لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی حملے: ڈیوائسز بنانے والی ’جعلی کمپنی‘ اور اس کی ’پُراسرار‘ خاتون بانی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2024

لبنان میں ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکیز پھٹنے کے دو الگ حملوں میں ہزاروں افراد کے زخمی ہونے اور کم از کم 37 افراد کی ہلاکت کے بعد ابھی تک یہ تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں کہ اس طرح کی کارروائی کیسے کی گئی۔

ان حملوں میں حزب اللہ کے ارکان اور مواصلاتی نظام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے ان حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا ہے تاہم اسرائیل نے اب تک اس بارے میں کوئی تبصرہ یا ردعمل نہیں دیا ہے۔

بی بی سی نے ان حملوں سے متعلق تفصیلات جاننے کے لیے تائیوان اور جاپان سے لے کر ہنگری، اسرائیل اور لبنان تک مختلف مبینہ واقعات کا جائزہ لیا ہے تاہم اب بھی ان میں سے کئی درج ذیل سوالات کے جواب نہیں مل سکے۔

پیجرز میں چھیڑ چھاڑ کیسے کی گئی؟

چند ابتدائی قیاس آرائیوں کے مطابق پیجرز کو ایک پیچیدہ طریقے سے ہیک کر کے نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ پھٹ سکتے ہیں لیکن اس نظریے کو ماہرین نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس پیمانے پر ان کے پھٹنے سے نقصان ہوا ہے، اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ حزب اللہ کے پاس پہنچنے سے قبل ان ڈیوائسز میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا ہو گا۔

ٹوٹے ہوئے پیجرز کی تصاویر میں ایک الیکٹرانکس بنانے والی تائیوانی کمپنی کا لوگو نظر آتا ہے۔ اس کمپنی کا نام گولڈ اپولو ہے۔

بی بی سی نے اس کمپنی کے دفاتر کا دورہ کیا، جو تائی پے کے نواحی علاقے میں ایک بڑے کاروباری مرکز میں واقع ہے۔

کمپنی کے بانی حو چنگ خوانگ اس سارے معاملے پر حیران دکھائی دیے اور انھوں نے اس کارروائی میں کسی بھی طرح سے کمپنی کے ملوث ہونے کو رد کیا ہے۔

Getty Images

انھوں نے اپنے دفتر کے باہر موجود رپورٹرز کو بتایا کہ ’آپ لبنان کے حملوں کی تصاویر دیکھیں، ان میں کہیں بھی کسی پیجر پر یہ نہیں لکھا کہ یہ تائیوان میں تیار کیے گئے ہیں۔ ہم نے وہ پیجرز تیار نہیں کیے ہیں۔‘

بلکہ انھوں نے ہنگری میں موجود ایک کمپنی بی اے سی کنسلٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیجرز انھوں نے بنائے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تین سال قبل انھوں نے ہنگری میں قائم اس کمپنی کو ’گولڈ اپولو‘ کا نام اپنے پیجرز پر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ بیک (بی اے سی)کنسلٹنگ کے ساتھ کاروبار کے دوران پیسے کا لین دین کچھ عجیب ذرائع سے تھا اور اس میں کچھ مسائل بھی تھے۔ یہ پیسہ مشرق وسطیٰ سے آتا تھا۔

کمپنی کی ’پُراسرار‘ خاتون بانی کون ہیں؟

بی بی سی نے ہنگری کے دارالحکومت بوداپیسٹ کے رہائشی علاقے میں واقع بی اے سی کنسلٹنگ کے رجسٹرڈ دفتر کا دورہ بھی کیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ پتہ 12 دیگر کمپنیوں کے نام پر بھی درج تھا اور عمارت میں موجود کوئی بھی ہمیں بیک (بی اے سی) کنسلٹنگ کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا سکا۔

ہنگری میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ فرم، جسے پہلی بار 2022 میں رجسٹر کیا گیا تھا، ملک میں محض ایک ’تجارتی ثالث‘ یعنی کلیئرنگ ایجنٹ کمپنی کے طور پر کام کرتی تھی جس کی کوئی مینوفیکچرنگ یا آپریشنل سائٹ نہیں تھی۔‘

لنکڈ اِن پر شائع ہونے والے بیک کنسلٹنگ کے ایک بروشر میں ان آٹھ کمپنیوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے ساتھ کمپنی کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے جن میں برطانیہ کا ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ بھی شامل ہے۔

برطانیہ کے دفتر خارجہ جس نے اس محکمے کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس کی تحقیقات کر رہے ہیں لیکن ابتدائی بات چیت کی بنیاد پر اس کا کہنا ہے کہ ان کا بی اے سی کنسلٹنگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

بی اے سی کی ویب سائٹ پر کرسٹیانا بارسونی کو اس کا بانی اور چیف ایگزیکٹو بتایا گیا ہے۔ بی بی سی نے متعدد بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

تاہم انھوں نے این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پیجرز نہیں بناتے، ہم صرف ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔‘

