پی ٹی آئی رہنماؤں کی پارلیمنٹ سے گرفتاری کا معاملہ: ’پارلیمان کی بے توقیری قبول نہیں، گرفتار ارکان کو فوری رہا کیا جائے، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق

بی بی سی اردو  |  Sep 10, 2024

Getty Images

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے گذشتہ روز پی ٹی آئی کے ارکان کی مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتاری کے معاملے پر کہا ہے کہ پارلیمان کی بے توقیری قبول نہیں، گرفتار ارکان پارلیمان کو فوری رہا کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں گرفتار ارکان کے پروڈکش آرڈر جاری کروں گا اور معاملے کی انکوائری ہو گی۔

سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے آئی جی اسلام آباد کو اس واقعے پر طلب کر کے ان کی سرزنش بھی کی ہے۔

اس سے قبل منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران انھوں نے اس معاملے پر کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’قانون اور آئین کی پاسداری ہونی چاہیے، ہمیں گذشتہ روز کے واقعے کو سنجیدہ لینا ہو گا۔‘

سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ایسا اقدام کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹواؤں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کل جو کچھ ہوا اس پر پارلیمنٹ کے تمام داخلی دروازوں کی فوٹیجز منگوا لی ہیں تا کہ ہم ذمہ داروں کا تعین کر سکیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز پی ٹی آئی کہ ارکان اسمبلی کو اسلام آباد پولیس نے مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ قانون اور ضابطے کے مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ کے احاطے سے کسی بھی رکن کو سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور ایم این اے شیر افضل مروت کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد پولیس نے پارلیمنٹ کے کابینہ ڈویژن والے عقبی دروازے سے تحریک انصاف کے رہنما شیخ وقاص اکرم اور زین قریشی کو گرفتارکیا جبکہ عامر ڈوگر، اویس، احمد چٹھہ، شاہ احد، نسیم علی شاہ اور یوسف خان کو بھی حراست میں لیاجبکہ پی ٹی آئی کے وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی زبیر خان کو بھی پارلیمنٹ کے باہر سے گرفتار کیا گیا۔

’کل رات جمہوریت کا نو مئی تھا، آرٹیکل چھ لگانا ہے تو حکم دینے والوں پر لگاؤ‘

پاکستان تحریک انصاف کے رکن پارلیمان علی محمد خان نے بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے گذشتہ روز کے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔‘

منگل کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ ’کل رات جس نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا، جہاں سے اس کا آرڈر آیا، اگر آرٹیکل چھ لگانا ہے تو ان پر لگاؤ، ان پر لگنا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ارکان پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ سے اُٹھا کر لے جایا گیا۔‘

علی محمد خان نے مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے ہونے والی گرفتاریوں کو ’پاکستان پر حملہ‘ قرار دیا اور کہا کہ ’اگر جناح ہاؤس پر حملہ پاکستان پر حملہ تھا تو کیا پارلیمنٹ پر حملہ پاکستان پر حملہ نہیں؟ کیا پارلیمنٹ پر حملہ آئین پر حملہ نہیں؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کل رات ہمارے رہنماؤں کو پارلیمنٹ ہاؤس، مسجد اور حجرے سے اٹھایا گیا، کل رات جو ہوا، وہ پاکستان کی جمہوریت کا نو مئی تھا، جسے پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم میں عمران خان کا مقدمہ نہیں لڑ رہا ہوں، آج میرا مقدمہ جمہوریت کا ہے، کل رات جو ہوا، پارلیمان کے ساتھ ہوا ہے، سپیکر صاحب، ہم اسرائیل میں نہیں، پاکستان میں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کل رات آپ کے ساتھ اراکین پارلیمنٹ نے اس ایوان میں پناہ لی، وہ چھپتے پھرے کہ پناہ مل جائے، پھر مسجد میں پناہ لینے والے مولانا نسیم صاحب کو بھی اٹھا لیا گیا۔‘

