو پولیس پر تنقید اور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے استعمال کیاجب نوسرباز سونے کے تاجر کو گاندھی کی جگہ انوپم کھیر کی تصویر والے نوٹ دے گئےوہ رقاصہ جو مغل بادشاہ سے بھی زیادہ طاقتور حکمران بنیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More