انڈیا کی معروف کاروباری شخصیت ایس پی اوسوال حال ہی میں ایک ایسے سائبر فراڈ کا نشانہ بنے جس میں انھیں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
82 سالہ تاجر ایس پی اوسوال ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہیں اور وردھمان گروپ کے سربراہ ہیں۔ مگر ایک گینگ نے ’جعلی سپریم کورٹ‘ اور اس کی ’جعلی آن لائن سماعت‘ کے ذریعے ایک ایسا جال بچھایا کہ وہ سات کروڑ روپے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
انڈیا کی ریاست لدھیانہ میں پولیس کے مطابق ملزمان نے سی بی آئی افسران کا روپ دھار کر ان سے رابطہ کیا اور انھوں نے اوسوال کو جعلی گرفتاری کا وارنٹ دکھا کر دعویٰ کیا کہ اس وارنٹ کو ممبئی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جاری کیا ہے۔
پولیس کے مطابق اوسوال کو سپریم کورٹ کا جعلی حکمنامہ بھی دکھایا گیا اور کہا گیا کہ ’وہ ایک سیکرٹ سپرویژن اکاؤنٹ (ایس ایس اے) میں سات کروڑ روپے جمع کرائیں۔‘
Getty Imagesٹھگوں نے مسٹر اوسوال کو باور کرایا کہ وہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ سے ہیںمنی لانڈرنگ کا جعلی کیس
ملزمان نے دو روز تک ویڈیو کالنگ ایپ سکائپ کے ذریعے ان کی ڈیجیٹل نگرانی کی۔ انھوں نے اسی ایپ کی مدد سے عدالت کی ایک جعلی آن لائن سماعت بھی رچائی۔
پولیس نے اس کیس میں ایک بین الریاستی گینگ کی نشاندہی کی ہے اور اس کے دو مبینہ ارکان کو آسام کے شہر گوہاٹی سے گرفتار کیا ہے جبکہ باقی سات ملزمان کی تلاش اب بھی جاری ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گینگ آسام، مغربی بنگال اور دارالحکومت دہلی میں سرگرم ہے۔ اس کیس میں 31 اگست کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے اوسوال کے سامنے یہ ڈھونگ رچایا کہ ان پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے جس میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے گذشتہ سال ستمبر کے دوران ایک کاروباری شخصیت کو گرفتار کیا تھا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ممبئی میں اوسوال کے نام کا ایک اکاؤنٹ ہے جس میں بے ضابطگیاں ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اوسوال نے ایک غیر قانونی پارسل بھیجا تھا۔
ملزمان نے اس حد تک اوسوال پر دباؤ ڈالا کہ انھوں نے کسی سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ ملزمان نے انھیں دھمکی دی کہ اس بارے میں کسی کو بتانا غیر قانونی ہوگا۔
Getty Imagesمسٹر اوسوال کی 24 گھنٹے آن لائن نگرانی کی جاتی رہی’جعلی سپریم کورٹ اور جعلی چیف جسٹس‘
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے اوسوال کی دو روز تک آن لائن نگرانی کی۔ انھیں سختی سے ہدایت دی گئی کہ وہ بلا اجازت کیمرے کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوسکتے اور کوئی ٹیکسٹ میسج یا کال نہیں کر سکتے۔
حتیٰ کہ رات کو سونے کے دوران بھی انھیں آن لائن مانیٹر کیا جاتا تھا۔ دریں اثنا اس دوران سکائپ ایپ مسلسل چل رہی ہوتی تھی اور ویڈیو کال کی دوسری جانب کوئی نہ کوئی مسلسل ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
اوسوال کا الزام ہے کہ انھیں آن لائن حراست میں رکھا گیا تھا۔ انھیں 24 گھنٹے نگرانی کے قوائد و ضوابط پر مبنی 70 نکات کی دستاویز دی گئی جس کی انھوں نے من و عن پیروی کی۔
دریں اثنا ملزمان نے اپنی جعلی سپریم کورٹ کی ایک آن لائن سماعت کی جس دوران ایک شخص نے اپنا تعارف چیف جسٹس دھننجے یشونت چندرچوڑ کے طور پر کرایا۔ تاہم اوسوال جعلی جج کا چہرہ نہیں دیکھ سکے تھے۔
اوسوال کے ساتھ عدالت کا ایک جعلی حکمنامہ شیئر کیا گیا جو بالکل اصلی لگتا تھا۔ اس کے بعد اوسوال نے سات کروڑ روپے منتقل کر دیے۔