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں: ’موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ہو گا‘فیض حمید اور تحریکِ انصاف: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد عمران خان کی جماعت کا نام بار بار کیوں لیا جا رہا ہے؟عدالتی ریلیف کے بعد فوج کی حراست میں دیے جانے کا خدشہ: ’یہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے فوجی عدالت بھیجنا چاہتے ہیں‘عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ قومی تاریخ جو قربانیوں سے بھری پڑی ہے، جس میں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کی لاش بھی ہے، جس میں عمران خان کے جسم پر لگنے والی چار گولیاں بھی ہیں، لیکن افسوس ہے کہ کل رات انڈیا، امریکہ اور اسرائیل سے نہیں، میرے اپنے وطن کے اداروں کے کچھ لوگ، کون تھے وہ نقاب پوش لوگ جو پاکستان کے عوام میں گھس گئے اور یہاں سے ہمارے لوگوں کو اٹھا کر لے گئے، یہ جمہوریت، پاکستان اور آئین پر حملہ ہے۔‘

علی محمد خان نے کہا کہ کل رات جس نے پاکستان کے پارلیمنٹ پر ہلہ بولا ہے، جہاں، جہاں سے یہ حکم آیا ہے، اگر آرٹیکل چھ لگانا ہے تو ان پر لگاؤ، ان پر لگنا چاہیے۔‘

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اسے اپنے بے عزتی سمجھے یا اپنے پر حملہ سمجھے تو یہ حملہ عمران خان، عامر ڈوگر، شیخ وقاص پر نہیں بلکہ یہ حملہ سپیکر صاحب آپ پر، وزیر اعظم شہباز شریف، شہید بینظیر کے بیٹے بلاول بھٹو پر ہے۔‘

’پارلیمنٹ میں گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھی اس معاملے پر حزب اختلاف کی حمایت کرتے دکھائی دیے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی پی کے سینیر رہنما نوید قمر نے کہا کہ کل جو ہوا اس حوالے سے جو الزامات سامنے آ رہے ہیں، یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔

انھوں نے سپیکر ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’میں آپ کو اس وقت بطور ہاؤس کے کسٹوڈین مخاطب کر رہا ہوں، اس وقت جو الزامات سامنے آ رہے ہیں جن پر یقین نہ کرنے کے لیے میرے پاس کوئی وجہ نہیں، یہ پورے آئین، پوری پارلیمنٹ پر بہت سنجیدہ حملہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یاد ہوگا کہ جب ماضی میں عمران خان یا ان کی جماعت پارلیمان کے مرکزی دروازے تک پہنچی تھی تو اس کو بھی ہم نے پارلیمنٹ پر حملہ اور قابل مذمت قرار دیا تھا، تو اگر پارلیمنٹ کے اندر گھس کر اراکین کو گرفتار کیا گیا تو باقی کیا بچا، یہاں ایوان میں آئیں گے اور آپ کو گرفتار کریں گے، اس پر آپ کو سنجیدہ انکوائری کرکے سنجیدہ ایکشن لینا پڑے گا۔‘

نوید قمر نے کہا کہ اگر ایکشن نہ لیا گیا تو پھر یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں، یہ تو شروعات ہے، جب پارلیمنٹ پر حملے کی بات ہو تو ہم سب ایک ساتھ کھڑے ہوں، یہاں تو عزت کیا، یہاں تو مجھے مستقبل ہی نظر نہیں آرہا۔‘

جمعیت علما اسلام کی رکن اسمبلی شاہدہ اختر نے کہا کہ ’یہ اقدام کسی طرح بھی جمہوری نہیں ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اگر ایکشن نہ لیا تو یہ پارلیمنٹ کمزور سے کمزورہو جائے گی۔‘

’پی ٹی آئی نے پاکستان کے وجود کو چیلنج کیا ، کل کا عمل پرسوں کا ری ایکشن تھا‘

اگرچہ حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے اس واقعے پر اب تک باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے مگر بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے گذشتہ روز کے واقعے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’کل کا عمل پرسوں کا ری ایکشن تھا، پاکستان کے وجود کو پرسوں چیلنج کیا گیا، پاکستان کے فیڈریشن کو چیلنج کیا گیا، اس کے بعد آپ کیا توقع رکھتے ہیں، یہ جب بھی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں فوج سے بات کرنی ہے، یہ سیاسی ڈی این اے کا مسئلہ ہے، جب فوج نے آپ کو لانچ کیا ہو تو اپ بار بار ان کے پاس جاتے ہیں، کوئی سیاسی مسئلہ ہو تو فوج سے بات کیوں کریں؟‘

