فری لانسنگ کرنے والے فنکار جن کی آوازیں ’چُرا کر لاکھوں بار فروخت کی گئیں‘

بی بی سی اردو  |  Sep 07, 2024

BBC

ہم نے حالیہ برسوں کے دوران یہ بات کئی بار سنی ہے کہ ایک دن مصنوعی ذہانت ہماری نوکریاں چھین لے گی۔

لیکن پال سکائی لیرمین کو یہ بات کسی غیر متوقع آفت جیسی محسوس ہوئی جب انھوں نے ایک دن اپنی آواز استعمال ہوتی سنی۔

جون 2023 کے دوران پال اور ان کی پارٹنر لینیا سیج نیو یارک میں اپنے گھر کے قریب گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔ وہ ایک پوڈ کاسٹ سن رہے تھے جس میں بتایا جا رہا تھا کہ ہالی وڈ میں ہڑتال جاری ہے اور فنکاروں کو خدشہ ہے کہ مصنوعی ذہانت انھیں بے روزگار کر دے گی۔

اس جوڑے کے لیے یہ پوڈ کاسٹ دلچسپ تھی کیونکہ دونوں وائس اوور آرٹسٹ ہیں۔ انھیں بھی یہ ڈر لگتا رہتا تھا کہ انسانوں کی طرح بولنے والے ’وائس جنریٹر‘ ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔

پوڈ کاسٹ کے دوران ایک اے آئی چیٹ بوٹ کا انٹرویو لیا جا رہا تھا۔ اس چیٹ بوٹ میں تحریر کو بات چیت میں بدلنے والا سافٹ ویئر (ٹیکسٹ ٹو سپیچ) بھی نصب تھا۔ اس میں بتایا جا رہا تھا کہ مصنوعی ذہانت ہالی وڈ میں کام کرنے والوں کو بے روزگار بھی کر سکتی ہے۔

لیکن جب اس چیٹ بوٹ نے بات کرنا شروع کی تو اس کی آواز لیرمین جیسی ہی تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ یہ سن کر ’ہم نے گاڑی ایک طرف کھڑی کر دی۔‘

’مصنوعی ذہانت تفریح کی صنعت کا رُخ کر رہی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میری ہی آواز میں مجھے بتایا جا رہا ہے کہ یہ صنعت ممکنہ طور پر تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ میرے لیے حیران کن تھا۔‘

اس رات جوڑے نے آن لائن چھان بین شروع کر دی تاکہ یہ پتا لگ سکے کہ ان کی آواز کیسے چُرائی گئی۔

وہ ایک ٹیکسٹ ٹو سپیچ پلیٹ فارم لووہ تک پہنچ گئے۔ یہاں لیرمین کی پارٹنر سیج کی آواز کی نقل بھی دستیاب تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں حیران رہ گئی۔ مجھے اس پر یقین ہی نہیں آیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ٹیکنالوجی کمپنی نے ہماری آوازیں چُرائیں، ان کے اے آئی کلون تیار کیے اور انھیں ممکنہ طور پر لاکھوں مرتبہ فروخت کیا۔‘

اس جوڑے نے اب لووہ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔ کمپنی نے بی بی سی کے سوال پر تاحال جواب نہیں دیا ہے۔

’کلون وار‘

ٹیکنالوجی کمپنی لووہ نے اتنی ساری آوازوں کی نقول کیسے تیار کیں؟ جوڑے کا الزام ہے کہ یہ بدنیتی پر مبنی ایک منصوبے کے تحت کیا گیا۔

لووہ کے شریک بانی ٹام لی ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وائس کلوننگ سافٹ ویئر صرف 50 جملوں کے ذریعے آپ کا وائس کلون تیار کر سکتا ہے۔

انھوں نے ایک پوڈ کاسٹ کے دوران بتایا تھا کہ سافٹ ویئر آواز کا لہجہ، انفرادیت اور سٹائل سمیت تمام چیزوں کو نقل کر سکتا ہے۔

اس مقدمے میں جوڑی نے بتایا کہ لووہ نے ان کی آوازیں کیسے ریکارڈ کیں۔

ان کا الزام ہے کہ کمپنی کے ملازمین نے نام ظاہر کیے بغیر ان سے فری لانسنگ کی مشہور ویب سایٹ فائیور پر رابطہ کیا تاکہ ان کی آوازیں ریکارڈ کر سکیں۔

کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشہ کی وائرل تصویر کی حقیقت کیا ہے؟مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیںدنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ جس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیںمصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟BBC

یہ دونوں وہاں وائس اوورز کے لیے اپنی خدمات دیتے رہتے ہیں، جیسے ٹیلی ویژن، ریڈیو، ویڈیو گیم یا دیگر مواد کے لیے۔

سنہ 2019 کے دوران سیج سے ایک صارف نے رابطہ کیا اور ان سے ریڈیو سکرپٹ کی ٹیسٹ ریکارڈنگز کے طور پر آواز کے نمونے حاصل کیے۔