49 سالہ کرسٹیانا کی لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق وہ اٹلی اور ہنگری دونوں ممالک کی شہریت رکھتی ہیں۔ وہ کبھی اپنا تعارف بطور سٹریٹیجی کنسلٹنٹ اور بزنس ڈویلوپر کرواتی ہیں اور ان کی پروفائل کے مطابق انھوں نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں انٹرن شپ بھی کر رکھی ہے۔

تاہم جمعے کو کرسٹیانا کی والدہ بیٹرکس نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ انھیں دھمکیاں مل رہی ہیں اور وہ ’ہنگری کے خفیہ ادارے کی حفاظت میں کسی محفوظ جگہ پر مقیم ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے ہنگری کے خفیہ ادارے نے میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا ہے۔‘

ہنگری کی انٹیلی جنس ایجنسی نے بیٹرکس کے دعوے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، اسی لیے بی بی سی ان کے دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

کرسٹیانا کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بیٹی ’اس سب میں ملوث نہیں تھی، وہ صرف ایک ثالث تھی اور یہ ڈیوائسز (پیجرز) بوداپست سے (لبنان) نہیں گئے۔‘

اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ وہ اٹلی کے شہر سسلی میں پیدا ہوئی تھیں او انھوں نے یونیورسٹی آف کاتانیا اور یونیورسٹی کالج لندن سے تعلیم حاصل کی ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ 2016 میں ہنگری منتقل ہونے سے قبل کرسٹیانا فرانس اور آسٹریا میں بھی کام کر چکی ہیں۔

Reutersبی اے سے کنسٹنگ کا بوداپست میں واقع آفس

یہاں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو کرسٹیانا کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور وہ انھیں ایک ’پُراسرار‘ شخصیت قرار دیتے ہیں جو ایک وقت کسی مقام پر نظر آتی ہیں اور پھر اچانک وہاں سے غائب ہو جاتی ہیں۔

کرسٹیانا نے سائنس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اطلاعات کے مطابق انھوں نے یورپ، افریقہ اور مشرقی وسطیٰ میں فلاحی کاموں میں حصہ لینے کا انتخاب کیا تھا۔

بوداپست میں متعدد افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے کرسٹیانا کو اس سال کی ابتدا کے بعد دیکھا ہی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرسٹیانا آرٹس اور ٹریول میں گہری دلچپسی رکھتی ہیں۔

ان افراد کا مزید کہنا تھا کہ کرسٹیانا روانی سے ہنگرین زبان نہیں بول سکتی۔ تاہم کچھ اطلاعات کے مطابق وہ سات زبانوں پر عبور رکھتی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بوداپست میں کرسٹیانا کے گھر کی دیواروں پر برہنہ پینٹنگز آویزاں ہیں اور وہ ہنگری کے دارالحکومت میں واقع ایک آرٹ کلب میں اکثر جایا کرتی تھیں۔ تاہم انھوں نے دو سال قبل وہاں جانا بند کردیا تھا۔

بے اے سی کنسلٹنگ کی ویب سائٹ پیجرز اور واکی ٹاکی پھٹنے کے واقعات کے دو دن بعد بند کردی گئی تھی۔ اس ویب سائٹ کے مطابق ان کا ادارہ ’ماحولیاتی، ترقیاتی اور بین الاقوامی امور‘ پر مہارت رکھتا ہے۔

لبنان دھماکوں میں پھٹنے والے پیجرز اور واکی ٹاکیز تیار کرنے والی کمپنیاں کیا کہہ رہی ہیں؟نازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاںلبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟لبنان میں پراسرار دھماکے، حزب اللہ اور ’خفیہ جنگ‘: ’جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی، وہ دوسری سے لڑے گا‘تو پھر بے اے سی کنسلٹنگ کے پیچھے کون ہے؟

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ کمپنی درحقیقت اسرائیلی انٹیلی جنس کی ایک فرنٹ کمپنی تھی۔

اخبار نے تین اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو دیگر جعلی یا فرضی کمپنیاں ان لوگوں کی شناخت چھپانے میں مدد کے لیے بنائی گئی تھیں جو واقعی پیجرز تیار کر رہی تھیں۔

بی بی سی آزادانہ طور پر ان خبروں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ بلغاریہ کے حکام نے اب بے اے سی کنسلٹنگ سے منسلک ایک اور کمپنی کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

بلغاریہ کے نشریاتی ادارے بی ٹی وی نے جمعرات کو خبر دی کہ لبنان میں ڈیوائس حملوں سے منسلک 16 لاکھ یورو بلغاریہ سے ہوتے ہوئے ہنگری بھیجے گئے تھے۔

Getty Imagesواکی ٹاکیز میں کیسے چھیڑ چھاڑ کی گئی؟

لبنان میں ہونے والے حملوں کے دوسری لہر میں پھٹنے والے واکی ٹاکیزکے متعلق معلومات واضح نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پھٹنے والے واکی ٹاکیز میں سے کم از کم کچھ IC-V82 ماڈل کے تھے جو جاپانی کمپنی آئی کام نے تیار کیے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک سکیورٹی ذرائع کے مطابق حزب اللہ نے یہ واکی ٹاکیز پانچ ماہ قبل ہی خریدے تھے۔