سپیکر نے وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 2014 میں جب ایک جماعت اور اس کے کزن نے پارلمنٹ پر حملہ کیا تو بد قسمتی سے اس وقت بھی میں اس کرسی پر تھا۔ سنہ 2014 میں پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تھا اس کا مقدمہ درج ہوا تھا، جو ہوا اس پر ہم نے ایکشن لینا ہے، اس پر ہم نے خاموش نہیں رہنا۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2014 میں تحریک انصاف نے طاہرالقادری کے ساتھ مل کر ڈی چوک میں ایک دھرنا دیا تھا جو 126 دن تک جاری رہا تھا۔

اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بطور کسٹوڈین جو بات آپ نے کی، اس سے صائب رائے نہیں ہوسکتی، ہمیں اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے، زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، اگر آپ زہر بوئیں گے تو پھول نکلیں گے لیکن ہوں گے زہریلے، میٹھا بویا کریں، میٹھا بوئیں گے تو میٹھا اگے گا، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپیکر نے بہت اچھی بات کی، یہ اس ایوان کے تقدس کا مسئلہ ہے، ہم سب ان کے چیمبر میں آجاتے ہیں، لیکن اس کے بنیادی اسباب کو بھی دیکھنا چاہیے، اس طرح کے نظریات رکھ کر، اس طرح کی گفتگو کرکے یہ توقع رکھنا کہ رد عمل نہیں آئے گا، یہ نہیں ہوگا، قانون و آئین کی پاسداری ہونی چاہیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ جہاں ہماری غلطی ہوئی، اس کو مانیں گے، اس کی درستگی بھی کریں گے۔

Getty Imagesگذشتہ روز کیا واقعہ پیش آیا؟

پیر کی شب اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سمیت متعدد رہنماؤں کو مبینہ طور پر پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو اتوار کو اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں کیے جانے والے جلسے کو وقت پر ختم نہ کرنے، پولیس پر پتھراؤکرنے اور طے شدہ روٹ کی خلاف ورزیکرنے پر منتظمین کے خلاف درج تین مقدمات کے تحت گرفتار کیا۔

اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق پی ٹی آئی کے جلسے کے منتظمین کے خلاف پہلا مقدمہ تھانہ سنگجانی میں جلسے کے معینہ وقت کی پاس داری نہ کرنے پر،دوسرا مقدمہ تھانہ سمبل میں معینہ روٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قافلے سادات کالونی اور سری نگرہائی وے سے لانے پر جبکہ تیسرا مقدمہ ایس ایس پی سیف سٹی سمیت دیگر پولیس اہل کاروں پر پتھراؤ کرنے پر تھانہ نون میں درج کیا گیا تھا۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو خط لکھ کر پارلیمانی اور جمہوری روایات کی ’پامالی‘ کی مذمت کی۔

عمر ایوب نے اپنے خط میں لکھا کہ پارلیمنٹ سے جس طریقے سے اراکین اسمبلی کو گرفتار کیا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس پر ’میں آپ سے نہ کوئی مطالبہ کرتا ہوں اور نہ کوئی امید وابستہ کرتا ہوں۔‘

کسی بھی رکن پارلیمان کو پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتار کرنے کا مجوزہ طریقہ کار کیا ہے؟

قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق پولیس یا قانون نافذ کرنے اداروں کے اہلکار پارلیمنٹ کے احاطے سے رکن پارلیمان تو درکنار قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ کے کسی ملازم کوسپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتے۔

پارلیمنٹ کے احاطےمیں قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات بھی ہوتے ہیں اور وہ چاہے تو وہ کسی کو گرفتار بھی کرواسکتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق اگر کسی بھی رکن قومی اسمبلی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے اور وہ پولیس کو مطلوب ہے تو پولیس سپیکر قومی اسمبلی کی پیشگی اجازت کے بعد ہی رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کر سکتی ہے۔

اڈیالہ سے آکسفرڈ تک۔۔۔سردار اختر مینگل: ’حکومت کو اب پہاڑوں پر موجود آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے بات کرنا ہو گی‘ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں: ’موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ہو گا‘فیض حمید اور تحریکِ انصاف: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد عمران خان کی جماعت کا نام بار بار کیوں لیا جا رہا ہے؟عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘عدالتی ریلیف کے بعد فوج کی حراست میں دیے جانے کا خدشہ: ’یہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے فوجی عدالت بھیجنا چاہتے ہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More