’کام کے دباؤ‘ سے 26 سالہ لڑکی کی موت: ’مینیجر کا چیلنج پورا کرنے کے لیے اسے اپنی جان گنوانی پڑی‘

بی بی سی اردو  |  Sep 20, 2024

Getty Images

انڈیا کے شہر پونے میں ایک نجی کمپنی کے دفتر میں کام کرنے والی ایک 26 سالہ نوجوان خاتون کی جولائی کے ماہ میں موت ہو گئی تھی تاہم اب ان کی والدہ نے الزام لگایا ہے کہ موت کام کے دباؤ کی وجہ سے ہوئی ہے۔

انھوں نے اس ضمن میں کمپنی کے چیئرمین راجیو میمانی کو ای میل بھی بھیجی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ کمپنی کے طرزِعمل اینا سیبسٹین پیرائیل کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی والدہ انیتا آگسٹین نے کہا ہے کہ ان کی بیٹی کی موت ذہنی تناؤ کی وجہ سے ہوئی۔

وزارت افرادی قوت نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے گی اور تحقیقات کرے گی۔

ارنسٹ اینڈ ینگ کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ وہ لواحقین کے غم میں شریک ہیں اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

اینا سیبسٹین انڈیا کی جنوبی مغرب ریاست کیریلا کے شہر کوچی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے مارچ 2024 میں پونے کے ارنسٹ اینڈ ینگ کے دفتر میں کام کرنا شروع کیا۔ لیکن جولائی کے ماہ میں ان کی موت واقع ہو گئی۔

اس پس منظر میں اینا کی والدہ انیتا آگسٹین کا لکھا گیا خط سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔ اس میں انیتا نے کمپنی کے کام کرنے کے طریقوں پر سوال اٹھائے ہیں۔

خط میں کیا لکھا ہے؟

ارنسٹ اینڈ ینگ کے چیئرمین راجیو میمانی کو لکھے گئے اس خط میں انیتا کہتی ہیں کہ ’میں یہ (خط) ایک ماں کے درد کے ساتھ لکھ رہی ہوں جس نے اپنی اولاد کھو دی ہے۔ مجھے یہ (خط) لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی تاکہ کسی اور کو یہ تکلیف نہ پہنچے۔

’نومبر 2023 میں سی اے (CA) کا امتحان پاس کر کے اینا نے 19 مارچ 2024 میں ارنسٹ اینڈ ینگ میں کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بہت سے خواب تھے۔ وہ بہت خوش تھی کہ اسے اتنی باوقار کمپنی میں پہلی نوکری ملی ہے۔ لیکن چار ماہ میں ہی ہمیں اس کی موت کی خبر مل گئی۔ اس کی عمر صرف 26 برس تھی۔'

’وہ اپنی ہر ذمہ داری نبھانے کی کوشش کرتی تھی لیکن نیا ماحول، کام کا دباؤ اور کام کے اوقات اس پر اثر انداز ہونے لگے تھے۔ کام شروع کرنے کے چند ہی دنوں میں اسے بے چینی، بے خوابی اور ذہنی تناؤ کا سامنا شروع ہو گیا۔ لیکن اس نے اسے نظر انداز کیا اور اپنا کام جاری رکھا۔'

'جب میں اور میرے شوہر 6 جولائی کو اینا کی گریجوایشن کی تقریب کے لیے پونے آئے تو اس نے ہمیں بتایا کہ اس کے سینے میں ایک ہفتے سے درد ہو رہا ہے۔ ہم اسے فوراً ہسپتال لے گئے لیکن اس کی ای سی جی رپورٹ نارمل آئی۔'

'ماہر امراض قلب نے ہمیں بتایا کہ نین پوری نہ کرنے اور وقت پر کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ انھوں نے اسے پتّے کے لیےکوئی دوا تجویز کی۔'

'ہم اسی وقت کوچی سے آئے تھے لیکن پھر وہ کام کے دباؤ اور بوجھ کی وجہ سے دفتر چلی گئی۔'