اس سے قبل امریکہ میں آئی کام سے منسلک ایک ذیلی ادارے کے ایک سیلز ایگزیکٹو نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ لبنان میں پھٹنے والے واکی ٹاکیز ایسے جعلی پراڈکٹس ہیں جو کمپنی کی طرف سے نہیں بنائے گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان واکی ٹاکیز کے جعلی ورژن آسانی سے انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔

بی بی سی کو بھی آئی کام کے IC-V82ماڈل کے واکی ٹاکیز کی انٹرنیٹ پر خرید و فروخت کے بارے میں جاننے میں کچھ ہی لمحے لگے۔

آئی کام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے تقریباً ایک دہائی قبل اکتوبر 2014 میں اس ماڈل کے واکی ٹاکیز کی تیاری اور فروخت روک دی تھی۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ اس نے اسے چلانے کے لیے درکار بیٹریوں کی تیاری بھی بند کر دی ہے۔

کمپنی نے کہا کہ وہ بیرون ملک کسی اور کمپنی کو اس کو تیار کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور اس کے تمام واکی ٹاکیز مغربی جاپان کی ایک فیکٹری میں تیار کیے جاتے ہیں۔

کیوڈو خبر رساں ایجنسی کے مطابق آئی کام کے ڈائریکٹر یوشیکی اینومویو نے مشورہ دیا کہ پھٹنے والے واکی ٹاکیز کے بیٹری کے ارد گرد کے نقصانات کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بارودی مواد رکھ کر دوبارہ تیار کیا گیا ہے۔

BBCیہ ڈیوائسز کیسے پھٹیں؟

ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان ڈیوائسز کے پھٹنے سے چند لمحوں قبل متاثرین اپنا ہاتھ ان کی جانب بڑھاتے ہیں۔ جس کے بعد ان حملوں کے دوران ملک بھر کی گلیوں، دکانوں اور گھروں میں افراتفری پھیل جاتی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی طرف سے دیکھے گئے اقوام متحدہ میں لبنانی مشن کے ایک خط کے مطابق، لبنانی حکام نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان آلات میں ’الیکٹرانک پیغامات‘ کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔

نیو یارک ٹائمز نے امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں سے قبل پیجرز پر ایسے پیغامات موصول ہوئے جو بظاہر حزب اللہ کی قیادت کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ اخبار نے رپورٹ کیا کہ یہ پیغامات ان ڈیوائسز کو دھماکہ کرنے کے لیے متحرک کرنے کی وجہ ہو سکتے ہیں۔

ہم یہ نہیں جانتے کہ واکی ٹاکیز پر کس طرح کا پیغام بھیجا گیا تھا۔

کیا دیگر آلات کو سبوتاژ کیا گیا ہے؟

یہ وہ سوال ہے جو لبنان میں اب بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا کیمرے، فون یا لیپ ٹاپ سمیت دیگر آلات میں بھی دھماکہ خیز مواد رکھنے کے لیے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ اس بارے میں ہیجان کی کیفیت ہے۔

لبنانی فوج بیروت کی سڑکوں پر ریموٹ کنٹرول بم ڈسپوزل روبوٹ کا استعمال کرتے ہوئے دھماکے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لبنان میں بی بی سی کے عملے کو روک دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فون یا کیمرے کا استعمال نہ کریں۔

غیدہ نامی ایک خاتون نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا کہ ’ہر کوئی خوفزدہ ہے۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہم لیپ ٹاپ یا فون اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اس وقت سب کچھ خطرہ لگتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کیا کرنا ہے۔‘

حملہ اب کیوں ہوا؟

اس ہفتے ہی پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے کے حملے کیے گئے اس متعلق بہت سے نظریات موجود ہیں۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کو سات اکتوبر کے حماس کے حملے کے تقریباً ایک سال بعد حزب اللہ اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی دشمنی کے تناظر میں ایک تباہ کن پیغام بھیجا ہے۔

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اسرائیل اس وقت اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا لیکن اس سازش کے بے نقاب ہونے کے خوف سے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔

امریکی ادارے ایگزیو کے مطابق اصل منصوبہ یہ تھا کہ ایک وسیع تر جنگ کے آغاز پر پیجر حملوں سے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جائے لیکن جب اسرائیل کو معلوم ہوا کہ حزب اللہ کو اس متعلق شک ہو گیا ہے تو اس نے جلد ہی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

لبنان میں پراسرار دھماکے، حزب اللہ اور ’خفیہ جنگ‘: ’جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی، وہ دوسری سے لڑے گا‘’بات نہ کرو ، گولی مارو‘: اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایران میں جاسوسی کارروائیوں کی تاریخنازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More