ٹیسٹ ریکارڈنگز اکثر تب کی جاتی ہیں جب کسی فلم یا ٹی وی شو پر کام جاری ہو۔ ان ریکارڈنگز کو فوکس گروپس، میٹنگز یا فنکاروں کی شوٹنگ کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان آوازوں کو وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا جاتا، اس لیے ان پر کم لاگت آتی ہے۔

جب سیج نے یہ ریکارڈنگز مکمل کرتے ہوئے فائل ٹرانسفر کی تو انھیں 400 ڈالر کا معاوضہ ملا۔

چھ ماہ بعد لیرمین کو اسی طرح کی پیشکش کی گئی۔ انھیں کہا گیا کہ ریڈیو پر چلنے والے اشتہاروں میں آوازوں کی ریکارڈنگز درکار ہیں۔

ایک نامعلوم فائیور صارف نے ان سے کہا کہ اس آڈیو کو صرف تحقیق کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ انھیں ضمانت دی گئی کہ اسے باہر کہیں استعمال نہیں کیا جائے گا۔ مگر انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ ’میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ یہ کام رازداری میں کیا جا رہا ہے۔‘

لیرمین کو اس کام کا 1200 ڈالر معاوضہ ملا۔

بعد میں انھیں اسی ٹیکنالوجی کمپنی سے معلوم ہوا کہ یہ نامعلوم صارف دراصل لووہ کے لیے ہی کام کر رہا تھا۔ کمپنی نے اُس گفتگو کا حوالہ دے کر کہا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

لیرمین کہتے ہیں کہ انھوں نے فائیور پر گذشتہ ایک دہائی کے دوران ’ایک لاکھ سے زیادہ آڈیو ریکارڈنگز دی ہیں۔‘

لیرمین اور سیج نے کمپنی کے ساتھ کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں کیا تھا۔ ان کے پاس صرف ایک نامعلوم صارف کے ساتھ کی گئی گفتگو ہے۔

بی بی سی اس گفتگو کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ جوڑے کا کہنا ہے کہ کچھ پیغامات اب حذف کر دیے گئے ہیں۔ ان الزامات پر لووہ سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

BBCاس بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

مقدمے میں لووہ پر الزام ہے کہ اس نے بلا اجازت اور معاوضہ دیے بغیر لیرمین اور سیج کے ایسے وائس کلون تیار کیے جو اب انھی سے مدمقابل ہیں۔ جوڑے کو امید ہے کہ اس مقدمے میں اب اور لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے۔

یہ امریکی قوانین کے تحت رائٹس آف پبلسٹی کا مقدمہ ہے جسے پرسنیلٹی رائٹس بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں جو کسی کی تصویر یا آواز کے غلط استعمال کے زمرے میں آتی ہیں۔

پروفیسر کرسٹیلیا گارسیا کا تعلق واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے ہے اور وہ انٹیلیچوئل پراپرٹی لا کی ماہر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ممکنہ طور پر اس میں سیج اور لیرمین کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ ’لائسنس میں کسی مخصوص چیز کی اجازت دی جاتی ہے۔ (مثلاً) آپ کو ایک شام کے لیے میرا سوئمنگ پول استعمال کرنے کی اجازت ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جب چاہیں میرا سوئمنگ پول استعمال کر لیں۔‘

’ایسا کرنے پر لائسنس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘

اس کیس کے نتائج جو بھی ہوں، امریکہ میں مصنفین، فنکاروں اور دیگر افراد نے ایسے کئی مقدمے دائر کیے ہیں جن میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ان کا روزگار متاثر ہوا ہے۔

فنانشل کمپنی کلارنا نے کہا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت استعمال کر کے اپنے ملازمین کی تعداد نصف کر دے گی۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے 40 فیصد نوکریاں متاثر ہوں گی۔

سیج کہتی ہیں کہ ’یہ واقعہ ناقابل یقین ہے۔

’جب ہم مصنوعی ذہانت کے بارے میں سوچتے تھے تو ہمیں لگتا تھا کہ یہ ہماری لانڈری فولڈ کرے گی یا ہمارے لیے کھانا بنائے گی۔

’ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کی تخلیقی قابلیت حاصل کر لے گی۔‘

مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیںکارساز حادثہ: ملزمہ نتاشہ کی وائرل تصویر کی حقیقت کیا ہے؟دنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ جس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں’چیٹ بوٹس جلد ہی ہم سے زیادہ ذہین ہوں گے:‘ مصنوعی ذہانت کے ’گاڈ فادر‘ گوگل سے مستعفیمصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟’آل آئز آن رفح‘: انڈیا میں ’بائیکاٹ بالی وڈ‘ کے ٹرینڈ کا باعث بننے والی اے آئی سے بنی تصویر اتنی وائرل کیوں ہوئی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More