'اتوار کے روز اس کی گریجوایشن کی تقریب تھی۔ لیکن اس دن بھی وہ دوپہر تک گھر سے کام کرتی رہی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ہمیں اپنے پیسوں سے اپنی گریجوایشن کی تقریب میں لے کر جائے لیکن ہم نے کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ ہمارا اس کے ساتھ آخری دورہ ہوگا۔'

'جس ٹیم کے ساتھ اینا کام کر رہی تھی ان میں سے کئی پہلے ہی کام کے بوجھ کی وجہ سے استعفیٰ دے چکے تھے۔ اس کے مینیجر نے اس سے کہا کہ تم یہاں کام کرو اور اس ٹیم کے بارے میں لوگوں کی رائے کو بدل دو۔ لیکن (اپنے مینیجر کی) اس بات کو پورا کرنے کے لیے اسے اپنی جان گنوانی پڑی۔‘

Getty Images

اس ای میل میں اینا کی والدہ نے کہا 'اس کا مینیجر کرکٹ میچوں کے لیے میٹنگ کے اوقات بدل دیتا تھا۔ اسے دن کے آخر میں کام دیا جاتا تھا جس نے اس کے ذہنی تناؤ میں اضافہ کیا۔ کام کی وجہ سے بڑھتے ذہنی دباؤ کے بارے میں اینا نے ہم سے بات کی۔ ہم نے اس سے کہا کہ اتنا کام نہ کرے۔ لیکن اس کے مینیجر نے اس کے بڑھتے ہوئے ذہنی دباؤ پر توجہ نہیں دی۔ ایک بار اسے رات گئے ایک کام کرنے کو کہا گیا جو اسے صبح تک مکمل کرنا تھا۔ جب اس نے کہا کہ اس کے پاس آرام کرنے کا وقت نہیں ہو گا تو اسے کہا گیا کہ آپ رات کو یہ کام ختم کر سکتی ہیں۔ ہر کوئی کرتا ہے۔'

'وہ رات گئے کام سے واپس آتی تھی اور بہت تھک جاتی تھی۔ سوتے وقت بھی اسے دفتر سے میسجز آتے رہتے تھے۔ پھر بھی وہ مقررہ وقت میں اپنا کام مکمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اینا نے اپنے مینیجرز کے رویوں کے بارے میں کبھی شکایت نہیں کی۔ لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ نوکری شروع کرنے والوں کو دن رات اتنا کام کرنا پڑے جو ویک اینڈ پر بھی جاری رہے۔ اسی کام کے دباؤ کی وجہ سے ہماری نوجوان لڑکی جان کی بازی ہار گئی۔ تاہم اس کے بعد بھی کمپنی کی طرف سے کوئی اس کے جنازے پر نہیں آیا۔'

میں نے اس کے مینیجر سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ اس نے سی اے کرنے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے کئی سال گزارے۔ لیکن ان تمام سالوں کی محنت چار ماہ میں کمپنی کی جانب سے تناؤ کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔'

ایک ماں کی حیثیت سے مجھے امید ہے کہ اس خط پر توجہ دی جائے گی اور کمپنی میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی تاکہ کسی اور کو ہماری طرح تکلیف سے نہ گزرنا پڑے۔'

انڈیا میں سیکس کے لیے ’رضامندی کی عمر‘ پر بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟انڈیا کا تین دہائی پرانا سیکس سکینڈل، جس میں لڑکیوں کو’شادی کا لالچ‘ دے کر ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیںعرفی جاوید: ’سیکس سین کروانے کے لیے سیٹ پر میرے کپڑے زبردستی پھاڑ دیے گئے‘محبت میں گرفتار ہو کر انڈیا پہنچنے والی پاکستانی خاتون: ’پب جی گیم کے ذریعے میری بیوی کو ورغلایا گیا، بچوں سمیت واپس لایا جائے‘کمپنی کا کردار

بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے ارنسٹ اینڈ ینگ کے کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کی اسوسی ایٹ ڈائریکٹر پشپانجلی سنگھ نے اعتراف کیا کہ کمپنی کے چیئرمین راجیو میمانی کو ای میل موصول ہوئی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جس وقت ای میل آئی تب ہی وہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’اینا کی دوست نے ہمیں بتایا کہ انھیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ اس کے بعد ان کے مینیجر، ایچ آر اور ساتھی ہسپتال پہنچ گئے۔ ہم ان کی موت کے بعد سے ان کے اہل خانہ سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انھوں نے اس سے پہلے اس طرح کی کسی بھی قسم کی شکایت کا اظہار نہیں کیا۔‘

پشپانجلی سنگھ نے مزید بتایا کہ ’ای میل موصول ہونے کے بعد چیئرمین راجیو میمانی نے فوراً اس کا جواب دیا ہے۔ انھوں نے (اینا) کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ایک ٹیم بھیجنے کی بھی ہدایت جاری کی ہے۔ ہو سکتا ہے اینا کی آخری رسومات کوچی میں انجان دی گئی ہوں، شاید اس لیے کوئی بھی (جنازے پر) نہیں جا سکا۔‘

تاہم کمپنی کی جانب سے جاری کیے گئے پریس ریلیز میں چیئرمین راجیو میمانی نے کہا ’ہمیں اینا کی موت کا بہت دکھ ہے۔ وہ ہماری آڈٹ ٹیم میں کام کر رہی تھیں جس کی سربراہی ایس آر باٹلی بوائے کر رہے تھے۔

’اس المناک واقعے کی وجہ سے ان کے کیریئر کا سفر ختم ہو گیا۔ ہمارے لیے انھیں کھونا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہم کسی بھی طرح اینا کے خاندان کو ان کی جان کا معاوضہ نہیں دے سکتے لیکن ہم نے انھیں ہر طرح کی مدد فراہم کی ہے اور فراہم کرتے رہیں گے۔‘

'ہم نے اینا کے اہل خانہ کی جانب سے بھیجی گئی اس ای میل کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ ہمارے ملازمین کی صحت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اپنے ایک لاکھ ملازمین کو کام کرنے کا بہتر ماحول فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔‘

Getty Imagesحکومت کا رد عمل

اینا کی موت کے معاملے کو اب براہ راست وفاقی حکومت دیکھ رہی ہے۔ وزیر محنت شوبھا کرنڈلاجے نے اپنے ایکس اکاؤنٹ (سابقہ ٹوئٹر) پر اعلان کیا ہے کہ معمالے کی تحقیقات کی جائیں گی۔

ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ’ہمیں اینا سیباسٹین پیریئل کی موت کا دکھ ہے۔ اس معاملے میں کام کرنے کی غیر محفوظ جگہ اور استحصال کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہم اہلِخانہ کو انصاف دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس حوالے سے وزارت محنت کی جانب سے شکایت درج کروا دی گئی ہے۔‘

مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار نے بھی اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔

اجیت پوار نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ ’نوجوانوں کو اتنے زیادہ ذہنی تناؤ کا سامنا ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ ہمیں نوجوانوں پر کام کے دباؤ سے ہونے والی اموات کے بڑھتے ہوئے کیسز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے ارنسٹ اینڈ ینگ سے کہا ہے کہ وہ اپنے دفتر میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے اصلاحی اقدامات نافذ کریں۔

’سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں‘: انڈیا کی وہ فلم انڈسٹری جہاں اداکاروں کو کام کے لیے ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہےخواتین کے ساتھ رات گزارنے اور انھیں ’حاملہ‘ کرنے کی نوکری: سینکڑوں مرد پیسے اور سیکس کے لالچ میں آ کر کیسے لُٹے؟عرفی جاوید: ’سیکس سین کروانے کے لیے سیٹ پر میرے کپڑے زبردستی پھاڑ دیے گئے‘انڈیا کا تین دہائی پرانا سیکس سکینڈل، جس میں لڑکیوں کو’شادی کا لالچ‘ دے کر ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیںانڈیا میں سیکس کے لیے ’رضامندی کی عمر‘ پر بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More