’آپ کی جیب میں ڈارک ویب‘ کہلائی جانے والی ٹیلی گرام ایپ جرائم کا گڑھ کیسے بنیپاکستان میں ہونے والا نیا فشنگ سکیم کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟سائبر غلاموں کی فوج: تھائی لینڈ سے سرمایہ کاری کے پیغامات کیسے امیروں کو دیوالیہ بنانے کا باعث بنتے ہیں؟13 سال کی عمر سے لوگوں کو آن لائن بلیک میل کرنے والا لڑکا جو یورپ کا سب سے مطلوب ہیکر بناپولیس کا رقم واپس ملنے کا دعویٰ
لدھیانہ پولیس کمشنر کلدیپ سنگھ چہل نے کہا کہ شکایت موصول ہونے کے بعد انھوں نے بینک اکاؤنٹ منجمد کرنے کا عمل شروع کیا تاکہ پیسے واپس مل سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک 5.25 کروڑ روپے برآمد ہو چکے ہیں اور انھیں مسٹر اوسوال کے بینک اکاؤنٹ میں واپس منتقل کر دیا گیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ میں قائم سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ سب سے بڑی رقم ہے جسے آج تک انڈیا میں سائبر کرائم کی تاریخ میں برآمد کیا گیا ہو۔‘
لدھیانہ پولیس کے سائبر کرائم سیل کے سربراہ انسپکٹر جتندر سنگھ نے کہا کہ ’28 اور 29 اگست کو ملزمان نے اوسوال سے ان کے ذاتی نمبر پر رابطہ کیا اور جعلی سی بی آئی افسر ہونے کا ڈھونگ کیا۔‘
’یہ دعویٰ کیا گیا کہ ممبئی میں حکام نے اوسوال کا ایک پارسل ضبط کیا ہے اور یوں ان پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔ اوسوال کو جعلی وارنٹ گرفتاری اور عدالتی حکم بھیجے گئے۔‘
انسپکٹر جتندر سنگھ نے کہا کہ اوسوال نے سکائپ پر ملزمان کو ویڈیو کال کی جس میں سی بی آئی کا جعلی دفتر دکھایا گیا۔
Getty Imagesپولیس کا دعویٰ ہے کہ 48 گھنٹوں میں ملزمان کی شناخت کر لی گئی اور گوہاٹی سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا’اس وقت شک ہوا جب اکاؤنٹ نمبر بار بار بدل رہے تھے‘
ملزمان نے آئی ڈی کارڈ اور فارمل کپڑے پہنے ہوئے تھے اور پس منظر میں کچھ پرچم تھے۔ یعنی اس جگہ کو تحقیقاتی ادارے کا اصلی دفتر ظاہر کیا گیا تھا۔
انسپکٹر کے مطابق اوسوال نے تین اقساط (چار، ایک اور تین کروڑ) میں مکمل سات کروڑ روپے منتقل کیے۔
پولیس کے مطابق شکایت کنندہ کو اس وقت شک ہوا جب ملزمان اپنا اکاؤنٹ نمبر بار بار بدل رہے تھے۔ اوسوال نے پھر پولیس کو اطلاع دی اور اس حوالے سے ایک کیس رجسٹر کیا گیا۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ 48 گھنٹوں میں ملزمان کی شناخت کر لی گئی اور گوہاٹی سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔
آنند کمار نامی ملزم ایک میڈیکل سٹور چلاتا ہے جبکہ اتنو چوہدری کا لاجسٹکس کا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ پولیس کے مطابق دونوں کو کاروبار میں نقصان ہوا تھا جس پر انھوں نے یہ منصوبہ بنایا۔
ان کا کہنا ہے کہ تیسرا ملزم بینک کا سابق ملازم ہے جو رقم کی منتقلی کے حوالے سے تکنیکی معلومات رکھتا تھا۔ اس کیس میں کل نو ملزمان ہیں جن میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ سات کی تلاش جاری ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں فوراً سائبر کرائم کی ہیلپ لائن پر کال کرنی چاہیے تاکہ پولیس جلد بینک اکاؤنٹ کو بند کر دے۔
کورونا کی وبا کے دوران انڈیا میں ٹھگوں کا کاروبار کیسے پنپ رہا ہے؟بہار میں سائبر کرائم کا گڑھ: جہاں جعلی سِم و بینک اکاؤنٹ کے استعمال پر کمیشن ملتا ہےوہ پہاڑ جہاں چھ سالہ برطانوی بچے نے سپین سے لاپتہ ہونے کے بعد چھ سال گزارےسیکس ٹارشن گینگ: کشمیر میں مردوں کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے والا گینگ گرفتارپاکستان میں ہونے والا نیا فشنگ سکیم کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟’آپ کی جیب میں ڈارک ویب‘ کہلائی جانے والی ٹیلی گرام ایپ جرائم کا گڑھ کیسے بنی